پاکستان میں اس وقت سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔ انتظامی اور سیاسی معاملات ایک مرتبہ پھر عدالتوں کے سپرد کیے جا رہے ہیں۔ ایک اہم تعیناتی سے متعلق ایک درخواست لاہور ہائیکورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف پر قاتلانہ حملے کا معاملہ بھی ابھی حل طلب ہے۔ حملے کی ایف آئی آر کا کیس عدالت میں ہے اور جے آئی ٹی میں تین مرتبہ تبدیلی کی جا چکی ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف کے زخموں کے حوالے سے سامنے آنے والی وڈیو پر بھی طرح طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ممکنہ طور پر یہ کیس بھی عدالت میں لے جایا جا سکتا ہے۔ توشہ خانہ کیس پہلے سے عدالت میں ہے۔ اس حوالے سے مبینہ طور پر گھڑی خریدنے والا ایک شخص سامنے آ گیا ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمان اور سوشل میڈیا ٹیم نے اس مبینہ خریدار کے سامنے آنے کو بھی ایک مخصوص زاویہ دے رکھا ہے اور اسے ایک سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف کے رہنمائوں کی جانب سے الیکشن کمیشن سے متعلق متنازع گفتگو کا معاملہ بھی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ اسے بھی سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کالم کے چھپنے تک کئی مزید نئے معاملات سامنے آ سکتے یا عدالت میں جا سکتے ہیں، اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی مخالفت اس نہج تک کیسے پہنچ گئی ہے کہ سیاستدان مل بیٹھ کر ایک معاملہ بھی حل نہیں کر سکتے اور جب تک کوئی بڑا نقصان نہ ہو جائے‘ تب تک تضحیک و استہزا والا رویہ اپنایا جاتا ہے؟
بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا گیا جب تک ان کی وفات نہیں ہو گئی۔ اسی طرح عمران خان پر ہوئے حملے کو سیاسی مخالفین کی جانب سے جعلی قرار دیا جا رہا ہے۔پہلے گولیاں لگنے کی بات کا مذاق اڑایا گیا، پھر جب وڈیو سامنے آ گئی تو اب مخالفین نے سوشل میڈیا پر سینکڑوں ایسی وڈیوز جاری کر دی ہیں جن میں جعلی زخم بنانے کے طریقے بتائے جا رہے ہیں اور چیئرمین تحریک انصاف کے زخموں کوجعلی قرار دینے کے لیے مختلف دلائل پیش کیے جا رہے ہیں۔ خدانخواستہ اس حملے میں زیادہ بڑا نقصان ہوتا تو ہی زخم اصلی تصور کیے جاتے؟ اور پھر مخالفین اس حادثے کو سانحہ قرار دے کر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہماری قوم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ جو اقدار بڑے بزرگ چھوڑ کر گئے تھے ان میں بہتری نہیں آ رہی بلکہ پستی کا رجحان غالب ہے۔ اس وقت الزامات کا ایک ایسا طوفان برپا ہے کہ عام آدمی کے لیے یہ فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ وہ کس کی بات پر یقین کرے اور کس کی بات کو غلط مانے۔ پہلے سوشل میڈیا پر یہ بات پھیلائی گئی کہ سعودی کرائون پرنس محمد بن سلمان نے گھڑیاں واپس خرید کر رقم وزیراعظم پاکستان کو ادا کی تھی اور اس کا ذکر مولانا فضل الرحمن نے اپنی گفتگو میں کئی مرتبہ کیا۔ اب ایک مبینہ خریدار سامنے آ گیا ہے جو پاکستانی عدالتوں میں آ کر بیان دینے پر بھی تیار دکھائی دیتا ہے۔ توشہ خانہ کا کیس تقریباً چھ ماہ سے میڈیا میں موجود ہے لیکن اب اس اہم موڑ پر ایک مبینہ خریدار کا سامنے آنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ میں یہ ہرگز کہنا نہیں چاہ رہا کہ یہ سب کچھ جھوٹ ہے لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ سب اتنا سچ بھی نہیں جتنا بتایا اور دکھایا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ کافی حد تک کنفیوز کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کی ذمہ داری ہے کہ وہ میڈیا پر آ کر یہ بتائیں کہ اصل حقائق کیا ہیں۔ کتنی گھڑیاں بیچی گئیں اور حکومتی اطلاعات کے مطابق کس کو بیچی گئیں۔ ممکن ہے کہ سعودی کرائون پرنس نے جس گھڑی کی قیمت ادا کی ہو‘ وہ کوئی اور ہو اور جو خریدار اب سامنے آیا ہے اسے کوئی اور گھڑی بیچی گئی ہو۔ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ سابق مشیرِ احتساب شہزاد اکبر سمیت کئی افراد اس ڈیل میں شامل تھے۔ مبینہ طور پر بیس لاکھ ڈالرز کی ادائیگی کیش میں کی گئی۔ اگر ایسا ہے تو جس سے خریداری کی جا رہی تھی‘ اس کے کسی معاہدے یا پرچیز انوائس پر دستخط بھی ضرور لیے گئے ہوں گے‘ اتنی بڑی ڈیل بغیر کسی دستخط کے کیسے ہو سکتی ہے۔ اس ڈیل میں شامل افراد کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہو گی۔ اس کے علاوہ بھی دیگر کئی ثبوت موجود ہوں گے جو عدالت کے سامنے پیش کیے جانے چاہئیں۔ جس طرح عدالت میں جانے سے پہلے میڈیا میں ہی یہ کیس اچھالا جا رہا ہے‘ اسی طرح رسیدیں اور وڈیوز بھی جاری کی جانی چاہئیں اور اگر اس طرح کے ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں تو ایک شخص کا ذاتی دعویٰ اس کا موقف ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہو گا۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے جیسے مزید حقائق سامنے آئیں گے‘ ان سے ملک کی مزید بدنامی ہو گی۔ ہمارے سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لالچ میں ملک کے وقار کو دائو پر لگا رکھا ہے۔ دنیا اب کسی بھی پاکستانی لیڈر پر اعتبار کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معیشت روز بروز زوال کا شکار ہو رہی ہے اور بیرونی سرمایہ کار ہم پریقین نہیں کر رہے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ فروری 2023ء میں متحدہ عرب امارات کا دو ارب ڈالرز کا قرض واجب الادا ہے۔ حکومت نے اس قرض کی مدت بڑھانے کی درخواست کی ہے لیکن ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں آ سکا۔ حکومت ایک طرف دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات سے اچھی سرمایہ کاری لائے گی جبکہ دوسری طرف قرض میں ریلیف ملتا دکھائی نہیں دے رہا۔ سعودی ولی عہد نے پاکستان کا دورہ ملتوی کر دیا ہے۔ بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ دورہ ملتوی نہیں بلکہ کینسل کیا گیاہے۔ اس کا علم آنے والے دنوں میں ہو جائے گا لیکن جو معاملہ زیادہ تشویش کا باعث بن رہا ہے وہ آئی ایم ایف وفدکے دورے کا ملتوی ہونا ہے۔ آئی ایم ایف وفد نے نومبر کے دوسرے ہفتے ریویو کے لیے پاکستان آنا تھا لیکن میری اطلاعات کے مطابق یہ ریویو دسمبر 2022ء تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے پچھلے اہداف حاصل نہ کرنے کی وجہ سے نئے ٹیکسز لگانے کی شرط عائد کر دی ہے۔ حکومت نے پرائمری بجٹ خسارہ ختم کر کے اسے پرائمری بجٹ سرپلس میں تبدیل کرنے کا معاہدہ کیا تھا لیکن پرائمری بجٹ سرپلس دینے کے بجائے پرائمری بجٹ خسارے میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے موجودہ مالی سال کے بجٹ پر اثرات بھی زیرِ بحث ہیں جو ڈیڈ لاک کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات سے ہونے والی آمدن بھی ہدف سے تقریباً 290 ارب روپے کم ہے جسے بڑھانے کے لیے سیلز ٹیکس لگائے جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ میں پچھلے کالموں میں بھی ذکر کر چکا ہوں کہ تقریباً آٹھ سو ارب روپے کا منی بجٹ لانے کے لیے دباو ڈالا جا رہا ہے۔ حکومت نے بظاہر انکار کر دیا ہے لیکن یہ مزاحمت زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکے گی۔ آٹھ سو ارب روپے کے نئے ٹیکسز ملکی معیشت کے لیے ناقابلِ برداشت بوجھ ثابت ہوں گے۔ اس وقت مہنگائی کی شرح 26 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے‘ ان حالات میں مزید ٹیکسز لگانے سے عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ معیشت پہلے ہی تقریباً دو فیصد شرحِ نمو پر کام کر رہی ہے۔ مزید ٹیکسز لگنے سے یہ مزید سکڑ سکتی ہے۔ تقریباً ایک ہزار کے قریب ٹیکسٹائل یونٹس بند ہو چکے ہیں۔ برآمدات اور ترسیلاتِ زر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ مقامی سرمایہ کار اپنے کاروبار بیرونِ ملک منتقل کر رہے ہیں۔ ڈیفالٹ کے خدشات پہلے سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ ایف بی آر بھی تقریباً ساڑھے سات سو ٹریلین کا ہدف حاصل نہیں کر پائے گا۔
اعلیٰ عدالتوں میں اپوزیشن یا حکومت کی جانب سے ایک بھی ایسا کیس دکھائی نہیں دیتا جس میں ملکی معیشت کا مدعا اٹھایا گیا ہو‘ اس میں بگاڑ لانے والوں کی نشاندہی کی گئی ہو اور آئندہ ان غلطیوں سے سیکھ کر ملک کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے کا لائحہ عمل دیا گیا ہو۔ میثاقِ معیشت کے بجائے توشہ خانہ کیس، اصلی یا جعلی زخم، اہم تعیناتی اور الیکشن کمیشن کی توہین جیسے مدعوں پر سیاست کرنا ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔