اکثر افراد یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ عمران خان صاحب کے بیانات پر دیگر پارٹیوں کے رہنمائوں کی نسبت زیادہ تنقید کی جاتی ہے۔یہ تاثر کافی حد تک درست ہے لیکن اس کی وجہ خود چیئرمین تحریک انصاف ہیں۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر ایسے بیانات دیتے ہیں جو میڈیا میں زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ ویسے تو اس بات پر پی ٹی آئی کے حامیوں کو خوش ہونا چاہئے کہ کپتان کو ہر وقت ڈسکس کیا جا رہا ہے اور جو تشہیر کروڑوں روپے خرچ کر کے کی جاتی ہے‘ چیئرمین تحریک انصاف وہ سہولت مفت میں حاصل کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستانی سیاست کا مرکز عمران خان ہیں۔2013ء کے عام انتخابات کے بعد اپوزیشن لیڈر کی کرسی پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی تھی مگر اس وقت بھی حقیقی اپوزیشن کا کردار عمران خان نے ادا کیاتھا۔آج سیاسی ایوانوں میں بیٹھی 'اپوزیشن‘ اگلے انتخابات موجودہ حکمران جماعت کے ٹکٹ پر لڑنے کا سوچ رہی ہے جبکہ حقیقی اپوزیشن کی ذمہ داری ایک مرتبہ پھر عمران خان سرانجام دے رہے ہیں؛ البتہ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ کر احتجاج کرنے اور فیصلہ سازی کا حصہ بننے کے عمل سے پی ٹی آئی ہنوز دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے اتحادی بھی اس سے ایک فاصلہ رکھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی نے اپنے حالیہ بیانات میں استعفوں کے ذریعے فوری حکومت گرانے کے امکانات کو مسترد کر دیا ہے۔اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اگر تحریک انصاف نے اس موقف پر لچک نہ دکھائی توآنے والے دنوں میں نئے سیاسی اتحاد تشکیل پا سکتے ہیں جبکہ تحریک انصاف میں گروپنگ بھی ہو سکتی ہے۔
اب ایک نظر عالمی منظر نامے اور بڑی معاشی طاقتوں کی ملاقات پر ڈالتے ہیں۔ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے چینی صدر شی جن پنگ کو سات سے نو دسمبر تک سعودیہ میں ہونے والے سعودی چینی سربراہی اجلاس میں مدعو کر رکھا ہے اور ان سطور کی اشاعت تک وہ تین روزہ دورے پر سعودی عرب پہنچ چکے ہوں گے۔ اس ملاقات کا ایجنڈا عرب ممالک کے چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔معیشت اور ترقی میں مشترکہ تعاون کی مضبوطی بات چیت کا محور ہو سکتی ہے۔ صدر شی جن پنگ نے آخری بار 2016ء میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا، اس سے ایک سال قبل محمد بن سلمان ولی عہد نامزد ہوئے تھے۔ اس دورے کے دوران صدر شی مصر اور ایران بھی گئے تھے جبکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے 2019ء میں چین کا دورہ کیا تھا۔ممکنہ طور پر سعودی عرب مستقبل میں تیل پر انحصار کم کرکے آمدن کے دیگر ذرائع پر کام کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس حوالے سے 500 ارب ڈالرز کی لاگت سے بننے والے نیوم شہر کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے اور سعودی عرب کے تیل کی برآمدات کا تقریباً ایک چوتھائی چین کو جاتا ہے۔ ممکنہ طور پر نیوم شہر کیلئے چینی ٹیکنالوجی اور مہارت کے معاہدوں پر پیش رفت ہو سکتی ہے۔ اس وقت سبھی خوشحال ممالک کاروبار بڑھانے اور آمدن کے نئے طریقوں کی تلاش کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں جبکہ ہمار ے ہاں زیادہ توجہ اس بات پر دی جارہی ہے کہ مخالفین پر الزامات کی بوچھاڑ کیسے کی جائے۔ حکومت چلانے سے زیادہ حکومت توڑنے کے لیے مشاورت ہو رہی ہے۔ صوبائی حکومت کس طرح وفاقی وزرا کو گرفتار کر سکتی ہے اور وفاقی حکومت کس طرح صوبوں کے لیے پریشانیاں کھڑی کر سکتی ہے‘ اس حوالے سے نت نئے طریقے سامنے لائے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کے اسلام آباد میں موجود شاپنگ مال کے خلاف ہونے والی حالیہ کارروائی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نجانے کیوں ہمارے سیاسی زعما یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ بھارت نے ہمیشہ اس طرح کے عمل کو کشمیریوں کے ساتھ ''ناانصافی اور ظلم‘‘ سے جوڑ کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع کشید کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاستدانوں کو ملک کے معاشی حالات کی کوئی فکر نہیں ہے۔
ممکنہ طور پر چین اور سعودی عرب کے رہنمائوں کی ملاقات میں پاکستان کے معاشی حالات پر بھی بات ہو سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جس طرح اپنی معیشت کا خیال کرتے ہیں اسی طرح وہ ہمسائے اور دوست ممالک کی معیشت پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ خصوصی طور پر ایسے ملک پر زیادہ نظر رکھی جاتی ہے جن کے معاشی حالات پاکستان جیسے ہوں یا جو دیوالیہ پن کے خدشے سے دوچار ہوں۔ یہ بات واضح رہے کہ دوست ممالک کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان دیوالیہ ہو کیونکہ اس سے اس کے ہمسایہ اور دوست ممالک بھی متاثر ہوں گے۔ پاکستان سری لنکا نہیں ہے کہ جو دیوالیہ ہونے سے صرف خود ہی متاثر ہوا تھا۔ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن بہت اہم ہے۔ بائیس کروڑ لوگوں کے ملک اور ایٹمی طاقت کا دیوالیہ ہونا چین اور سعودی عرب سمیت کسی کے بھی حق میں نہیں ہے۔ سعودی عرب نے اس مشکل وقت میں پاکستان کے واجب الادا قرضوں کی مدت بڑھا دی ہے اور مزیدساتھ دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ گوکہ ابھی تک چین کی جانب سے مثبت خبر نہیں آئی لیکن امید ہے کہ چین کی جانب سے بھی جلد ہی اچھی خبر آ جائے گی۔ واضح رہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی مخالفت کے باوجود چینی آئی پی پیز کو ادائیگی کے لیے ریوالونگ بینک اکائونٹ کھولنے کا چین کا مطالبہ مان لیا ہے۔
اس وقت پاکستان کے ڈالرز ذخائر سات ارب سے بھی کم ہو چکے ہیں۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر انٹربینک کی نسبت تیس روپے مہنگا مل رہا ہے۔ تقریباً چار ارب ڈالرز کی ایل سیز کو روکا ہوا ہے‘ خدشہ ہے کہ جب ان ایل سیز پر سے پابندی ہٹائی جائے گی تو انٹربینک میں ڈالر کی اڑان پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دے گی۔ ان حالات میں ملک میں معاشی ایمرجنسی لگانے کی خبریں بھی آ رہی ہیں؛ اگرچہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے معاشی ایمرجنسی لگنے کے امکانات کی تردید کی ہے لیکن ان دعووں پر آنکھیں بند کر کے یقین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پچھلے تین ماہ میں ایسے کئی دعوے غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ذرائع کے مطابق توانائی بچانے اور درآمدات کا بل کم کرنے کا لائحہ بھی طے کیا جا چکا ہے۔
ان حالات میں ایک اچھی خبر بھی ہے۔ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی وفد کا دورۂ روس کامیاب رہاہے اور روس پاکستان کو چین اور بھارت کے ریٹ پرتیل فراہم کرنے پر رضا مند ہو گیا۔ روس سے بیرنٹ آئل کی مارکیٹ سے تیس ڈالر فی بیرل تک سستے داموں خریداری ہو سکے گی جبکہ روس سے تیل کی خریداری کس کرنسی میں ہوگی‘ یہ جنوری میں طے ہوگا۔ چارجز،انشورنس اور شپنگ کے معاملات بھی اگلے ماہ طے ہوں گے۔ معاملات کے حتمی نتائج کیلئے روس کے وزیر توانائی کی سربراہی میں وفد آئندہ ماہ پاکستان آئے گا۔ حکومتی دعووں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن آنے والے دنوں میں بین الاقومی صورتحال کیا ہو گی اس بارے کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ روسی تیل پر عالمی پابندیاں لگنے سے صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا سستا تیل خریدنے کا فائدہ پاکستانی عوام کو منتقل ہو سکے گا یا پھر ٹیکسز بڑھا کر ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کو راضی کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت ستر ڈالر فی بیرل کے لگ بھگ ہے لیکن پاکستانی عوام کو اس کا فائدہ نہیں پہنچ رہا۔
اس وقت صورتحال خاصی نازک ہے۔ ایک طرف آئی ایم ایف کے مطالبات سخت ہوتے جا رہے ہیں اور دوسری طرف وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب نے فرمایا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان آئے یا نہ آئے‘ ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ پٹرولیم لیوی کے معاملے پر کچھ ایسا ہی رویہ رکھا گیا تھا جس کی قیمت بعد میں پاکستانی عوام کو چکانا پڑی تھی۔فی الحال آئی ایم ایف نے 32 ارب ڈالرز کے قرض کی ادائیگی کی پلاننگ مانگی ہے جو مہیا کر دی گئی ہے۔ دس ارب ڈالر دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے لیے جائیں گے۔ زیادہ تر قرضوں کی مدت بڑھانے کی درخواست کی جائے گی۔ پچھلے چار ماہ میں تقریباً چار ارب ڈالر مل سکے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو قرضوں کی ادائیگی مشکل ہو سکتی ہے۔