پاکستان میں سیاسی ماحول گرم ہے اور اس گرمیٔ سیاست کی بڑی وجہ چیئرمین تحریک انصاف ہیں۔ جب سے وفاق میں ان کی حکومت ختم ہوئی ہے ملک نے کئی سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ پہلے پورے ملک میں جلسے کیے گئے، اس کے بعد ضمنی انتخابات لڑے گئے، لانگ مارچ ہوا، صوبائی اسمبلیاں توڑی گئیں اور اب جیل بھرو تحریک کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس تحریک کا مقصد کیا ہے؟ اس کی تاریخ کیا ہے اور کیا پاکستان میں پہلی کبھی جیل بھرو تحریک کامیاب ہو سکی ہے؟ جیل بھرو تحریک بنیادی طور پر احتجاج کا ایک طریقہ ہے جس میں لوگ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے رضاکارانہ طور پر گرفتاری دیتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ جیلوں میں چلے جائیں کہ ریاست کے لیے ان کا انتظام مشکل ہو جائے۔ البتہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایسی تحریکیں کم ہی کامیاب ہو پاتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قانون توڑا جائے۔ ایسا نہیں کہ آپ تھانے چلے جائیں اور کہیں کہ مجھے جیل جانا ہے تو پولیس آپ کو جیل بھیج دے۔برصغیر کی تاریخ میں جیل بھرو اور سول نافرمانی تحریک کے موجد انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما موہن داس گاندھی کو سمجھا جاتا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں اس تحریک کو ''ہندوستان چھوڑ دو تحریک‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اگست 1942ء میں شروع ہونے والی اس تحریک میں 60 ہزار سے زائد افراد گرفتار ہوئے تھے جن میں سے اکثریت بغیر کسی مقدمے کے تقسیم ہند تک قید رہی۔ یوں یہ تحریک فوری طور پر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ چونکہ یہ تحریک اس وقت کی آزادی کی تحریک کا ایک حصہ تھی اس لیے اسے کچلے جانے کے باوجود اس نے لوگوں کو شعور دینے اور ان میں نیا جذبہ بھرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ماضی قریب میں‘ 2011ء میں بھارت میں کرپشن کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرنے والے اَنا ہزارے نے لوک پال بل میں اپنی تجاویز شامل کرانے کے لیے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا تھا۔ حکومت نے ان کی تجاویز مانتے ہوئے انہیں بل کا حصہ بنا دیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنا اعلان واپس لے لیا۔پاکستان میں باضابطہ طور پر ایک ہی جیل بھرو تحریک کے آثار ملتے ہیں جو ضیاء الحق کے خلاف بننے والے سیاسی جماعتوں کے اتحاد ایم آر ڈی (تحریک بحالیٔ جمہوریت) نے شروع کی تھی۔ ضیاء الحق کا استعفیٰ، آئین کی بحالی، سیاسی اسیروں کی رہائی اور مارشل لا عدالتوں کے ذریعے دی گئی سزائوں کی منسوخی اس تحریک کے بنیادی مطالبات تھے۔ ایم آر ڈی نے اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا مگر اس سے ضیاء الحق حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑا ؛البتہ عوامی سطح پر حکومت مخالف سوچ کو پروان چڑھانے میں مدد ملی۔
عمران خان کی جانب سے ایسی تحریک کی کال کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ اکتوبر 2022ء میں میانوالی کے جلسے سے خطاب کے دوران بھی انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد ہی جیل بھرو تحریک کی کال دیں گے۔اس سے قبل 2014ء کے دھرنے کے ابتدائی دنوں میں خان صاحب نے سٹیج پر کھڑے ہوکر بجلی کا بل جلاتے ہوئے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔ ان کی اس تحریک کو لے کر ان کے مخالفین آج بھی ان پر طنز کرتے ہیں۔تحریک آزادی میں اور ضیا دور میں جو لوگ جیلوں میں گئے تھے انہوں نے ریاست کے قوانین کو ماننے سے اعلانیہ انکار کیا تھا۔ مارشل لا حکومت نے جلسے جلوسوں سے منع کیا تو لوگ باہر نکلے اور پھر انہیں قید کر دیا گیا۔ اس سے قبل گاندھی اور ان کے پیروکاروں نے انگریز سرکار کے جابرانہ قوانین کو ماننے سے انکار کیا تھا، اس وجہ سے ان کو جیلوں میں بند کیا گیا تھا۔ بظاہر عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے سامنے ایسا کوئی قانون نہیں ہے جسے توڑنے پر وہ گرفتاری کے حقدار بن جائیں اور جیلیں بھر دیں۔ جیل جانے کے لیے خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کو ضابطہ فوجداری کے تحت کسی قابلِ دست اندازیٔ پولیس قانون کی خلاف ورزی کرنا ہوگی جو بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کارکن تھانوں میں جا کر کہیں کہ انہیں گرفتار کر لیا جائے تو پولیس انہیں گرفتار کر لے۔ یہ ایک تکنیکی مسئلہ ہے۔ دورِ غلامی اور جمہوری ادوار میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ ایسی تحریکیں ملک کی آزادی کے لیے کامیاب نہ بھی ہوں تب بھی لوگوں میں بیداری اور شعور پیدا کر دیتی ہیں، لیکن سیاسی تحریکوں میں جیل بھرو جیسے اقدامات کو کامیابی نہیں ملتی۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی یہ تحریک کامیاب ہوتی ہے تو فی الفور اس کے معیشت پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس وقت حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین مذاکرات جاری ہیںاور آئی ایم ایف کے مطالبات روز بروز سخت ہوتے جا رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کا وفد گزشتہ ایک ہفتے سے پاکستان میں ہے اور مختلف محکموں کے حکام سے نویں جائزے کیلئے مذاکرات کر رہاہے۔ پیر تک تکنیکی مذاکرات مکمل ہوئے اور آج پالیسی مذاکرات کا دور بھی ختم ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے مذاکرت میں اب تک کئی چیزیں طے ہو چکی ہیں مگر کچھ چیزوں پر اب بھی اتفاقِ رائے نہیں ہے‘ خاص طور پر پٹرولیم اور توانائی کی قیمتوں کے حوالے سے اب بھی آئی ایم ایف کا وفد مطمئن نہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرط پر عمل درآمد کرتے ہوئے سرکاری افسران کیلئے اپنے اثاثے ظاہر کرنے کو لازمی قرار دیا ہے۔ ایف بی آر کے نوٹیفیکیشن کے مطابق گریڈ 17 سے 22 تک کے تمام سرکاری افسران اور اُن کے اہلِ خانہ کو اندرون و بیرونِ ملک موجود اپنے اثاثے ظاہرکرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ تمام بینک سرکاری افسران اور ان کے اہلِ خانہ کے اکاؤنٹس کی تفصیلات ایف بی آر کو دینے کے پابند ہوں گے۔ بینک یہ تفصیلات سال میں دو مرتبہ‘ 31 جنوری اور 31 جولائی کو فراہم کریں گے۔آئی ایم ایف کے اس فیصلے کو عوامی سطح پر پذیرائی مل رہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس فیصلے کو حقیقی روح کے ساتھ لاگو کیا جا سکے گا یا نہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض کی قسط ملنے کے بعد اگرکوئی نیا قانون متعارف کرا دیا گیا تو کیا ہو گا؟
اگر اس فیصلے کے خلاف اپیل کر دی جائے تو کئی سالوں تک معاملہ لٹک سکتا ہے اور سرکاری بابوئوں کے اثاثے پبلک ہوتے دیکھنے کا معاملہ ایک خواب ثابت ہو سکتا ہے۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر قائم ہونے والی پاکستانی ٹاسک فورس نے ترامیم کا مسودہ تیار کیا ہے جس کے مطابق 'نیب اور ایف آئی اے کے دائرۂ کار کو واضح اور علیحدہ کیا جائے گا۔ دونوں محکموں کی استعداد کار بڑھائی جائے گی اور سرکاری محکموں کے اکاؤنٹس کا جائزہ لیا جا سکے گا‘۔آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ پاکستان کو جون 2023ء تک 5 ارب ڈالرز درکار ہیں۔ پہلے یہ بتایاجائے کہ وہ کن ممالک اور اداروں سے اتنا قرض لینے کا ارادہ رکھتا ہے اور ان ممالک اور اداروں سے بھی یقین دہانی کرائی جائے۔ بجلی کی قیمت فی یونٹ تقریباً آٹھ روپے مزید بڑھانے کی خبریں گردش کر رہی ہیں لیکن آئی ایم ایف کو خدشہ ہے کہ شاید نیپرا اس فیصلے کو صحیح معنوں میں لاگو نہ کر سکے۔ نیب اور ایف آئی اے سے متعلق قوانین میں ترمیم پر بھی رضامندی ظاہر کر دی گئی ہے۔ وزیراعظم صاحب کی یہ بات درست ہے کہ آئی ایم ایف والے ایک ایک کتاب کھول کر دیکھ رہے ہیں۔ شاید ہی ملک کا کوئی شعبہ ہو جس میں آئی ایم ایف نے مداخلت نہ کی ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت پورا ملک آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق چل رہا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ ان حالات میں ایک اور مسئلہ سر اٹھا رہا ہے جو ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ فنڈ سے متعلق ہے۔ آئی ایم ایف کو خدشہ ہے کہ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک پاکستان کو قرض نہیں دیں گے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے چند روز قبل ورلڈ بینک کے حکام سے بات کی ہے لیکن مثبت جواب نہیں ملا۔ اس وقت پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر صرف پندرہ دن کی امپورٹ کے برابر ہیں۔ اس صورتحال میں آئی ایم ایف کی شرائط کو من و عن ماننے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے لیکن آئی ایم ایف کے مطالبات کو ماننے کے بعد پاکستان دنیا کے مہنگے ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔