سیاست، کرنسی بحران اور جنیوا ڈونرز کانفرنس

پاکستان کو اس وقت مختلف النوع سیاسی، معاشی اور دفاعی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ملک کا دفاع چونکہ مضبوط ہاتھوں میں ہے‘ اس لیے دفاعی محاذ پر کامیابی کے امکانات ہمیشہ غالب رہتے ہیں۔ترجمان افواجِ پاکستان میجر جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ میں دورانِ آپریشن شدید فائرنگ کے تبادلے میں 25 دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔پاک فوج کے ترجمان کے مطابق 18 دسمبر کو بنوں کے سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ میں زیرِ تفتیش 35 دہشت گردوں نے اہلکاروں سے ہتھیار چھین کر فائرنگ کی اور سی ٹی ڈی کے دو جوانوں کو شہید کر کے باقی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔باہر سے کوئی حملہ نہیں ہوا۔فائرنگ کی آواز سنتے ہی سکیورٹی فورسز نے وہاں پہنچ کر کمپاؤنڈ کا محاصرہ کر لیا۔ دہشت گرد افغانستان جانے کے لیے محفوظ راستہ مانگ رہے تھے مگر اس مطالبے کو رد کیا گیا۔دہشت گرد ہتھیار ڈالنے کو تیار نہ تھے اور اسی وجہ سے بھرپور آپریشن کیا گیا اور فوج کے جوان انتہائی بہادری سے لڑے۔ 48 گھنٹوں تک بھرپور کوشش کی گئی کہ دہشت گردسرنڈر کر دیں مگر کامیابی حاصل نہ ہونے پر آپریشن کیا گیا اور شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں 25 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ سات دہشت گردوں نے سرنڈر کیا اور تین فرار کی کوشش کے دوران گرفتار کیے گئے۔ اداروں کی بروقت کارروائی سے دہشت گرد اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
امید ہے کہ اس کارروائی نے ملک دشمنوں کو واضح پیغام دے دیا ہو گا کہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے‘ دفاعی محاذ مضبوط ہے؛ البتہ سیاسی اور معاشی محاذ کمزور دکھائی دیتے ہیں۔سیاست ایسے موڑ پر آن پہنچی ہے کہ گفتگو کے ذریعے مسائل کا حل نظر نہیں آتا۔ تقریباً تمام مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر عدالتوں کا رخ کر لیا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ معزز جج صاحبان بھی واضح کر چکے ہیں کہ سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لانے کے بجائے سیاسی فیصلے اسمبلیوں میں ہونے چاہئیں۔ عدالتوں میں سیاسی معاملات جانے کا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا سمیت دیگر پلیٹ فارمز پر معزز عدلیہ کے خلاف ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ عدالتوں میں لاکھوں کیسززیرِ سماعت ہیں۔عدالتوں میں ججز کی مطلوبہ تعداد نہیں ہے۔جب سیاسی کیسز عدالتوں میں پہنچتے ہیں تو پروٹوکول اور سکیورٹی کے باعث کئی گھنٹوں تک عام سائل عدالتوں تک پہنچ نہیں پاتا۔ اس حوالے سے سیاستدانوں کو ذمہ داری کا احساس دلانا مشکل ہے، اس لیے عدلیہ ہی سے گزارش کی جا سکتی ہے کہ اس مسئلے کا کوئی بہتر حل تجویز کیا جائے۔
معاشی صورتحال یہ ہے کہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان شدید متاثر ہوا ہے۔ فصلوں کی پیداوار توقع سے کم ہے۔ کپاس کی درآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہونے کا خدشہ ہے۔ برآمدات کے بڑھنے کی کوئی امید دکھائی نہیں دے رہی اور تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ ملک سمگلنگ پر چل رہا ہے۔ سٹیٹ بینک کے پاس ایل سیز کلیئر کرنے کے لیے ڈالرز نہیں ہیں۔ ہزاروں کنٹینرز بندرگاہوں پر کھڑے ہیں۔ سبزیاں، پھل، دودھ، چاکلیٹس، خوردنی تیل سمیت ہزاروں آئٹمز کی درآمدات بری طرح متاثر ہوئی ہیں لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ملک کے تمام بڑے سٹورز سامان سے بھرے ہوئے ہیں۔ کسی شاپنگ مال یا میگا سٹورز پر اشیا کی قلت دکھائی نہیں دے رہی۔ سبزیاں اور پھل وافر مقدار میں موجود ہیں حتیٰ کہ لگژری اور برانڈڈ سامان بھی بہ آسانی میسر ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر لاکھوں ایل سیز التوا کا شکار ہیں تو یہ سامان کس طرح شاپنگ مالز اور سٹورز پر دستیاب ہے؟ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ غیر قانونی طریقے سے سامان پاکستان سمگل کیا جا رہا ہے۔ افغانستان اور ایران بارڈر سے ہزاروں اشیا ملک میں لائی جا رہی ہیں جن کی ادائیگی ہنڈی؍ حوالے سے حاصل ہونے والے ڈالرز میں کی جا رہی ہے۔
پاکستان دنیا کی ان چند معیشتوں میں شامل ہے جہاں کالے دھن کی کمی نہیں ہے۔ معیشت کے ڈاکیومنٹڈ نہ ہونے کی وجہ سے سرکار سے زیادہ ڈالرز عام آدمی کے پاس ہیں۔ حکومت غریب ہے اور عوام امیر۔ میں یہاں ہر گز یہ نہیں کہنا چاہ رہا کہ پوری قوم امیر ہے بلکہ یہ اس طبقے کی بات ہو رہی ہے جو ملکی معیشت کو چلانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کاروباری طبقے کے پاس آمدن اور ڈالرز کی کمی ہو جائے تو ملک کے تمام بڑے سٹورز بھی خالی ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ اس کے برعکس وہ ادارے یا کمپنیاں جو قانونی طریقے سے کاروبار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ ان کے کاروبار بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ملک کی ایک بڑی کار کمپنی نے دس دن کے لیے اپنا پلانٹ مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ اس کے برعکس غیر قانونی طریقے استعمال کرنے والوں کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے۔ یہ حکومتی پالیسی کی ناکامی ہے۔ میں یہاں یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ڈالر کا ریٹ طے کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ مؤثر ہے اور وہ ہے مارکیٹ ریٹ۔ ڈالر کا ریٹ مارکیٹ طے کرتی ہے اور اگر حکومت مارکیٹ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتی تو انجام وہی ہوگا جو آج ملکی معیشت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ وزیر خزانہ کا مؤقف ہے کہ ڈالر کا ریٹ ریئل ایفیکٹو ایکسچینج ریٹ ہوتا ہے جو اس وقت دو سو کے قریب ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ وزیر خزانہ صاحب پھر اس ریٹ کو لاگو کیوں نہیں کر پا رہے؟ یہ موقف کتابی حساب سے تو درست ہو گا مگر زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔ اس وقت مارکیٹ میں صرف ڈالرز کا بحران نہیں بلکہ سبھی انٹرنیشنل کرنسیاں نارمل ریٹ پر ناپید ہیں۔ تقریباً تیس سے پینتیس روپے اون پر کرنسی ملتی ہے۔ حکومت کے لیے ان نیٹ ورکس کو پکڑنا زیادہ مشکل نہیں لیکن اس کے لیے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔کرنسی بحران کی وجہ سے سونے کی مارکیٹ بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ فی تولہ سونے کی قیمت ایک لاکھ 78 ہزار اور دس گرام سونے کی قیمت ایک لاکھ 53 ہزار 292 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ بین الاقومی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں اضافہ بتائی جا رہی ہے لیکن ملک کے اندر گرے مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ اس کی ایک بڑی وجہ بن کر سامنے آئی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ مافیاز کالے دھن کو ڈالرز اور گولڈ میں منتقل کر رہے ہیں۔ صرافہ جیولرز ایسوسی ایشن نے وزیر خزانہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس حوالے سے کریک ڈاؤن کریں تا کہ سونے کی قیمت نیچے لائی جا سکے۔
9 جنوری کو انٹرنیشنل ڈونرز کانفرنس جنیوا میں منعقد ہو رہی ہے اور حکومت کی اس حوالے سے تیاری ابھی تک مکمل نہیں ہوئی۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک، ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے تعاون سے حالیہ سیلاب سے تقریباً اکتیس ارب ڈالرز نقصان کا ابتدائی تخمینہ لگایا گیا تھا جبکہ اُس وقت انٹربینک میں ڈالر کا ریٹ تقریباً 214 تھا جو اب بڑھ کر تقریباً 225ہو گیا ہے۔ اس سے بجٹ پر کیا فرق پڑے گا‘ اس حوالے سے کوئی واضح اعدادوشمار سامنے نہیں آ سکے۔ اطلاعات ہیں کہ تقریباً آٹھ ارب بیس کروڑ ڈالرز کا گیپ ہے اور تقریباً چھ ارب ڈالرز فوری درکار ہیں۔ انٹرنیشنل ڈونرز کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے اس رقم کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں آئی ایم ایف سمیت تمام مالیاتی ادارے سیلاب زدگان کے حوالے سے پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ پچھلے ہفتے ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے تقریباً 554 ملین ڈالرز منظور کیے تھے اور اس ہفتے ورلڈ بینک نے 1 ارب 69 کروڑ ڈالرز امداد منظور کی ہے۔ اس حوالے سے سوئٹزرلینڈ میں 9 جنوری کو ہونے والی ڈونرز کانفرنس پاکستان کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے لیکن اس کیلئے مکمل تیاری اور میثاق کی ضرورت ہے۔اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام یونہی برقرار رہا تو غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہو گا اور دنیا کو پاکستان کی مدد نہ کرنے کا ایک اور جواز مل جائے گا۔اس لیے ضروری ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں اور سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے سیاسی افراتفری سے گریز کیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں