چینی کرنسی اور موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کے معاشی اثرات

پاکستانی معیشت کے حوالے سے کچھ مثبت خبریں سننے میں آ رہی ہیں۔ اگلے روز چینی سینٹرل بینک کے ترجمان نے کہا ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پیپلز بینک آف چائنا نے ڈالر کے بجائے یوآن میں تجارت کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے میمورنڈم آف کوآپریشن پر دستخط کیے گئے ہیں۔ یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا چینی کرنسی میں تجارت سے پاکستان کو بھی کوئی فائدہ حاصل ہو سکے گا یا نہیں۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کو ڈالرز کی کمی کا سامنا ہے۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے روس سے سستا تیل خریدنے کے آپشنز پر کام کیا جا رہا ہے لیکن اس میں بھی ایک بڑا مسئلہ روس کو رقم کی ادائیگی کا ہے۔ امریکی پابندیوں کے باعث روس کو ڈالرز میں ادائیگی کرنا تقریباً ناممکن ہے لیکن روس چینی کرنسی میں بھی تجارت کر رہا ہے۔ پاکستان بھی روس کو تیل کی ادائیگی یوآن میں کر سکتا ہے۔ اس سے ڈالرز کی بچت ہو سکے گی‘ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو سکے گا اور زرِمبادلہ کے ذخائر میں مزید بہتری بھی آ سکے گی۔ روس کی چین کے ساتھ تجارتی ادائیگیوں کا تیسرا حصہ یوآن میں منتقل ہو چکا ہے۔ بھارت اور روس میں مقامی کرنسیوں میں تجارت کا معاہدہ ہو چکا ہے لیکن بھارتی روپے کی گرتی ہوئی قیمت کے باعث روسی کاروباری طبقہ بھارتی روپے میں تجارت کرنے سے گریزاں ہے اور ستر فیصد ادائیگی ڈالرز میں کرتا ہے۔ روس پاکستان کے ساتھ بھی پاکستانی روپے میں تجارت کرنے سے گریزاں ہے لیکن چین سے بہتر تعلقات اور نئے تجارتی معاہدوں کی وجہ سے یوآن کی دستیابی آسان ہو سکتی ہے جس کا فائدہ پاکستان کو ہو سکے گا۔
چین اور پاکستان کے درمیان مقامی کرنسی میں تجارتی معاہدہ پہلی مرتبہ 2011ء میں ہوا تھا۔ اس طرح کا ایک معاہدہ 2018ء میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے دورۂ چین کے دوران بھی کیا گیا تھا لیکن دونوں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ اس کے باوجود سٹیٹ بینک نے چینی کرنسی کو ہر قسم کی ادائیگی کے لیے آفیشل کرنسی ڈکلیئر کر رکھا ہے۔ پاکستان چین سے تقریباً 25 ارب ڈالرز کی درآمدات کرتا ہے جن کی ادائیگی ڈالرز میں کی جاتی ہے۔ اگر یہ ادائیگی یوآن میں کی جائے تو پاکستان سالانہ 25 ارب ڈالرز بچا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں سالانہ ادائیگی تقریباً 15 ارب ڈالرز ہے۔ روس کے ساتھ معاہدے کے بعد یہ رقم بھی ڈالرز کے بجائے یوآن میں ادا کی جا سکے گی جس سے مزید 15 ارب ڈالرز بچائے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کی ٹوٹل سالانہ درآمدات تقریباً 84ارب ڈالرز ہے۔ ان میں سے 40 ارب ڈالرز کی ادائیگی یوآن میں ہونے سے تقریباً درآمدات کا آدھا بوجھ کم ہو سکے گا۔ اور ڈالر کی رسد اس کی طلب سے بڑھ سکتی ہے لیکن اس معاہدے میں پاکستان کو تقریباً 3 ارب ڈالرز کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان کی چین کے ساتھ برآمدات تقریباً تین ارب ڈالرز ہیں لیکن فائدہ نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔
اب بات اقوامِ متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس کی جو 7نومبر سے مصر میں شروع ہونے جا رہی ہے۔ بیشتر عالمی مالیاتی اداروں سمیت90 ممالک اس کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ اگر پاکستان نے اس کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کا اپنا کیس بہتر انداز میں پیش کیا تو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سنجیدہ اور نیوٹرل ممالک پاکستان کی مدد کر سکتے ہیں۔ امید ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں دنیا پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔ وزیراعظم اس سے پہلے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں سیلاب سے ہونے والے نقصان پر کھل کر بات کر چکے ہیں۔ وہاں بھی عالمی برادری سے مالی امداد کی درخواست کی گئی تھی لیکن تاحال مطلوبہ امداد حاصل نہیں ہو سکی۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے کیلئے پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں جس کے بعد انہوں نے عالمی برادری سے پاکستان کی مدد کی اپیل کی تھی۔ وفاقی وزیر شیری رحمان صاحبہ کے مطابق پاکستان کو اس عالمی کانفرنس کا ایجنڈا تشکیل دینے میں شامل کیا گیا تھا لہٰذا پاکستان بہتر طور پر اپنا کیس پیش کر سکے گا۔ مگر میرے مطابق پاکستان کو اس کا فوری فائدہ حاصل نہیں ہو سکے گا اور ممکنہ طور پر پاکستان کی تجاویز کو موسمیاتی تبدیلی کی اگلی عالمی کانفرنس میں شامل کیا جائے گا۔
یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ اس بار عالمی برادری شاید پاکستان کی مالی مدد کرنا ہی نہیں چاہتی۔ امریکہ نے 2010ء کے سیلاب میں پاکستان کو تقریباً 6سو ملین ڈالرز کی امداد دی تھی جبکہ 2022ء کے سیلاب میں صرف 53ء ملین ڈالرز امداد کے وعدے کیے گئے ہیں۔ 2010ء کے سیلاب میں پہلے پندرہ دنوں میں تقریباً ساٹھ ممالک نے پاکستان کی امداد کی تھی لیکن 2022ء کے سیلاب میں تقریباً 12 ممالک نے ہی پاکستان امداد کی ہے۔ ایسی صورتحال میں مصر میں منعقد ہونے والے موسمیاتی تبدیلی کانفرنس پاکستان کے لیے ایک اچھا موقع ہے کہ وہ عالمی برادری کے سامنے اپنا کیس مضبوط طریقے سے پیش کر سکے۔ گوکہ عالمی طاقتیں اس وقت خود مالی بحران کا شکار ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں سنٹرل بینکس شرح سود بڑھا رہے ہیں تا کہ معیشت کی رفتار کو سست رکھا جا سکے۔ جو تھوڑا بہت بجٹ انہوں نے رکھا ہوا تھا وہ یوکرین کی امداد میں صرف ہو رہا ہے۔ جہاں تک مصر سے پاکستان کو ملنے والی امداد کا تعلق ہے تو فی الحال ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ مصر کی اپنی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ وہ خود عالمی طاقتوں سے مالی مدد کی درخواست کر رہا ہے۔ اس کانفرنس کی سائیڈ لائنز میں مصر اور پاکستان کے درمیان تجارت بڑھانے پر بات ہو سکتی ہے۔ اس وقت پاکستان اور مصر کا تجارتی حجم تقریباً 4سو ملین ڈالرز ہے جس میں 3سو ملین ڈالرز مصر کی پاکستان کو برآمدات ہیں۔ مصر پاکستان کو گیس فراہم کرتا ہے۔ اگر تجارتی روابط بڑھے بھی تو اس کا فائدہ پاکستان کے بجائے مصر کو زیادہ ہو گا۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کے باعث اس وقت سعودی عرب کی معاشی حالت بہتر ہے اور ممکن ہے کہ وہ اس کانفرنس میں پاکستان کی مالی امداد کر سکے۔
اگر موسمیاتی تبدیلیوں کی بڑی وجہ مثلاً کاربن کے اخراج میں پاکستان کے حصے کی بات کی جائے تو یہ صرف ایک فیصد ہے جبکہ ان کے باعث ہونے والے نقصانات میں پاکستان پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔ صرف تین بڑے ممالک گلوبل گرین ہاؤس گیسز کا 42 فیصد خارج کرتے ہیں۔ ان ممالک کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک کے نقصانات کی بھرپائی کریں اور ایک ایسا نظام بنانے میں مدد کریں جو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کی پیشگی اطلاع دے سکے تاکہ یہ ممالک بچائو کی بروقت حکمت عملی تیار کر سکیں۔ پاکستان نے اپنے تئیں بلین ٹری منصوبے پر کام کیا ہے تاکہ پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کی نقصانات سے بچ سکیں‘ پاکستان میں ایسے مزید منصوبوں کے لیے بھی عالمی مدد درکار ہے۔
مصر میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں پاکستان کو ایسی منصوبہ بندی کے ساتھ شرکت کرنی چاہیے کہ جس سے ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے فرنس آئل کے بجائے پانی‘ ہوا اور سولر سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی مد میں بھی عالمی برادری کا تعاون حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان بھٹوں کو جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کے لیے بھی سرمایہ حاصل کر سکتا ہے۔ موجودہ کھادوں کے بجائے آرگینک کھادیں بنانے کے منصوبے لگانے کے لیے بھی سرمایہ طلب کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں جدید زرعی آلات کی تیاری کی مد میں بھی عالمی برادری کا تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے جس کی مدد سے فصلوں کی باقیات جلانے کے بجائے آسانی سے تلف کی جا سکتی ہیں۔اس سے سموگ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان کو براہِ راست مالی مدد ملنا ممکن نہیں لیکن ان منصوبوں کو بہتر انداز میں پیش کرنے سے کچھ ڈالرز پاکستان میں ضرور آ سکتے ہیں۔ حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ پاکستان کو دنیا کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے وسائل پر انحصار کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں