سیاسی بحران کسی بھی ملک کی معاشی چولیں ہلانے کا سبب بن سکتا ہے لیکن عدالتی بحران کے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں‘ اس بارے میں زیادہ آگاہی نہیں پائی جاتی۔ مصر کو چند سال قبل تک عدالتی بحران کا سامنا تھا۔ وہاں ججوں کی تعیناتی ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئی۔ بظاہر یہ کوئی بڑی بات نہیں لگتی لیکن اس بحران نے مصر کی معاشی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ اسی طرح ارجنٹائن کے صدر اور سپریم کورٹ کے درمیان اختلافات سامنے آئے۔ ارجنٹائن کی سپریم کورٹ نے حکومتی فنڈز سے متعلق سیاسی فیصلہ دیا جسے صدر نے ماننے سے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی وجہ سے بہت سے درست فیصلے بروقت نہیں ہو سکے اور فروری 2023ء میں ارجنٹائن میں مہنگائی سو فیصد بڑھ گئی۔ 2021ء میں زمبابوے کو بھی عدالتی بحران کا سامنا رہا۔ وہاں مسئلہ چیف جسٹس کی ایکسٹینشن کا تھا‘ جس کے باعث زمبابوے بھی شدید مالی بحران کا شکار رہااور وہاں حالات آج بھی اچھے نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مالی بحران کی وجہ صرف عدالتی بحران ہے‘ معیشت کی خرابی میں جہاں دیگر کئی عوامل شامل ہوتے ہیں‘ عدالتی بحران ان میں سے ایک ہے۔ وطنِ عزیز بھی اس وقت اس سے ملتی جلتی صورتحال سے دوچار ہے۔ یہاں ماضی میں بھی عدالتی فیصلوں سے اختلاف ہوتا رہا ہے لیکن ان فیصلوں کو پارلیمنٹ کی جانب سے اسمبلی فلور پر مسترد کرنے کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ یہ صورتحال آنیوالے دنوں میں معیشت پر کیا اثرات ڈالے گی‘ اس بارے میں کوئی دعویٰ کرنا مناسب نہیں لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر یہ معاملہ طوالت اختیار کر گیا تو ملک بیک وقت کئی بحرانوں کا شکار ہو جائے گا۔ آئیے اب معاشی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔
سعودی عرب کے بعد متحدہ عرب امارات نے بھی آئی ایم ایف کو ایک ارب ڈالر کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ چین سے بھی تقریباً تین سو ملین ڈالرز وصول ہو گئے ہیں۔ امید ہے کہ اگلے ہفتے تک یہ ڈالرز پاکستان کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جائیں گے۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کو چھ ارب ڈالرز میں سے تقریباً تین ارب ڈالرز اکاؤنٹس میں وصول کرنے ہیں‘ اس کے بعد سٹاف لیول معاہدہ ہو سکے گا۔ وزیر خزانہ نے ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے بھی گزارش کی ہے کہ وہ بجٹ سپورٹ پروگرام کی مد میں نو سو ملین ڈالرز پاکستان کو جاری کرے۔ ان اداروں نے شرائط عائد کی تھیں کہ جب تک آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد نہیں ہوگا‘ بجٹ سپورٹ فنڈ کی مد میں پاکستان کو قرض نہیں دیا جائے گا لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب قرض ملنے کے بعد کیا ہوگا؟ کیا پاکستان معاشی گرداب میں سے نکل جائے گا یا کم از کم کوئی ایسا راستہ مل جائے گا جس سے پاکستان کی معاشی سمت درست ہونے کا یقین ہو جائے؟ میرے مطابق ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کی قسط ملنے کے بعد بھی پاکستان ڈالر کرنچ کا شکار رہے گا اور جون کے بعد نئے آئی ایم ایف پروگرام میں جانا پاکستان کے لیے ضروری ہے۔ آئی ایم ایف چیف نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کو مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف آنیوالے دنوں میں مزید کیا شرائط رکھ سکتا ہے‘ اس بارے میں کچھ بھی مکمل یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ فی الحال حکومت کی جانب سے تقریباً 350اشیا پر لگائی گئی ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔ ہوم اپلائنسز‘ موبائل فونز‘ گاڑیوں‘ گوشت‘ سبزیاں‘ جوتے‘ فرنیچر‘ آئس کریم اور جانوروں کی خوراک پر ٹیکس ختم کیا گیا ہے۔ پھلوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی 74فیصد سے کم کرکے 25 فیصد‘ میوہ جات اور چاکلیٹس پر 49فیصد سے کم کرکے 30فیصد‘ پالتوں جانوروں کی خوراک پر 49فیصد سے کم کر کے25فیصد اور گوشت پر 5فیصد کر دی گئی ہے۔ اسی طرح 100ڈالر تک کے موبائل فون کی قیمت میں تین ہزار‘ 200ڈالر تک 7500اور 350ڈالرز تک کے فون پر 11ہزار روپے کمی آ سکے گی۔ پانچ سو ڈالرز سے زائد مالیت کے فون پر ریگولیٹری ڈیوٹی 44 ہزار روپے سے کم کرکے 22 ہزار روپے کردی گئی ہے۔ اور 18سو سی سی تک کی گاڑیوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی 100فیصد کم کر دی گئی ہے۔ مئی 2019ء میں حکومت نے 33قسم کی اشیا جو کہ 789ٹیرف لائنز کو کور کرتی تھیں‘ کی درآمد پر پابندی عائد کی تھی۔ بعدازاں پابندی ہٹائی گئی‘ 100فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی اور 35فیصد ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی لگا دی گئی۔ اس حوالے سے ایس آر او 1571‘ 1572جاری کیے گئے تھے لیکن 31مارچ کو دونوں ایس آر اوز ختم ہو چکے ہیں۔ ایف بی آر نے ایک خط کے ذریعے ٹیرف پالیسی بورڈ کو ان ایس آر اوز کی مدت جون 2023ء تک بڑھانے کی سفارش کی تھی لیکن کامرس منسٹر سید نوید قمر نے اس کی مدت بڑھانے سے اتفاق نہیں کیا۔ اس طرح یہ دونوں ایس آر اوز یکم اپریل 2023ء سے خود بخود غیر موثر ہو گئے ہیں۔ حکومت نے اضافی ٹیکس لگا کر پچھلے آٹھ ماہ میں صرف چالیس کروڑ ڈالرز کی درآمدات کم کی ہیں جو کہ پچھلے مالی سال کے انہی آٹھ ماہ کی درآمدات کے صرف 5فیصد کے برابر ہے۔ اضافی ٹیکس لگانے سے فائدے کے بجائے نقصان ہوا ہے۔ حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ ریگولیٹری ڈیوٹی ختم ہونے سے یہ اشیا سستی ہو جائیں گی اور ملک میں مہنگائی کی شدت میں کمی آئے گی لیکن میرے مطابق ریگولیٹری ڈیوٹی ختم ہونے سے مہنگائی میں کمی نہیں آئے گی کیونکہ روپے کی قدر بہت گر چکی ہے۔ اس کے علاوہ معاملے کو دیگر پہلوؤں سے بھی دیکھنا ہوگا۔ کیا پتہ آج فیصلہ ہوا اور کل یہ فیصلہ واپس لے لیا جائے۔ عمومی طور پر ایسا دیکھا گیا ہے کہ ایک طرف سے ریلیف ملتا ہے تو دوسری طرف مار پڑ جاتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں اگر ایل سیز نہیں کھلیں گی تو ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کا نہ تو بزنس کمیونٹی کو فائدہ ہوگا اور نہ ہی عوام اس سے مستفید ہو سکیں گے۔ ایل سیز کھولنے کا طریقہ کار اتنا لمبا اور پیچیدہ کر دیا گیا ہے کہ کاروباری طبقہ بھی ایران افغانستان بارڈر سے سمگل اشیا خریدنے پر مجبور ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیا امپورٹ کرنا ہے اور کیا نہیں‘ اس کا فیصلہ بھی بیوروکریسی کرتی ہے جبکہ یہ فیصلہ بزنس کمیونٹی کا ہونا چاہیے۔ پھر ہی حقیقی مارکیٹ ریٹ سامنے آ سکے گا۔ ڈیوٹی کم کرنے سے مہنگائی کم ہونا مشکل ہے۔ مہنگائی کم کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے اور شاید حکومت ابھی تک اس کی پہلی سیڑھی پر بھی نہیں چڑھی ہے۔
ریگو لیٹری ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد بھی لوکل گاڑی‘ امپورٹڈ گاڑی کی نسبت سستی رہنے کا امکان ہے۔ ممکن ہے کچھ امپورٹرز کا فائدہ ہو جائے لیکن عوام کو اس کے اثرات منتقل نہیں ہو سکیں گے۔ یہ ایک کاغذی کارروائی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ذہن نشین رہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ خوشی سے یا عوام کی بھلائی کے لیے نہیں کیا ہے بلکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دباؤ میں کیا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی آٹو موبیل کمپنیاں ایل سیز نہیں کھول پا رہی ہیں تو چھوٹا امپورٹر کیسے ایل سی کھولے گا؟ کچھ آٹو کمپنیوں کے پلانٹس ایک ماہ کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ ایل سی کھلے گی تو ڈالر ریٹ اوپر جائے گا اور گاڑیاں مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ گاڑیوں کی قیمتیں اسی وقت کم ہوں گی جب ڈالر ایک جگہ فکس ہوگا۔ ہاں‘ ریگو لیٹری ڈیوٹی کم ہونے سے موبائل فون سستے ہو سکتے ہیں۔ اس وقت مارکیٹ میں بڑے امپورٹرز ہی موبائل امپورٹ کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ عوام کو مکمل فائدہ منتقل کرتے ہیں یا نہیں۔ عوام تک فائدہ منتقل ہونے میں ابھی کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ عمومی طور پر ریگولیٹری ڈیوٹی اشیائے تعیش پر لگتی ہے‘ عام استعمال کی اشیا پر نہیں۔ عام آدمی کے لیے بنیادی مہنگائی پر کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ آئی ایم ایف مہنگائی میں مزید اضافے کی پیش گوئی کر رہا ہے۔ ڈالر ریٹ بڑھ رہا ہے‘ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ رہا ہے‘ پالیسی ریٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ ایسی صورت میں مہنگائی کم ہونے کی امید کرنا خوابوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہے۔