سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں 100 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔ سعودی پرنس فہد بن منصور السعود نے پاکستان میں سعودیہ پاکستان ٹیک ہاؤس قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا ہیڈکوارٹر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہو گا اور اس کی پہلی برانچ لاہور میں ہو گی۔ٹیک ہاؤس کے قیام سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں باہمی تجارت کو فروغ مل سکتا ہے۔ پرنس فہد بن منصور السعود السا انٹریکٹو کے شریک بانی بھی ہیں۔اس کمپنی کو 2009ء میں پاکستان کی ایک کاروباری شخصیت نے قائم کیا تھا، جس کے لاہور کے علاوہ ریاض میں بھی دفاتر ہیں۔300سے زائد منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر قائم کیا جائے گاجن کی مالیت 100ملین ڈالر ہوگی۔ سعودی سرمایہ کاروں کو پاکستان لانا اور دنیا کی توجہ پاکستانی ٹیلنٹ کی طرف مبذول کرانا حوصلہ افزا ہے جس کے بہتر نتائج جلد ہی سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔
پاکستان میں فری لانسنگ کی صنعت کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ یہ تیزی سے فروغ پانے والا کیریئر بن گیا ہے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں فری لانسنگ کر رہی ہے۔ پاکستان میں یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ گوگل‘ جو دنیا کی سب سے بڑی اور مقبول آئی ٹی کمپنی ہے‘ وہ بھی کاروبار کیلئے فری لانسرز کی حمایت کرتی نظر آرہی ہے۔ فری لانسرز کی عالمی رینکنگ میں پاکستان نے بنگلہ دیش، فلپائن اور روس سمیت دیگر ایشیائی ممالک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے چوتھی پوزیشن حاصل کر رکھی ہے۔پاکستان میں دس لاکھ سے زائد فری لانسرز ہیں جو ملکی معیشت میں اپنا نمایاں حصہ ڈال رہے ہیں۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق 2022ء میں پاکستانی نوجوانوں نے گھر بیٹھ کر 400 ملین ڈالر گگ (Gig) اکانومی سے کمائے۔ پاکستان گگ سے کمائی کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ پاکستان کی ٹوٹل آئی ٹی ایکسپورٹ مالی سال 2021-22ء میں 2 ارب 62 کروڑ ڈالرز تھیں۔اگرچہ بھارت کی آئی ٹی ایکسپورٹس 230 بلین ڈالر کے لگ بھگ تھیں لیکن خوشگوار امر یہ ہے کہ گگ اکانومی میں پاکستان کی گلوبل رینکنگ (چار) انڈیا کی رینکنگ (سات) سے بہتر ہے۔
امریکہ کے 36 فیصد نوجوان گگ اکانومی سے ایک سو بلین ڈالرز سالانہ تک کما رہے ہیں۔ اس وقت گگ اکانومی کا مجموعی حجم 455بلین ڈالر سے زائد ہے۔ ایک فری لانسر اوسطاً 21 ڈالر فی گھنٹہ کما رہا ہے۔ امریکہ کی 85 فیصد کمپنیاں اب فری لانسرز کو ہائر کرتی ہیں‘ اس سے وہ آفس کے اضافی اخراجات سے بچ جاتی ہیں۔ اسی لیے فری لانسنگ جابز پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک امریکہ ہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق فری لانسنگ انڈسٹری کے 64 فیصد فری لانسرز کسی باس کے ماتحت نہیں ہیں‘ وہ خودمختار ہیں۔ پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے کے ذمہ دار ادارے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی) کے مطابق پاکستان آئی ٹی فری لانسرز کا 62 فیصد شمالی امریکہ کی کمپنیوں کے لیے کام کرتا ہے، جبکہ کئی فری لانسرز یورپی منڈیوں سے بھی کاروبار حاصل کر رہے ہیں۔ ہیکنگ سے بچنے کے لیے بھی دنیا بھر کی کمپنیوں کو فری لانسرز کی ضرورت رہتی ہے۔ پاکستان سے بڑی تعداد میں پروفیشنلز اس میدان میں کام کر رہے ہیں۔ہیکنگ زیادہ ہونے کے باعث اس میدان میں کام کرنے والے فری لانسرز کی اہمیت خاصی بڑھ گئی ہے اور ان کی آمدن میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
سکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والے نوجوان فری لانسنگ اور ای کامرس میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جبکہ مدرسوں میں پڑھنے والے طالب علم بہت کم اس شعبے کی طرف توجہ دے پا رہے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق قیام پاکستان کے وقت مدرسوں کی تعداد 150 تھی‘ اب رجسٹرڈ مدرسوں کی تعداد 32 ہزار سے زائد ہے جہاں 25 لاکھ سے زائد طالب علم زیرِ تعلیم ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر میں مدرسے کے بچے آسانی سے نوکری حاصل نہیں کر پاتے کیونکہ اکثر اوقات درکار سکلز ان کے پاس نہیں ہوتیں۔ایسے میں ان بچوں کو صرف مذہبی تعلیم سکھانے یا مساجد و مدارس میں فرائض سرانجام دینے کا ہی موقع ملتا ہے۔ یہ کم تنخواہوں والی خدمات ہیں جن سے آج کے مشکل معاشی دور میں گزارہ ممکن نہیں؛ تاہم گگ اکانومی ایک ایسا شعبہ ہے جو نہ تعلیم دیکھتا ہے نہ ڈگریاں، نہ ہی یہاں مواقع کی کمی ہے۔ آپ کے پاس اگر ہنر ہے تو آپ بہ آسانی گھر بیٹھے معقول آمدن حاصل کر سکتے ہیں۔مدرسوں کے بچوں کے تعلیمی کورسز میں فری لانسنگ اورای کامرس کے مضامین شامل کر کے پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹس کو کئی گنا تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
پوری دنیا میں اس وقت مہنگائی بڑھ رہی ہے۔امریکہ اور یورپ میں مہنگائی نے پچھلے کئی ریکارڈز توڑ دیے ہیں۔ پاکستان بھی اس سے متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔موجودہ حالات میں مہنگائی پر قابو پانا مشکل ہے لیکن آمدن بڑھا کر مہنگائی کے اثرات سے کسی حد تک بچا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال میں نظام پر تنقید کرنے کے بجائے مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اس وقت ڈالرز کی اشد ضرورت ہے اور کوئی بھی ملک ہر قسم کی اشیا برآمد کر کے زرمبادلہ نہیں کما سکتا۔ اکثر ممالک محض ایک یا دو پراڈکٹس کی برآمدات سے ہی اپنی ملکی معیشت چلا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ہر دوسرا شہری کسی نہ کسی طرح ٹیکسٹائل ایکسپورٹس سے جڑا ہے۔ آج چین کے بعد بنگلہ دیش دنیا کا دوسرا بڑا ٹیکسٹائل ایکسپورٹر ہے۔ برازیل خام لوہے کی برآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ ملائیشیا الیکٹرانکس پروڈکٹس کی ایکسپورٹ سے ملکی معیشت چلا رہا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ ٹیکسٹائل ہے لیکن حالات کے پیشِ نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پاکستان اگر آئی ٹی ایکسپورٹس کی طرف توجہ دے تو یہ شعبہ ٹیکسٹائل سے زیادہ زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ ٹیکسٹائل ایکسپورٹس بڑھانے کے لیے بجلی، گیس اور قرضوں پر سبسڈی دینا پڑتی ہے اور کپاس بھی درآمد کرنا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ اربوں ڈالرز کی ٹیکسٹائل مشینری بھی امپورٹ ہوتی ہے جبکہ آئی ٹی ایکسپورٹس بڑھانے کے لیے نہ تو کسی سبسڈی کی ضرورت ہے اور نہ ہی اربوں ڈالرز کی مشینری امپورٹ کرنا پڑتی ہے۔ یہ سروس سیکٹر ہے جس میں پاکستان خود کفیل ہے۔ امریکہ اور کینیڈا کی سینکڑوں کمپنیاں اپنے کال سنٹرز پاکستان میں بنانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اب سعودی عرب کا بھی آئی ٹی خدمات کیلئے پاکستان کا رخ کرنا یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستان میں اس شعبے میں بہترین لوگ موجود ہیں۔ حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم صاحب آئی ٹی ایکسپورٹس کو بڑھانے کیلئے اس شعبے کے ماہرین کی رہنمائی میں نئی پالیسی متعارف کرا سکتے ہیں۔ جب شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو انہوں نے مفت ای کامرس اور فری لانسنگ سکھانے کیلئے ''ڈیجی سکلز‘‘ (DigiSkills) کے نام سے ایک پروجیکٹ لانچ کیا تھا جس نے لاکھوں بچوں کو گھر بیٹھے فری لانسر بنا دیا تھا۔ اب چاروں صوبوں کے گورنرز کی مشاورت سے یونیورسٹیوں میں آئی ٹی ایکسپورٹ کی مہم شروع کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ وفاق المدارس کو اعتماد میں لے کر تجاویز لی جا سکتی ہیں۔ مشکل معاشی حالات میں آئی ٹی ایکسپورٹس اور ای کامرس پاکستان کے لیے نجات دہندہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے حوالے سے بھی اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ حکومت اور خلیجی ممالک کے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں اور وہ جلد ہی آئی ایم ایف کو پاکستان کی مالی امداد کی گارنٹی دیں گے۔ مطلوبہ ٹیکسز لگانے کے حوالے سے بھی پیشرفت ہوئی ہے۔ لگژری آئٹمز پر ٹیکس 18 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دیا گیا ہے۔ جون 2023ء تک کرنٹ اکائونٹ خسارہ آئی ایم ایف کے اہداف حاصل کر سکتا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھ رہے ہیں اور امید ہے کہ جون 2023ء تک زرمبادلہ کے ذخائر 10ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گے۔ اہداف کے حصول کیلئے حکومت کو مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ جتنی جلدی آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو گا‘ اتنی جلدی ملک کی مالی مشکلات کم ہوں گی۔