پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ملک میں عام انتخابات کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے مشترکہ لائحہ عمل کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کی تجویز کی حمایت کی ہے۔ اس بات کا اعلان انہوں نے سینئر صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد کیا ہے۔ یہ فیصلہ بہت حوصلہ افزاہے۔ انتخابات کے حوالے سے عمران خان کا موقف بہت کلیئر ہے اور وہ اس مدعے پر ہر کسی سے بات کرنے کو تیار رہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حوالے سے حکومت کا کیا موقف ہے۔ مریم نواز پہلے حساب برابر کرنے اور پھر الیکشن کرانے کی بات کرتی ہیں۔ ممکن ہے کہ ان حالات میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہو جائے لیکن کسی ایک فیصلے پر متفق ہونے کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ عمران خان کے بعد حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ہے اور وہ اس سے بھی درست طریقے سے ڈیل نہیں کر پا رہی ہے۔
ملک کی قسمت کے فیصلے جوش کے بجائے ہوش میں کیے جائیں تو بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ بحال کرنے کے لیے تقریباً نوے فیصد شرائط پر عمل درآمد کرلیا گیا ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھائی گئی جس سے مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ شرحِ سود بیس فیصد تک بڑھا دی گئی جس کے باعث معیشت اوندھے منہ گر چکی ہے۔ یہ سب کچھ آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط کے حصول کے لیے کیا گیا لیکن اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت نے شاید عصر کے وقت روزہ توڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آئی ایم ایف کو بتائے بغیر حکومت نے موٹر سائیکل اور چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے والے صارفین کو رعایتی نرخوں پر پٹرول فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جس پر چھ ہفتوں میں عملدرآمد کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اس رعایتی پروگرام میں امیروں سے زیادہ پیسے لے کر ''غریبوں‘‘ کو رعایتی قیمت پر پٹرول دیا جائے گا۔
حکومت کا جائزہ کہتا ہے کہ موٹر سائیکل سوار اور چھوٹی گاڑیوں کے مالکان پٹرول کی مجموعی کھپت کا تقریباً نصف استعمال کرتے ہیں اور اس پروگرام کے تحت پچاس فیصد صارفین سے زیادہ پیسے وصول کیے جائیں گے اور باقی پچاس فیصد کو رعایتی قیمت پر پٹرول دے دیا جائے گا۔ اب تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں‘ ان کے مطابق اس پالیسی کو تین مرحلوں میں نافذ کیا جائے گا جس میں پہلے مرحلے میں پیسے اکٹھے کیے جائیں گے جس کے لیے پٹرول کی قیمت بڑھائی جائے گی اور ایک بینک اکائونٹ میں اضافی پیسے ڈال دیے جائیں گے، اور اسی اکاؤنٹ سے غریب لوگوں کو سستے نرخوں پر پٹرول فراہم کرنے کے لیے پیسے فراہم کیے جائیں گے۔ دوسرا مرحلہ ہو گا موٹر سائیکل، رکشوں اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کا‘ جس کے لیے صارف کا نام، شناختی کارڈ نمبر، وہیکل رجسٹریشن نمبر اور فون نمبر درکار ہو گا۔رجسٹرڈ ہونے کے بعد فون پر ایک مسیج بھیجا جائے گا۔ صارف ایک مخصوص نمبر پر میسج بھیجیں گے تو ان کو ایک او ٹی پی (ون ٹائم پاسورڈ) کوڈ موصول ہو گا جسے پٹرول پمپ پر سکین کرنے کا طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے جہاں شناختی کارڈ اور او ٹی پی دیا جائے گا اور اسی کے ذریعے پتا چل جائے گا کہ یہ شخص کتنا فیول رعایتی نرخ پر ڈلوا سکتا ہے اور اب تک کتنا ڈلوا چکا ہے۔ موٹر سائیکل سواروں کو ماہانہ 21 لٹر تک پٹرول دیا جا سکتا ہے مگر ایک دن میں دو سے تین لٹر سے زیادہ فیول نہیں دیا جائے گا۔ حکومتی جائزے کے مطابق‘ موٹر سائیکل سوار اوسطاً ماہانہ 21 لٹر تک پٹرول استعمال کرتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر یہ مقدار طے کی گئی ہے۔ چھوٹی گاڑیوں کو 30 لٹر تک پٹرول سستے داموں ملے گا جبکہ ایک دن میں پانچ سے سات لٹر پٹرول ملے گا۔ حکومت کا یہ بھی اندازہ ہے کہ اس طرح لوگ پٹرول کم استعمال کریں گے اور چھوٹی گاڑیوں کی جانب منتقل ہونے کی کوشش کریں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایسی کسی سکیم پر عمل درآمد کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے کوئی مصدقہ ڈیٹا نہ ہونے کے باعث اس سبسڈی کو مستحق افراد تک پہنچانے کے لیے کوئی مناسب طریقہ کار اپنانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔یہ خیال بہت اچھا ہے کہ حکومتی خزانے پر کوئی بوجھ ڈالے بغیر امیر طبقات سے زیادہ قیمت وصول کرکے کم آمدنی والے طبقات کو رعایت دی جائے۔ یہ منصوبہ کوئی نیا نہیں بلکہ بھارت کی کچھ ریاستوں میں اور انڈونیشیا میں اس طرح کے منصوبے کامیابی سے چلائے جا رہے ہیں۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اس حوالے سے ضروری ڈیٹا میسر نہیں ہے۔ بہت سے موٹر سائیکل صارفین اوپن لیٹر پر بائیک چلا رہے ہیں۔ اگر درست اعداد و شمار حاصل کر لیے جائیں تب بھی اس قسم کی سبسڈی کو حقدار تک پہنچایا ایک مشکل امر ہے اور خدشہ ہے کہ اس کا غلط استعمال بھی ہوسکتا ہے۔
اگر حکومت کی کوشش ہے کہ درآمدی ایندھن کی طلب کو کم کیا جائے تاکہ درآمدی بل کم ہو تو مارکیٹ ریٹ پر ایندھن کی فروخت جاری رکھ کر بھی یہ مقصد حاصل کیا جا سکتاہے۔ اس حوالے سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ملک میں غریب ترین افراد کا ڈیٹا‘ جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مرتب کیا گیا ہے‘ استعمال میں لاتے ہوئے ان افراد کے بینک اکاؤنٹس میں براہِ راست رقم جمع کرا دی جائے۔ اس خاندان کو یہ فیصلہ خود کرنے دیا جائے کہ آیا وہ اپنے خاندان کے لیے غذائی اشیا کی مقدار کو بہتر بنانا چاہتے ہیں یا وہ ان پیسوں کا ایندھن استعمال کرنا چاہتے ہیں۔اس کے زیادہ بہتر اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ یہاں پر یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ حکومتی سکیم کے تحت کسی بھی صورت میں اس سبسڈی کی رقم، کار مالکان اور زیادہ فیول چارجز ہی سے آرہی ہے، حکومت کی جیب سے نہیں۔ ایسے میں حکومت درحقیقت ایک طبقے سے پیسے لے کر دوسرے کو دے رہی ہے جسے کراس سبسڈی کہا جاتا ہے۔ کراس سبسڈی کبھی بھی اچھا خیال نہیں رہا۔ یہ اچھا سیاسی حربہ تو ہو سکتا ہے لیکن اچھی معاشیات بالکل نہیں۔تحریک انصاف نے اپنے دور میں جب پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دی تھی تو تقریباً ایک سو بیس ارب روپے کا بجٹ مختص کیا تھا۔ اس وقت حکومت نے اس سبسڈی کا متبادل فنڈ بھی قائم کر رکھا تھا ۔موجودہ حکومت بھی امرا پر زیادہ ٹیکس لگا کر اس سبسڈی کا متبادل فنڈ اکٹھا کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے‘ موجودہ معاشی حالات میں‘ جس میں کامیابی مشکل نظر آتی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت انڈسٹری کو کس ریٹ پر پٹرولیم مصنوعات مہیا کرے گی۔ ملک میں مہنگائی کی بڑی وجہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہے جو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے براہِ راست متاثر ہوتی ہیں۔ اگر امیر طبقے کو سو روپے مہنگا اور غریب طبقے کو سو روپے سستا پٹرول ملے گا تو کیا انڈسڑی کو اصل قیمت پر پٹرول ملے گا؟ ایک پٹرول پمپ پر تین طرح کے شہریوں کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تفریق کرنا ایک مشکل عمل ہے۔ خصوصی طور پر پاکستان جیسے ملک میں یہ تفریق آسان نہیں ہے۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ حکومت موٹر سائیکلوں اور چھوٹی گاڑیوں کے لیے کم گریڈ کا پٹرول درآمد کرے جو بڑی گاڑیوں اور انڈسڑی میں استعمال نہ ہو سکے۔ یہ ایک سیدھی تفریق ہے اور اسے مینج کرنا بھی آسان ہے۔ بھارت میں بھی کم کپیسٹی والا پٹرول درآمد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور یورپ میں بھی مختلف کوالٹی کی پٹرولیم مصنوعات دستیاب ہوتی ہیں۔ اس فارمولے سے عوام کی ضرورت بھی پوری ہو سکتی ہے اور آئی ایم ایف کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
آئی ایم ایف پاکستان کو قرض کی اگلی قسط کب دے گا‘ اس بارے کچھ معلوم نہیں۔ حکومت شاید مزید سخت فیصلے نہیں کر پا رہی۔ ادھر سری لنکا آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے سری لنکا کو 33 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط آج (23 مارچ کو) ادا ہونے کی امید ہے۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے سری لنکا کے لیے تقریباً 3 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ کی منظوری دے دی ہے جس کی توثیق سے ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر قرض دہندگان کی جانب سے 3 ارب 75 کروڑ ڈالرز کی اضافی امداد کی توقع ہے۔ سری لنکا کے لیے آئی ایم ایف کا یہ 17واں بیل آؤٹ پیکیج ہے۔2009ء میں دہائیوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد یہ تیسرا پیکیج ہے۔ پاکستان اب تک بائیس پیکیج لے چکا ہے۔ سری لنکا نے معاشی اصلاحات کا فیصلہ کیا ہے‘ اب ہمیں بھی بہتر فیصلہ کر لینا چاہئے۔ میں یہاں یہ ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ یہاں بھی سری لنکا والی غلطی کی جا رہی ہے۔ سری لنکا ڈالرز کرنچ کا شکار تھا لیکن وہ عوام پر بوجھ ڈالنے کے بجائے انہیں سبسڈیاں دے رہا تھا جس کے نتیجے میں وہ ڈیفالٹ ہو گیا۔ آج ہماری حکومت بھی ڈالر بحران ختم کرنے کے بجائے پٹرول پر سبسڈی دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے جو ملک اور معیشت سکے وسیع تر مفاد میں نہیں ہے۔