چیئرمین تحریک انصاف پر حملے کی ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے۔ اس مرتبہ بھی عدالتِ عظمیٰ کو مداخلت کرنا پڑی ہے اور سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر کسی فیصلے پر متفق نہیں ہو سکیں۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر کے مندرجات اس کی مرضی کے خلاف ہیں‘ وہ اس حوالے سے قانونی چارہ جوئی کرے گی۔ مقتدر حلقوں پرایف آئی آر کرانا کبھی بھی آسان نہیں رہا‘ وہ بھی ایسی صورت میں جب واضح ثبوت موجود نہ ہوں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر میں اس وقت کے وزیراعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر داخلہ پنجاب کے نام شامل کیے گئے تھے مگر یہ ایف آئی آر جس طرح درج ہوئی‘ وہ ایک الگ کہانی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے واقعات میں حکمرانوں پر مقدمے اور ایف آئی آرز ہوتی رہی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ملنے والی پھانسی کی سزا بھی ایک ایف آئی آر کا نتیجہ تھی اور یہ فیصلہ اب ہماری تاریخ میں ایک متنازع عدالتی فیصلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ موجودہ ایف آئی آر سے حاصل کیا ہو گا؟ ایک شخص اس حملے کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے اور پولیس کے مطابق صرف ایک حملہ آور ہی اس واقعے میں ملوث تھا۔
دیکھا جائے تو لبنان کے رفیق حریری، امریکی صدر کینیڈی اور بے نظیر بھٹو سمیت کئی عالمی و سیاسی شخصیات کے قتل کی تحقیقات کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ دیکھا گیا ہے کہ ہائی پروفائل افراد کے قتل کے فوری بعد دنیا بھر میں خوب چرچا ہوتا ہے مگر کچھ عرصے بعد عوام ان سانحات کو بھول جاتے ہیں اور پھر یہ ماضی کے ایک قصے کے طور پر ہی یاد رکھے جاتے ہیں۔ کامیاب لیڈر یا سیاسی رہنما اسے ہی مانا جاتا ہے جو اپنی زندگی کو بھی محفوظ رکھے اور عوام کی فلاح کے لیے بھی کام کرتا رہے۔ اس وقت یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کو وقتی طور پر لانگ مارچ سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ لمبی چھلانگ لگانے کے لیے دو قدم پیچھے ہٹنا ہی بہترحکمت عملی ہو سکتی ہے۔ بعض حلقوں میں عمران خان پر ہوئے حملے کو بے نظیر بھٹو کے قافلے پر کراچی‘ کارساز میں ہونے والے خود کش حملوں سے جوڑا جا رہا ہے۔ 18 اکتوبر 2007ء کو ہوئے اس حملے میں وہ محفوظ رہی تھیں۔ اس کے بعد انہیں جلسے اور ریلیاں کرنے سے منع کیا گیا تھا لیکن انہوں نے انتخابی مہم جاری رکھی اور پھر اگلے حملے میں وہ جان کی بازی ہار گئیں۔ چیئرمین تحریک انصاف نے آج (جمعرات) سے لانگ مارچ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان کے حالیہ بیانات اور لانگ مارچ کی حکمتِ عملی کیا رخ اختیار کرتی ہے‘ اس بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر محاذ آرائی اسی طرح جاری رہی تو مثبت نتائج آنے کی امید خاصی کم ہے اور معاشرے میں انتشار پھیلنے کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔
اس وقت پہلے ہی ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ڈالر ریٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف انتظامات کیے جا رہے ہیں لیکن ڈالر دو سو روپے کی سطح پر واپس آتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس وقت اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت تقریباً 230 روپے ہے۔ وزیر خزانہ جس اعتماد کے ساتھ ڈالر ریٹ دو سو روپے ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں‘ اب اس میں قدرے کمی دکھائی دے رہی ہے۔ شاید وہ احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ وزارتِ خزانہ سٹیٹ بینک پر ڈالر ریٹ کنٹرول کرنے کے لیے دبائو نہیں ڈال سکتی۔ شنید ہے کہ وزیر خزانہ صاحب کے ابتدائی دنوں کے بیانات کو آئی ایم ایف نے سنجیدہ لیا ہے اور انہیں سٹیٹ بینک کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ فی الحال حکومت کچھ پالیسیاں سامنے لائی ہے تا کہ ڈالر کی رسد اور طلب میں توازن برقرار رکھا جا سکے۔ نئی پالیسی کے مطابق بیرونِ ملک سفر کرنے والے مسافر دس ہزار کے بجائے صرف پانچ ہزار ڈالرز اور اسی مالیت کی فارن کرنسی کیش میں لے کر جا سکتے ہیں۔ اٹھارہ سال سے کم عمر مسافر صرف اڑھائی ہزار ڈالرز کیش میں لے جا سکتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر یہ حد تیس ہزار اور اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کے لیے پندرہ ہزار ڈالر ہے۔ یہ اقدامات بظاہر بڑا فرق نہیں ڈال سکیں گے کیونکہ ملک میں ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے ڈالرز بیرونِ ملک بھیجنے کا نظام اب تک کام کر رہا ہے۔ حال ہی میں ایف آئی اے نے ایک کارروائی کے نتیجے میں چار افراد کو حراست میں لیا ہے جن میں سے تین کو چمن بارڈر اور ایک کو کراچی سے گرفتار کیا گیا۔ یعنی ملک سے ڈالرز سمگلنگ کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا راستہ افغان بارڈر ہے اور ڈالر ریٹ کو قابو میں رکھنے کے لیے افغانستان والے معاملے کو دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ نئی پالیسی میں ڈالر افغانستان لے جانے کی پالیسی تبدیل نہیں کی گئی۔ ایک شخص ایک ہزار ڈالر روزانہ اور چھ ہزار ڈالر ماہانہ لے کر جا سکتا ہے۔ اس حد کو کم کیے جانے کی ضرورت ہے بلکہ اگر افغانستان میں کیش ڈالرز لے جانے پر مکمل پابندی لگا دی جائے تو اس کے بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیرونِ ملک ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ سے خریداری کی حد بھی تیس ہزار ڈالر کر دی گئی ہے۔ ایسا دیکھنے میں آ رہا تھا کہ بیرونِ ملک کمرشل اور کاروباری ٹرانزیکشنز بھی ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز سے کی جا رہی تھیں۔ میں نے مفتاح اسماعیل کے دور میں بھی اور اب بھی اپنی تحریروں کے ذریعے اس مسئلے پر آواز اٹھائی کہ بیرونِ ملک کریڈٹ؍ ڈیبٹ کارڈز کے استعمال کی ایک حد مقرر کی جائے۔ اس عمل سے ڈالرز کی رسد اور طلب میں فرق آ سکے گا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہنڈی حوالے کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو غیر قانونی طریقے سے ڈالر کی ترسیل بڑھ سکتی ہے جس سے معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ڈالر کو کنٹرول کرنے کے لیے محض ایک‘ دو اقدام پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے‘ بلکہ یہ ایک پورا پیکیج ہے اور اس حوالے سے چھ اطراف سے بندش کی ضرورت ہے۔ حکومت نے جولائی 2022ء سے ستمبر 2022ء تک گندم کی درآمدات کے حوالے سے تقریباً دو ارب ڈالرز خرچ کیے ہیں لیکن کوئی واضح ریلیف عوام تک پہنچتا دکھائی نہیں دیا۔ پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کے مطابق قیمتوں میں مطلوبہ کمی نہیں لائی جا سکی لیکن ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق کی وجہ سے قیمتوں کے بڑھنے کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ موقف کسی حد تک درست ہو سکتا ہے لیکن گندم کی درآمدات کی اجازت لیتے وقت قیمتیں پچھلے سال کی نسبت کم کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا جو پورا نہیں ہو سکا۔ مسلم لیگی حکومت مہنگائی میں کمی لانے کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے۔ (ن) لیگ پہلے ہی سیاسی کیپٹل گنوا چکی ہے۔ اگر گندم سمیت بنیادی ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں کمی نہیں آ سکی تو مزید سیاسی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ بین الاقوامی اداروں سے نو سو ملین ڈالرز حاصل کرنے کے لیے نیشنل ٹیکس کونسل نے سیلز ٹیکس کے حوالے سے چاروں صوبوں کو مطمئن کر دیا ہے اور وزیر خزانہ نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ معاملہ کئی ماہ پہلے ہی حل ہو جانا چاہیے تھا لیکن وزیر خزانہ کی تیزی سے تبدیلی معاملات میں تاخیر کا سبب بنی ہے۔ یہ معاملہ تقریباً دو سال سے التوا کا شکار تھا جسے اب حل کر لیا گیا ہے۔ امید ہے کہ قرضوں کے حصول کے لیے ملکی معاملات میں درپیش مزید مسائل بھی جلد حل کیے جا سکیں گے۔اس کے علاوہ حکومت نے اجارہ سکوک کے ذریعے پانچ سال کے لیے تقریباً چھیالیس ارب چوالیس کروڑروپے حاصل کیے ہیں۔ یہ رقم نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے اثاثوں کو گروی رکھ کر حاصل کی گئی۔ نجی بینک ان ٹرانزیکشنز میں معاون ہیں جو ان اثاثوں کو کرائے پر دے کر آمدن حاصل کریں گے۔ سکوک ٹرانزیکشنز اس حوالے سے بہتر ہیں کہ ان کا ریٹ کم ہوتا ہے، اثاثے بھی ملک میں رہتے ہیں اور قرض بھی مل جاتا ہے۔ یہ وقت مثبت اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھانے کا ہے۔ حکومت کی بہتر پالیسیوں کی حوصلہ افزائی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔