چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے ثابت کیا ہے کہ وہ مشکل وقت میں درست فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عمران خان کے خلاف اس وقت کیسوں کی تعداد نوے سے زیادہ ہو چکی ہے۔ عدالتوں سے رجوع کرنے کی تحریک انصاف کی پالیسی کامیاب رہی لیکن پولیس کی جانب سے عمران خان کے گھر پرشیلنگ اور تحریک انصاف کے حامیوں سے تصادم قابلِ مذمت ہے۔ ایک سابق وزیراعظم کے گھر پر اس طرح کے حملے کرنے کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس سے دنیا میں پاکستان کا جو امیج گیا ہے‘ وہ بہت افسوس ناک ہے۔ یہ معاملہ بہتر طریقے سے ہینڈل ہو سکتا تھا۔ ایک طرف پی ایس ایل کے باعث دنیا بھر کی نظریں پاکستان پر مرکوز تھیں تو دوسری طرف پی ایس ایل سیریز کے دوران ہی سابق وزیراعظم کے گھر کو میدانِ جنگ بنا دیا گیا۔اسی انتقامی سیاست نے آج ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ ہمارے معاشی مسائل روز افزوں ہیں لیکن ان مسائل کا حکومت کو کوئی قابلِ عمل اور دیر پا حل سجائی نہیں دے رہا۔
سابق وزیراعظم کے گھر پر اس قسم کی پولیس کارروائی نے بری روایت قائم کی ہے۔ مستقبل میں یہ صورتحال نواز شریف‘ شہباز شریف اور آصف علی زرداری سمیت دیگر سرکردہ سیاسی کے ساتھ بھی پیش آ سکتی ہے۔ اس وقت ایک اہم معاملہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی سکیورٹی کا بھی ہے۔ لاہور اور اسلام آباد کی عدالتوں میں پیشیوں کے دوران ان کی سکیورٹی کی صورتحال کیا ہوگی‘ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ عمران خان پر جان لیوا حملہ ہو چکا ہے اور وہ دوبارہ حملے کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ کسی شخص کے ٹرائل کا مقصد یہ جاننا ہوتا ہے کہ وہ مجرم ہے یا نہیں۔ یہ ڈیجیٹل دور ہے۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی میٹنگز اور فیصلے آن لائن ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ ملکوں کے درمیان بھی بڑی بڑی میٹنگز اب آن لائن وڈیو کانفرنس کے ذریعے کی جا رہی ہیں۔ ان حالات میں عدالتوں کے معاملات بھی وڈیو ٹیکنالوجی کے ذریعے چلانا سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر ایسی شخصیات کے کیسز وڈیو لنک پر منتقل کیے جانے چاہئیں جن کی سکیورٹی کے معاملات پر سرکار کو کروڑوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اس بارے میں مستقبل میں کیا فیصلہ ہوتا ہے‘ کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا لیکن اس وقت وزیر خزانہ جس حساس معاملے کو زیر بحث لائے ہیں‘ اس نے پاکستانی عوام کے ذہنوں میں کئی سوالات پیدا کر دیے ہیں۔
وزیر خزانہ نے سینیٹ کے خصوصی سیشن میں مختلف ممالک کے سفیروں کے سامنے آئی ایم ایف سے متعلق بات کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ نیوکلیئر اور میزائل پروگرام پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا‘ کسی کو حق نہیں کہ پاکستان کو بتائے کہ کس رینج کے میزائل یا ایٹمی ہتھیار رکھنے ہیں۔ ایسا ملکی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ وزیر خزانہ کو خصوصی طور پر میزائل پروگرام سے متعلق عوام کے سامنے بات کرنا پڑی ہے۔ اس بیان کے بعد وزیراعظم صاحب نے بھی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام مکمل طور پر محفوظ‘ فول پروف اور ہمارا قومی اثاثہ ہے۔ ریاست پاکستان ہر طرح سے پروگرام کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ یاد رہے کہ چند روز قبل انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل نے پاکستانی ایٹمی پلانٹ کا دورہ کیا تھا جسے سوشل‘ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آئی ایم ایف معاہدے کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے لیکن دفتر خارجہ کی طرف سے اس طرح کی قیاس آرائیوں کو مسترد کیا گیا۔
اسحاق ڈار کا یہ بیان لائقِ تحسین ہے کیونکہ کسی بھی عالمی ادارے یا ملک کو پاکستان کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اپنی سلامتی کے حوالے سے ہمیں کیا اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے لیکن اسحاق ڈار صاحب کو معاشی مسائل پر بھی اپنی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اسحاق ڈار صاحب کے لیے اصل مسئلہ آئی ایم کے ساتھ معاہدے کی جلد تکمیل کے لیے گلف ممالک سے تحریری گارنٹی حاصل کرنا ہے‘ جو وہ کر نہیں پا رہے ہیں۔ پاکستان کو یہ فوکس کرنے کی ضرورت ہے کہ اس نے چھ ارب ڈالر کی فنانسنگ کیسے حاصل کرنی ہے۔ بہت سی شرائط پوری ہو چکی ہیں‘ جس دن گلف ممالک سے گارنٹی ملے گی‘ قرض ملنے کے بھی راستے کھل سکیں گے لیکن اگر حکومت نے غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا تو مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔یہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کا ہی شاخسانہ ہے کہ چین سے قرضوں کے حصول کے باوجود ملکی معیشت میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آئی۔ میرے نزدیک آئی ایم ایف سے فوری قرض ملنے کے امکانات کم ہیں۔ شاید اسی لیے حکومت دوست ممالک سے قرض لے کر وقت گزارنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پاکستان کا جھکاؤ اس وقت چین کی طرف زیادہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان مشکل حالات میں چین واحد ملک ہے جس نے آئی ایم ایف کے دباؤ کے باوجود پاکستان کو قرض دیا ہے۔ پاکستان کو مارچ کے آخری ہفتے چین کو دو ارب ڈالرز کی ادائیگی کرنی ہے۔ حکومت اسے رول اوور کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔ چین سے قرض رول اوور کروانے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ چین پاکستان کو دو ارب ڈالرز کا نیا قرض فوراً دے تاکہ قرض رول اوور نہ ہونے کی صورت میں زرِمبادلہ کے ذخائر پر فرق نہ پڑے۔ لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے۔ پاکستان کو کسی بھی صورت میں آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا ہے۔ چین ایک حد تک پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ جہاں تک بات ہے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرض ملنے کی تو اس کے امکانات کم دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت ان ممالک سے ابھی تک کاغذی گارنٹی ہی حاصل نہیں کر پائی ہے۔ ان حالات میں قرض ملنا تقریباً ناممکن ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض نہ ملنے کی وجہ سے پاکستان اربوں ڈالرز کا نقصان کر چکا ہے اور اس میں جتنی تاخیر ہو گی‘ اتنا ہی زیادہ نقصان ہو گا۔ آئی ایم ایف معاہدے سے پہلے درآمدات پر سے پابندی نہیں ہٹائی جا سکے گی۔ درآمدات پر پابندی کی وجہ سے فیکٹریاں اور کارخانے تیزی سے بند ہو رہے ہیں۔ عدم اعتماد کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانی ترسیلاتِ زر نہیں بھیج رہے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بیرونی شئیر ہولڈرز کے منافع ان کے ممالک میں منتقل نہیں ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں مزید کمی ہونے کا خدشہ ہے۔ اگر چند دنوں تک آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہوا تو کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیز پاکستان کی ریٹنگ مزید کم کر سکتی ہیں اور ڈالر بھی ایک مرتبہ پھر بے قابو ہو سکتا ہے۔
دیکھا جائے تو آج دنیا میں صرف وہی ممالک کامیاب ہیں جن کی انڈسٹری چل رہی ہے اور برآمدات روز افزوں ہیں۔ بدقسمتی سے ملکِ عزیز میں نہ تو انڈسٹری اور نہ ہی برآمدات کے فروغ پر کوئی توجہ دی جا رہی ہے۔ اگر آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دے بھی دیتا ہے تو وہ قرض کتنے دن چلے گا۔ ستر سالوں سے پاکستان قرض ہی لے رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے 22 پروگرامز کے باوجود حکمران ملک نہیں چلا سکے۔ جس ملک میں انڈسڑی چلانے کے لیے تیل اور گیس نہ ہو‘ مشینوں کے سپیئر پارٹس منگوانے کے لیے ڈالرز نہ ہوں‘ اس ملک کو معاشی طور پر مستحکم نہیں کیا جا سکتا چاہے آپ اپنے قیمتی ترین اثاثے ہی کیوں نہ گروی رکھوا دیں۔ وزیر خزانہ صاحب قوم کو یہ بتائیں کہ ان کے پاس ملک اور انڈسٹری چلانے کیلئے کیا پالیسی ہے کیونکہ اس وقت ملک کا صنعتی پہیہ تقریباً جمود کا شکار ہے‘ ٹیکسٹائل پلانٹس بند ہو رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ ٹیکسٹائل پلانٹس بند ہونے کے بعد تقریباً ستر لاکھ افراد بے روز گار ہوئے ہیں۔ ایک طرف روز افزوں مہنگائی ہے اور دوسری طرف بیروز گاری بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ عوامل عوام کی زندگی دوبھر کر چکے ہیں۔ ٹیکسٹائل یونٹس بند ہونے سے اس کلیدی برآمدی شعبے کی برآمدات میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔لیکن ان تمام ترگمبھیر معاشی مسائل کا حکومت کے پاس کوئی حل نہیں۔ لازم ہے کہ حکومت سیاست سے ہٹ کر معیشت پر بھی اپنی توجہ مرکوز کرے۔