2023ء کا آغاز ہو چکا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی نئے سال کے موقع پر جشن دیکھنے میں آیا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جس ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہوں‘ کیا اس کے حکمرانوں کو نئے سال کا جشن منانا چاہیے؟ کیا ہی بہتر ہوتا کہ وزیراعظم صاحب اعلان کرتے کہ چونکہ ملک اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے‘ زرمبادلہ کے ذخائر پانچ ارب ساٹھ کروڑ ڈالرز رہ گئے ہیں‘ جو اگلے دو ہفتوں میں مزید کم ہو کر چار ارب ستر کروڑ ڈالرز ہو جائیں گے لہٰذا ان حالات میں نئے سال کا جشن منانے کے بجائے پیسے بچائے جائیں گے اور عوام سے بھی اپیل کی جاتی کہ جو پیسہ نئے سال کے جشن منانے میں خرچ کرنے کا ارادہ ہے‘ وہ رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے تا کہ ملکی قرضوں کی بروقت ادائیگی کی جا سکے۔ اس عمل سے اگرچہ زیادہ فائدہ تو نہ ہوتا لیکن عوام میں یہ احساس پیدا کرنے میں ضرور مدد ملتی کہ ان کے حکمران ملک کے لیے پریشان ہیں۔ اس کے علاوہ بین الاقومی برادری کو بھی پیغام جاتا کہ حکمران طبقہ پاکستان کے ساتھ سنجیدہ ہے‘ وہ صرف اپنے کیسز ختم کرانے میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ عوام کے بارے میں بھی سنجیدہ ہے۔ نئے سال میں وزیر اعظم صاحب سب سے پہلے یہ اعلان کریں کہ حکومت کفایت شعاری کرے گی۔ وزرا کے ٹریول الاؤنسز بند کیے جائیں، وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے علاوہ بیرونِ ملک دوروں پر پابندی لگائی جائے، کابینہ کا حجم کم کیا جائے، جن وزرا کے پاس وزارتوں کے قلمدان نہیں‘ ان سے عہدہ واپس لیا جائے۔ مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو اپنے اخراجات میں چالیس فیصد تک کمی کرنی چاہیے۔ اس طرح کے دیگر معاملات میں کفایت شعاری کے عملی اقدامات امید کی نئی کرن پیدا کر سکتے ہیں۔
نئے سال میں حکومت کو کیا مسائل درپیش ہوسکتے ہیں اور ان پر قابو پانے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں‘ آئیے! ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ نئے سال میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہو گا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو کس طرح بچایا جائے۔ اس وقت قومی خزانے میں پانچ ارب ساٹھ کروڑ ڈالرز کے ذخائر رہ گئے ہیں جو ایک ماہ کی درآمدات کے لیے بھی ناکافی ہیں۔ چار دسمبر کو ایک ارب ڈالرز سکوک بانڈز کی ادائیگی کی گئی اور اب جنوری کے مہینے میں ہی عرب ممالک کے دو کمرشل بینکوں کو تقریباً ایک ارب ڈالرز کی مزید ادائیگی کرنی ہے۔ اگلے تین ماہ میں وطنِ عزیز نے تقریباً ساڑھے آٹھ ارب ڈالرز کا بیرونی قرض ادا کرنا ہے اور اس پورے سال میں تقریباً 26 ارب ڈالرز مزید درکار ہوں گے۔ حکومت قرضوں کو رول اوور کرنے کی بات کر رہی ہے۔ نئے سال کے پہلے مہینے میں کمرشل بینکوں کو ہونے والی ادائیگی میں ایک سال توسیع کی بات کی جا رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مشکل کام ہے۔ کمرشل بینک اگر قرض رول اوور کریں تو ان کی کریڈیبلٹی پر فرق پڑتا ہے۔ اس حوالے سے اگر زیادہ شرحِ سود آفر کی جائے تو ممکنہ طور پر قرض ری شیڈول کیا جا سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ جب بینک کسی ملک کو نادہندہ ڈکلیئر کرتے ہیں تو ان کو اتنی ہی رقم کا نقصان بیلنس شیٹ میں بک کرنا پڑتا ہے۔ بینک عمومی طور پر ایسا کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ بینکوں کی یہ اپروچ وقتی طور پر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے اہداف کا حصول بھی نئے سال میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت اگلے دس‘ پندرہ دنوں میں نئے ٹیکسز لگانے جا رہی ہے جو تقریباً 50 ارب روپے کے قریب ہیں لیکن وہ ناکافی ہوں گے۔ آئی ایم ایف آٹھ سو ارب روپوں کے ٹیکسز کی بات کر رہا ہے۔ فی الحال عالمی مالیاتی ادارہ سیلاب متاثرین پر ہونے والے اخراجات کو بجٹ میں شامل نہ کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ وہ سیلاب متاثرین پر یہ رقم خرچ کر چکی ہے‘ اس لیے اسے بجٹ میں شامل کرنے کی ضرورت نہیں۔ آئی ایم ایف نے حکومت کا یہ موقف تسلیم کر لیا ہے لیکن بقیہ رقم کے لیے نئے ٹیکسز لگانے کی ضرورت ہے۔ حکومت شاید دوست ممالک سے پیکیج ملنے کا انتظار کر رہی ہے تا کہ مارچ تک وقت گزر سکے۔ یہ وہی غلطی ہے جو اسد عمر نے وزیر خزانہ بننے کے بعد کی تھی۔ان کا خیال تھا کہ دوست ممالک سے اتنا فنڈ اکٹھا کر لیا جائے گا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس اپروچ نے ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ موجودہ حکومت سے گزارش ہے کہ نئے سال کا آغاز آئی ایم ایف کے مطالبات پر فوری عمل درآمد کے ساتھ کیا جائے کیونکہ کرنسی کرنچ نئے سال میں پہلے سے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئے گا۔ ڈالر مزید تگڑا ہو گا اور روپیہ مزید کمزور ہو گا۔ڈالر اور پاؤنڈ سمیت لگ بھگ سبھی انٹرنیشنل کرنسیاں 30 روپے اون پر مل رہی ہیں۔ اگر انٹربینک میں ڈالر ریٹ نہ بڑھایا گیا تو نئے سال کے پہلے ماہ میں ہی کرنسی اون 50 روپے تک بڑھ سکتا ہے۔
افغان ٹریڈ‘ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور ایران ٹریڈ پالیسی بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ دیرینہ مسئلہ ہے جس پر کافی مدت سے قابو نہیں پایا جا سکا۔ خاص طور پر افغانستان میں نئی حکومت بننے کے بعد سمگلنگ عروج پر ہے۔ اگر ان مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو یہ مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ امیگریشن پروٹوکول بین الاقوامی معیار کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے۔ 2022ء کے آخر میں مغربی سرحدوں پر سمگلنگ عروج پر رہی اور خدشہ ہے کہ جون تک صورتحال ایسے ہی رہے گی۔ تقریباً تیس سے چالیس لاکھ ڈالر روزانہ افغانستان سمگل ہو رہے ہیں۔ پاکستان ڈالرز میں غیر ملکی اشیا درآمد کرتا ہے اور افغانستان کو برآمد کر دیتا ہے جہاں سے سامان کے عوض روپے ملتے ہیں‘ ڈالرز نہیں۔ کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن کے صدر نے دعویٰ کیا ہے کہ روزانہ دو ارب ڈالرز افغانستان سمگل ہو رہے ہیں؛ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ یہ بیان حقائق کے منافی ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کیونکہ پاکستان میں اوپن ڈالر مارکیٹ تقریباً پچاس کروڑ کی ہے۔ میں نے ابھی افغانستان سے ڈالر کا ریٹ پتا کیا ہے‘ وہاں ڈالر 248 روپے کا مل رہا ہے اور یہاں 246 روپے کا۔ دو روپے کے فرق پر اتنی بڑی سمگلنگ نا ممکن ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ سمگلنگ نہیں ہو رہی‘ ضرور ہو رہی ہے لیکن جتنا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ درست نہیں۔ عہدیداران کو اس طرح کے بیان دیتے وقت ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ منی ایکس چینجرز پر ضرورت سے زیادہ چیک اینڈ بیلنس کو کم کرنے کی ضرورت ہے تا کہ تجوریوں میں چھپا ہوا ڈالر باہر آ سکے۔ کالا دھن مار کیٹ میں آنے سے حالات بدل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس نیٹ میں شامل افراد اور کمپنیوں کے لیے ٹیکس ریٹ بڑھانے اور نئے ٹیکسز لگانے کے بجائے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبائی سطح پر ٹیکسوں میں بڑا خلا موجود ہے جس کو پُر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پاکستان کا غیر دستاویزی شعبہ مجموعی ملازمتوں کا 73 فیصد فراہم کرتا ہے۔ مطلب‘ ملک میں ایک بڑا طبقہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ انہیں ٹیکس وصولی کے نظام میں لانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔نئے سال میں عوام کے لیے اہم مسئلہ مہنگائی ہو گا اور حکومت کیلئے توانائی بحران کو ختم کرنا بڑا چیلنج ہو گا۔ توانائی کے شعبے کا خسارہ بڑھتا جا رہا ہے‘ اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو صرف یہ ایک شعبہ ہی ملک کو دیوالیہ کرنے کے لیے کافی ہو گا۔ اس شعبے کے گردشی قرضے 2500 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ چینی کمپنیوں کے ساتھ کپیسٹی پیمنٹ کے ایشوز کو بروقت حل کرنا ضروری ہے۔ سیاسی عدم استحکام کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک پانچ سالہ مینڈیٹ کے ساتھ نئی حکومت نہیں بنے گی‘ تب تک معاشی استحکام نہیں آئے گا۔ ٹیکنو کریٹ سیٹ اَپ لانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ یہ تجربہ ملک کو مزید مہنگا پڑ سکتا ہے۔ آئی ایم ایف ٹیکنو کریٹس کے ساتھ مذاکرات کرنے کا حامی نہیں ہے۔ ٹیکنوکریٹ حکومت عوامی مسائل کو مدنظر نہیں رکھتی جس سے عوامی سطح پر بے چینی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جن ممالک اور اداروں کے قرض ادا کرنے ہیں‘ انہیں اعتماد میں لے کر فوری طور پر انتخابات کا اعلان کر دینا چاہیے۔