آئی ایم ایف، خوردنی تیل اور ڈونرز کانفرنس

ملکی سیاست میں چند چھوٹی سیاسی جماعتوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کے بغیر ملکی سیاسی نظام کا چلنا ممکن نہیں تو غلط نہ ہو گا۔ (ق) لیگ اس وقت پنجاب کی وزراتِ اعلیٰ پر براجمان ہے۔ پنجاب حکومت اسی کے دم سے قائم ہے اور وفاق میں بھی حکومت (ق) لیگ کے ایم این ایز کی بدولت کھڑی ہے۔ پنجاب میں (ن) لیگ اور تحریک انصاف کے لاکھوں ووٹ لینے والے ایم پی ایز(ق) لیگ کے چند ووٹوں کی حمایت کے بغیر حکومت نہیں بنا سکتے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس میں چودھریوں کی سیاست کا بڑا کمال ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مقتدر حلقوں کے بغیر چودھری برادران اس طرح کی متاثر کن سیاست نہیں کر سکتے تھے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انہیں پورا ماحول بنا کر دیا گیا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ تحریک انصاف کی پنجاب میں ڈرامائی جیت کے بعد بھی وزراتِ اعلیٰ اسے نہیں ملی۔ یہ صورتحال سیاسی اعتبار سے تشویشناک ہے۔ ماضی میں بھی ایسی انجینئرنگ کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔ میر ظفراللہ خان جمالی کی حکومت صرف ایک ووٹ پر کھڑی رہی۔ تحریک انصاف تقریباً آٹھ سیٹوں کی وجہ سے ساڑھے تین سال تک اقتدار میں رہی اور موجودہ حکومت بھی دو‘ ایک ووٹوں کی وجہ سے ہی اقتدار میں ہے۔ ایسی صورتحال میں انتخابی نتائج بے اثر ہو جاتے ہیں۔ اصولی طور پر اتحادی حکومت ہونے کے باوجود بھی وزارتِ اعلیٰ یا وزارتِ عظمیٰ اکثریتی پارٹی کے لیے مختص ہونی چاہیے تاکہ عوامی ووٹوں کی درست نمائندگی ہو سکے۔ سیاسی انجینئرنگ کا ملک کو پہلے ہی بہت نقصان پہنچ چکا ہے۔ ملک کو اس وقت سیاسی استحکام کی زیادہ ضرورت ہے۔ اگر پنجاب اسمبلی میں ایک مرتبہ پھر کوئی بڑی تبدیلی آتی ہے تو غیر یقینی کی صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔ موجودہ حکومت کا قائم رہنا ملک کے لیے بہتر ہے۔ گو کہ اس وقت ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے لیکن اس سے نکلنے کے لیے نئی حکومت کا قیام مناسب حل نہیں ہے۔ یہ ایڈونچر آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کے بعد کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام بحال ہونے کے بعد تین سے چار ماہ آسانی سے گزر سکتے ہیں۔
سعودی عرب کی جانب سے دو ارب ڈالرز کیش فراہم کیے جا رہے ہیں جو یقینا ناکافی ہیں۔ حکومت کو تقریباً ساڑھے چار ارب ڈالر ملنے کی امید تھی۔ جہاں تک بات ہے سرمایہ کاری کی تو اس سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا مشکل ہوتا ہے کیونکہ سرمایہ کاری کا عمل مکمل ہونے میں کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ البتہ کچھ سرکاری اداروں کی نجکاری کر کے شیئرز سعودی عرب کو بیچ دیے جائیں تو فوراً ڈالرز میسر آ سکتے ہیں لیکن ماضی کے پیشِ نظر سعودی حکومت کے ساتھ فوری طور پر ایسا معاملہ ممکن نہیں۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ نجکاری کے معاملے پر پیشرفت ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ آرمی چیف کا دورۂ متحدہ عرب امارات اور اب وزیراعظم کا متحدہ عرب امارات کا دورہ اچھی ڈیل سامنے لاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ چین سے بھی بڑا پیکیج لینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے چینی صدر کو پاکستان آنے کی دعوت دی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب چینی صدر پاکستان آئیں گے تو خالی ہاتھ نہیں آئیں گے بلکہ اچھا پیکیج بھی ساتھ لے کر آئیں گے۔ ممکنہ طور پر نواز شریف صاحب کی وطن واپسی بھی چینی صدر کے دورۂ پاکستان سے نتھی ہے تا کہ عوام میں یہ تاثر دیا جا سکے کہ نواز شریف صاحب ملک کی معاشی بحالی کے لیے بڑی امداد لے کر آئے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ یہ سب کاوشیں آئی ایم ایف کی سپورٹ کے بغیر زیادہ ثمر آور ثابت نہیں ہو سکتیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات ابھی تک بحال نہیں ہو سکے ہیں۔ جنیوا میں منعقدہ ڈونرز کانفرنس کی سائیڈ لائن پر وزیر خزانہ کی آئی ایم ایف حکام کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے؛ تاہم ابھی تک وہ آئی ایم ایف کو اپنا وفد پاکستان بھیجنے پر راضی نہیں کر پائے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم کا آئی ایم ایف چیف کے ساتھ رابطہ بھی بے سود گیا بلکہ آئی ایم ایف چیف نے حکومت کے اس دعوے کی بھی تردید کی کہ آئی ایم چیف نے وزیراعظم پاکستان کو فون کیا۔ ان کے مطابق وزیراعظم صاحب نے ان سے رابطہ کیا تھا۔ بعض حلقوں کی جانب سے اس طرح کے واقعات اہمیت کے حامل نہیں ہوتے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شخصیات اور ملکوں کی اہمیت کا اندازہ انہی معاملات سے ہوتا ہے۔ اگر حالات نارمل ہوتے یا پاکستان کے بجائے کوئی معاشی طور پر طاقتور ملک ہوتا تو آئی ایم ایف نے حکومتی دعوے کی تردید نہیں کرنی تھی۔عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ معاملات طے نہ ہونے کی وجہ سے ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہو گیا ہے اور مہنگائی ستر کی دہائی کے بعد سب سے بلند سطح پر ہے جبکہ آنے والے دن مزید سخت ہونے جا رہے ہیں۔
ملک میں گندم اور مرغی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب رمضان المبارک میں گھی اور تیل کی قیمتوں میں اضافے اور قلت کا بھی خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں پیدوار کے ذمہ دار حلقے روغنی تیل، سویابین تیل اور سَن فلاور آئل سے محروم ہورہے ہیں۔اس کی وجہ بینکوں کی جانب سے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) نہ کھولنے اور بندرگاہ پر سامان کی کلیئرنس کے لیے ریٹائرنگ دستاویزات جاری نہ کرنا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ 27 دسمبر 2022ء کو سٹیٹ بینک کی جانب سے خام مال کو ضروری اشیا قرار دیا گیا‘بینکوں کی جانب سے ایل سیز نہ کھولنے اور ریٹائرمنٹ دستاویزات کی درخواستیں مسترد کیے جانے کی وجہ سے کسٹمز بانڈڈ گوداموں سے 3 لاکھ 58 ہزار ٹن خوردنی تیل کو اٹھانے سے منع کردیا گیا ہے۔ روغنی تیل کی قیمت پہلے ہی 13 ہزار فی ماؤنڈ سے بڑھ کر 14 ہزار فی ماؤنڈ تک پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے فی کلو گرام؍ لیٹر گھی اور تیل کی قیمتوں میں 26 روپے اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح 3 لاکھ 58 ہزار خام مال کی کلیئرنس ہونا بھی باقی ہے جبکہ 10 جہازوں پر ایک لاکھ 75 ہزار ٹن خام مال کراچی اور بن قاسم بندرگاہوں پر موجود ہے۔ اگر لیٹر آف کریڈٹ کی ریٹائرمنٹ مزید تاخیر کا شکار ہوتی ہے تو صارفین کو گھی اور تیل کی فی کلوگرام؍ لیٹر کی قیمتوں میں ایک بار پھر 15 سے 20 فیصد اضافے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ روغنی تیل، سَن فلاور اور سویا بین تیل کو بیرونِ ملک سے پاکستان پہنچنے کے لیے کم از کم 60 روز لگتے ہیں۔ مارچ کے تیسرے ہفتے یعنی رمضان میں گھی اور تیل کے بحران سے بچنے کے لیے اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنا ناگزیر ہو گیا ہے کیونکہ رمضان المبارک میں تیل اور گھی کی مانگ میں 25 فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں قلت سے عوام کے مسائل میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے تا کہ وقت آنے پر مافیاز کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہونا پڑے۔اگر سرکار نے بروقت اقدامات نہ کیے تو عوامی سطح پر یہ تاثر عام ہو جائے گا کہ سرکار بھی تیل مافیا کے ساتھ مل پر عوام پر بوجھ بڑھانے میں ملوث ہے۔
ان حالات میں اچھی خبریں ڈونرز کانفرنس سے موصول ہوئی ہیں۔پاکستان کے ساتھ 9.7 ارب ڈالرز کی امداد کے وعدے کیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ بھی اس معاملے پر ششدر ہے۔ پاکستان نے آٹھ ارب ڈالرز کی امداد مانگی تھی۔ ایسی کانفرنسز میں عمومی طور پر ڈیمانڈ سے کم فنڈز جمع ہوتے ہیں لیکن مطالبے سے زیادہ امداد کے وعدے کیے گئے ہیں۔ یوکرین جنگ کے باوجود یہ کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان نے اپنا کیس بہتر انداز میں پیش کیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات کم ہوں گے یا نہیں۔ میرے مطابق اس کا انحصار امداد کے ملنے پر ہے۔ کچھ امداد تین سال کے عرصہ میں ملے گی اور کچھ فوری ملنے کے امکانات ہیں۔ فوری ملنے والی امداد پاکستان کے ڈالرز ذخائر کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہو گی جس سے دیوالیہ پن کا خطرہ وقتی طور پر ٹل جائے گا۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر پاکستان کی دل کھول کر امداد یہ پیغام دیتی ہے کہ عالمی برادری پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے حق میں نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں