زرِمبادلہ ذخائر‘ آئی ایم ایف اور معیشت

رواں ہفتے گورنر سٹیٹ بینک نے دعویٰ کیا کہ اگلے ہفتے سے ملک میں ڈالرز آنا شروع ہو جائیں گے۔ گوکہ اس دعوے سے کاروباری حلقے خوش ہیں لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسحاق ڈار صاحب نے بھی نومبر میں کہا تھا کہ ایک دو ہفتوں میں سعودی عرب سے ڈالرز آ جائیں گے لیکن اب جنوری ختم ہونے کو ہے اور وہ ڈالرز نہیں آئے ہیں۔ گورنر صاحب کے اس دعوے میں کس حد تک سچائی ہے‘ یہ تو وقت ہی بتائے گالیکن سٹیٹ بینک کی جاری رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2022ء کے بعد پہلی مرتبہ ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ملکی معیشت بہتری کی طرف جا رہی ہے یا سرمایہ کاروں کا معیشت پر اعتماد بحال ہو گیا ہے‘ بلکہ اطلاعات کے مطابق یہ اضافہ منی ایکسچینجرز سے ڈالرز کی خریداری کے بعد ہوا ہے۔ سٹیٹ بینک نے اوپن مارکیٹ سے ڈالرز خرید کر ڈالرز ذخائر بڑھائے ہیں۔ یہ ڈالرز کس ریٹ پر خریدے گئے ہیں‘ اس بارے بھی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آ سکی لیکن گزشتہ ہفتے کرنسی ڈیلرز نے ڈالرز 251 روپے پر بیچنے کی پیش کش کی تھی۔ اگر حکومت نے اس ریٹ پر ڈالر خرید کر 228 کے حساب سے استعمال کرنا ہے تو یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ کیا یہ زیادہ بہتر نہیں کہ حکومت ڈالر ریٹ کو ہی بڑھا دے۔ یہاں سوال یہ بھی پیداہوتا ہے کہ اس طرح ڈالر ذخائر بڑھانا ملک کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ دوسری طرف سعودی عرب سے دو ارب اور یو اے ای سے ملنے والے ایک ارب ڈالرز‘ قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہوں گے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ڈالرز ذخائر میں یہ اضافہ عارضی ہوگا اور اس سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات پڑنے کے امکانات بھی کم ہیں۔ زرِ مبادلہ ذخائر کسی بھی ملک کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ بھی بہت اہم ہے کہ ڈالرز کس ذرائع سے اور کیوں آ رہے ہیں۔ اگر قرض کی مد میں آئی ایم ایف سے ڈالرز مل رہے ہیں تو ان سے پندرہ سے بیس دن بہتر گزریں گے اور پھر حالات خراب ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اگر برآمدات‘ فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ یا ترسیلاتِ زر سے ڈالر ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے تو یہ خوش آئند ہے۔ لیکن آئی ایم ایف قرض ملنے سے پہلے سٹاف لیول معاہدہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگ میں معاملہ بھیجا جاتا ہے۔ پھر پاکستان کو قرض ملتا ہے۔ یہاں تو ابھی تک سٹاف لیول معاہدہ ہی نہیں ہوا ہے اور پاکستان سے متعلق ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگ بھی ابھی تک ابہام کا شکار ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف سے فوری ڈالرز ملنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ اور برآمدات بڑھنے کی امید بھی نہیں ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک کو چاہیے تھا کہ عوام کو یہ بھی بتاتے کہ اگلے ہفتے کہاں سے ڈالرز آ جائیں گے۔
پہلے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی چھتری کے بغیر قرض نہیں دیتے تھے لیکن اب امیر ممالک بھی آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر قرض نہیں دے رہے۔ وہ بھی آرٹیکل فار کنسلٹیشن کے تحت کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آرٹیکل فارکنسلٹیشن صرف آئی ایم ایف کے پاس ہے جس کے تحت وہ تمام بڑے مالیاتی اداروں کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے اور طے کرتا ہے کہ کس ملک کو قرض دینا چاہیے اور کسے نہیں۔ سعودی عرب نے کہا ہے کہ آئندہ پاکستان کی پرفارمنس اور شرائط کو مدنظر رکھ کر قرض دیے جائیں گے۔ یعنی وہ بھی اگلی مرتبہ آئی ایم ایف آرٹیکل فارکنسلٹیشن کے تحت ہی ہمیں قرض دیا کرے گا۔ پاکستان کو اب کوئی اور راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ جب تک ہم امداد اور قرض کی مد میں ملنے والے ڈالرز پر تکیہ کیے رکھیں گے‘ ملک میں ڈالرز کی ریل پیل نہیں ہو گی۔ ڈالرز کی بارش صرف اُس صورت میں ممکن ہے جب ہم برآمدات بڑھائیں اور درآمدات گھٹائیں گے کیونکہ اس مرتبہ اگر قرض مل بھی گیا تو حالات ٹھیک ہونا مشکل ہیں۔ پاکستان قرضوں کے بوجھ میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ اس بات کی بھی گارنٹی نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کے بعد ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک بھی قرض دیتے ہیں یا نہیں۔ ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے بھی اب آئی ایم ایف کی طرح کام کر رہے ہیں۔ اس وقت اگر دس بلین ڈالرز بھی مل جائیں تو ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے کیونکہ پاکستان کے قرضے 130ارب ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں۔ سالانہ 35ارب ڈالرز قرض ادا کرنا ہوتا ہے۔ برآمدات تقریباً 30 ارب ڈالرز اور درآمدات تقریباً 80 ارب ڈالرز ہیں۔ اس فرق میں جتنے بھی ڈالر جھونک دیے جائیں‘ کم ہیں۔ پہلے آئی ایم ایف کی قسط سے مہینے گزرتے تھے‘ اب بمشکل ہفتے گزرتے ہیں۔ ڈالرز بڑھانے کے لیے ایکسپورٹرز کو سہولتیں دینا ہوں گی کیونکہ ایکسپورٹرز کو سہولتیں دے کر ملک جلد ہی اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ جو ڈیل فائنل کرنے جارہی ہے‘ اس کے کچھ حصوں کو کاروباری طبقے کے بڑے سٹیک ہولڈرز کی حمایت حاصل ہے اور کچھ شرائط پر شدید اختلاف سامنے آ رہا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے جن مطالبات پر عمل درآمد کرنے کی حامی بھری ہے‘ ان میں بجلی کی قیمت میں تقریباً 7 روپے فی کلو واٹ اضافہ‘ گیس کی قیمت میں تقریباً 750روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ‘ ڈالر کی فری فلوٹنگ‘ بینکوں سے کیش نکلوانے پر ود ہولڈنگ ٹیکس‘ پراپرٹی کی خریدو فروخت پر اضافی ٹیکس اور شرح سود میں مزید اضافے سمیت کئی دیگر شرائط بھی شامل ہیں۔ بزنس کمیونٹی ڈالر کو انتظامی بنیادوں پر قابو کرنے کے خلاف ہے اور وہ آئی ایم ایف کے مطالبے کا خیر مقدم کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن بینکوں سے کیش نکلوانے پر ود ہولڈنگ ٹیکس لگانے کو سپورٹ نہیں کر رہی۔ بینک اکاؤنٹ سے کیش نکلوانے پر ٹیکس لگانے سے بینکوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عوام بینک اکاؤنٹس میں کیش رکھنے کے بجائے ڈالرز رکھنے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بینک لاکرز میں بھی فارن کرنسی رکھوانے کا رجحان بڑھ سکتا ہے۔ اسحاق ڈار صاحب کے پچھلے دورِ حکومت میں بھی کیش نکلوانے پر ود ہولڈنگ ٹیکس لگایا گیا تھا جس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ گھروں اور دکانوں میں کیش رکھنے اور نجی تجوریاں بنوانے کا رجحان بڑھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں شرح سود پہلے ہی خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ اگر اسے مزید بڑھایا گیا تو اس سے ایک طرف کاروباری طبقہ متاثر ہوگا اور دوسری طرف بینکوں کے کریڈٹ ڈپارٹمنٹس کی کارکردگی مزید کمزور ہو جائے گی۔ کیونکہ ان حالات میں بینکوں کے قرض پر کاروبار کرنا بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اعلان پر بھی شدید عوامی ردِعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پہلے ہی فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں واضح کمی آچکی ہے۔ دسمبر 2022ء میں تیل کی درآمد ایک ارب اسی کروڑ ڈالر سے کم ہو کر ایک ارب اٹھاون کروڑ ڈالرز رہ گئی ہیں اور مستقبل میں یہ مزید کم ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ حالات کافی نازک ہیں۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ جب سے ملک بنا ہے یہی سنتے آرہے ہیں کہ حالات نازک ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ موجودہ صورتحال کا ملک کوپہلے کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ڈالرز ذخائر موجودہ سطح سے بھی نیچے رہے ہیں لیکن دوست ممالک اور آئی ایم ایف سے قرض ملنا کبھی اتنا مشکل نہیں رہا ہے۔ حکمران اس پروگرام کو جتنا تاخیر میں ڈال رہے ہیں‘ حالات اتنے ہی زیادہ خراب ہو رہے ہیں اور غیریقینی صورتحال میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ میں یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ حکومت جو بھی مشکل فیصلے لینے کا ارادہ رکھتی ہے‘ وہ فوراً لیے جائیں۔ ابھی فیصلے لینے سے مہنگائی شاید 35 فیصد بڑھ جائے‘ اگر تاخیر کی گئی تو مہنگائی ستر فیصد تک بھی پہنچ سکتی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں