نقصان میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کے حوالے سے 2022ء بھی پچھلے کئی سالوں جیسا ہی رہا ہے۔ یہ ادارے تقریباً ایک ہزار ارب روپے کا سالانہ نقصان کر رہے ہیں لیکن ان کی نجکاری نہیں کی گئی بلکہ ایسے ادارے بیچنے پرکام کیا گیا جو فائدے میں تھے۔ دو پاور پلانٹس اور کچھ اداروں کے شیئرز خلیجی ممالک کو بیچنے کا معاملہ سامنے آیا۔ اس کے علاوہ پی ایس او کے شیئرز بھی بیچنے پر بات ہوئی لیکن پی آئی اے اور پاکستان سٹیل مل کی نجکاری نہیں کی گئی۔
سال 2022ء روس سے تیل کی خریداری کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں بہتر دکھائی دیتا ہے۔ گو کہ اس ضمن میں اب بھی شدید خدشات موجود ہیں لیکن اچھی خبر آنے کی امید لگائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے کے حوالے سے بھی شنید ہے کہ بیک ڈور ڈپلومیسی جاری ہے۔ موجودہ حکومت کے قیام اور سیلاب والی صورتحال کے بعد اس بات پر زور دیا گیا کہ بھارت سے براہِ راست تجارت کھولنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان متحدہ عرب امارات سے تقریباً10 ارب ڈالرز کی تجارت کرتا ہے‘ جن میں تقریباً سوا ارب ڈالرز کی برآمدات اور تقریباً ساڑھے آٹھ ارب ڈالرز کی درآمدات شامل ہیں۔ پاکستان متحدہ عرب امارات سے جو اشیا درآمد کرتا ہے ان میں تقریباً 90فیصد بھارتی مصنوعات شامل ہوتی ہیں۔ پاکستانی ادارہ برائے شماریات کے مطابق جولائی 2021ء سے مارچ 2022ء تک پاکستان نے بھارت کو 28کروڑ ڈالرز کی برآمدات کی ہیں‘ جن میں کیمیکلز اور ادویات کا سامان سرفہرست ہے۔ اگر بھارت کے ساتھ ان اشیا کی تجارت کی جا سکتی ہے تو دیگر ضروریاتِ زندگی کی اشیا کی تجارت کرنے کی بھی اجازت دی جانی چاہیے۔
اس کے علاوہ انرجی بحران پر قابو پانے کے لیے بھی حکومت نے سال 2022ء میں کچھ مثبت اقدامات کیے۔ حکومت نے نیشنل سولر انرجی پالیسی جاری کی۔ ملک میں سولر انرجی کے حوالے سے کافی پوٹینشل موجود ہے اور چین بھی اس مد میں پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ اس حوالے سے 2020ء میں کیے گئے معاہدے پر کام تیز کرنے کی تیاری ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اپنی ضروریات کا بڑا حصہ سولر انرجی پر منتقل کر چکے ہیں۔ چین 131گیگا واٹ سولر بجلی پیدا کرکے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ امریکہ 51گیگا واٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح جاپان 49گیگا واٹ‘ جرمنی 42‘ اٹلی 19‘ بھارت18‘ برطانیہ 12‘ فرانس آٹھ‘ آسٹریلیا سات اور سپین پانچ گیگا واٹ انرجی سولر سسٹم سے حاصل کر رہا ہے۔ گو کہ درآمدات پر پابندی کی وجہ سے سال کے آخر میں سولر انرجی کا کام سست رہا لیکن امید ہے کہ نئے سال کے آغاز سے ہی اس میں بہتری آجائے گی۔
سال 2022ء ترسیلاتِ زر کے حوالے سے مایوس کن رہا۔ جولائی سے اکتوبر 2022ء تک ترسیلاتِ زر میں تقریباً 9.9ارب ڈالرز کی کمی واقع ہوئی جو 2021ء کے اسی دورانیے کی نسبت ساڑھے آٹھ فیصد کم ہیں۔ پاکستان چار ممالک امریکہ‘ برطانیہ‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے زیادہ ترسیلات حاصل کرتا ہے جو ٹوٹل ترسیلات کا تقریباً 67 فیصد ہے۔ ان میں واضح کمی آئی۔ برطانیہ سے وصول ہونے والی ترسیلات میں تقریباً سوا آٹھ فیصد کمی دیکھی گئی۔ متحدہ عرب امارات سے ترسلاتِ زر میں تقریباً نو فیصد کمی آئی۔ اسی طرح جولائی سے اکتوبر کے درمیان سعودی عرب سے وصول ہونے والی ترسیلات پونے تین ارب ڈالر سے کم ہو کر اڑھائی ارب ڈالر رہ گئیں۔2019ء میں تین لاکھ 32 ہزار 764 پاکستانی سعودی عرب گئے جبکہ 2020-21ء میں یہ تعداد صرف دو لاکھ 92 ہزار153 ہے۔ سعودی عرب میں ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہیں اور پوری دنیا سے لوگ روزگار کی تلاش میں وہاں جا رہے ہیں لیکن پاکستانیوں کی تعداد میں کمی کی وجہ مطلوبہ ماہر لیبر کا نہ ہونا ہے۔ قطر نے پاکستان کو فیفا ورلڈ کپ کے لیے دو لاکھ پاکستانیوں کو قطر میں ملازمتیں دینے کا کوٹہ فراہم کیا تھا جبکہ پاکستان صرف 50ہزار کے قریب مزدور قطر بھیج سکا۔ اس کے علاوہ اپریل 2022ء کے بعد سے شاید حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے اوورسیز پاکستانی ڈالر قانون طریقے سے بھیجنے کے بجائے غیر قانونی طریقے سے بھیجنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ مارچ 2022ء تک اوورسیز پاکستانیوں نے تقریباً اضافی 30ارب ڈالر سالانہ کی اوسط سے قانونی طریقے سے بھیجے تھے اور انہیں اچھا منافع بھی مل رہا تھا کیونکہ گزشتہ حکومت کی پالیسیاں حقیقت پر مبنی تھیں۔ یہ نیشنل ازم کا دور نہیں بلکہ گلوبل لائزیشن کا دور ہے جہاں منافع بخش پالیسیاں نظر آئیں گی‘ آپ پاکستانی ہوں یا امریکی‘ اپنا سرمایہ وہیں منتقل کریں گے۔ سال 2022ء کے اختتام پر ترسیلاتِ زر میں کمی کی قصور وار حکومت ہے‘ اوورسیز پاکستانی نہیں۔
سال 2022ء میں ملکی معیشت کا سری لنکا سے موازنہ کیا جاتا رہا۔ یہ ڈر ہر خاص و عام پاکستانی کے دل میں گھر کر گیا تھا کہ کہیں پاکستان سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ تو نہیں کر جائے گا۔ پاکستان اور سری لنکا کے حالات میں بہت مماثلت بھی دکھائی دی۔ سری لنکا کی برآمدات نہ ہونے کے برابر تھیں اور وہ اپنی ساری ضروریات درآمدات سے پوری کر رہا تھا۔ پاکستان میں بھی سال 2022ء میں درآمدات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچیں۔ اب بھی غیر ضروری لگثری اشیا کی درآمدات تقریباً 10 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ درآمدات کا حجم برآمدات کی نسبت 100گنا سے بھی زیادہ رہا۔ اس کے علاوہ سری لنکا نے مہنگے قرض لے کر عوام کو سستا پٹرول اور ڈیزل بیچا۔ وقتی طور پر عوام خوش تو ہو گئے لیکن ملک دیوالیہ ہو گیا۔ حکومت پاکستان نے بھی عوام کو سستا ڈیزل اور پٹرول فراہم کرکے اربوں روپوں کا نقصان کیا ہے۔ سری لنکا نے امریکہ اور آئی ایم ایف کے بجائے چین پر انحصار کیا اور وقت آنے پر چین نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا۔ پاکستان نے بھی چین پر ضرورت سے زیادہ انحصار کیا اور شنید ہے کہ مشکل وقت میں چین نے پاکستان کو بھی آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کے بغیر مزید قرض نہیں دیا۔ تقریباً پچھلے پانچ سال سے سری لنکا نے ملک چلانے کے لیے زیادہ انحصار دوست ممالک کے قرضوں پر کر رکھا تھا اور پاکستان میں بھی پچھلے چار سال میں لیے گئے قرض 70سال میں لیے گئے قرضوں سے زیادہ ہیں۔ جب ملک چلانے کا انحصار تجارت کے بجائے امداد اور قرضوں پر ہو تو قریبی دوست ممالک بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ معیشت کا گراف بتاتا ہے کہ سری لنکا ڈیفالٹ ہونے سے چند ماہ پہلے جس جگہ کھڑا تھا‘ آج پاکستان بھی اسی جگہ کھڑا نظر آتا ہے۔ سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کرنے کا جو ڈر 2022ء میں رہا‘ سال 2023ء کا آغاز بھی اسی ڈر کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ صورتحال مایوس کن ہے۔
سال 2022ء میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کی پاکستان آمد بھی ڈرامائی رہی۔ جیسے ہی وہ پاکستان ائیرپورٹ پر اترے‘ ڈالر ریٹ نیچے گرنا شروع ہو گیا۔ بعدازاں معلوم ہوا کہ حکومت نے کروڑوں ڈالرز مارکیٹ میں پھینکے تھے تاکہ ڈالر ریٹ نیچے لایا جا سکے۔ ڈار صاحب پہلے فرماتے رہے کہ ڈالر کنٹرول کرنا میری ذمہ داری ہے لیکن چند دنوں کے بعد جب آئی ایم ایف سے ملاقات کے بعد واپس ملک پہنچے تو ائیرپورٹ پر ہی فرما دیا کہ ڈالر سٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے‘ میری نہیں۔ اس سال نے اسحاق ڈار کے بہترین وزیر خزانہ ہونے کا بھرم بھی توڑ دیا اور شہباز شریف کے بہترین ایڈمنسٹریٹر ہونے کا بھی بھرم قائم نہیں رہ سکا۔ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو سال 2022ء میں پاکستان کیلئے ترقی اور خوشحالی کی خبروں کا فقدان رہا۔ سال 2023ء کیسا رہے گا؟ اس بارے میں کچھ بھی مکمل وثوق سے کہنا ممکن نہیں ہے لیکن اگلے کالم میں پاکستان کو سال 2023ء میں ممکنہ طور پر درپیش مسائل پر بات کی جائے گی اور اس ضمن میں چند تجاویز بھی پیش کی جائیں گی کہ حکومت کو ایسے کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں کہ یہ سال پچھلے سال جیسا مایوس کن ثابت نہ ہو۔