پاکستان میں اس وقت سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے۔ پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے تین دور ہو چکے ہیں اور ابتدائی نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ابھی تک کے نتائج کے مطابق پی ڈی ایم پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کا اپنا مطالبہ منوانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ ایسا نہیں کہ تحریک انصاف نے اپنی مرضی سے اس مطالبے کو تسلیم کیا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ تحریک انصاف کے لیے جب تمام راستے بند ہو گئے تو مجبوراً اُسے ایک ہی دن انتخابات کے فیصلے پر صبر شکر کرنا پڑا‘ تو زیادہ مناسب ہو گا ۔ چیئرمین تحریک انصاف اب یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ جو لوگ مشورہ دے رہے تھے کہ صوبائی حکومتیں نہ توڑیں‘ وہ شاید درست کہہ رہے تھے اور جولوگ ہر وقت حکومتیں گرانے پر زور دیتے رہے‘ وہ شاید غلط تھے اور کسی اور کے ایجنڈے پر کام کر رہے تھے۔ آج مجھے چودھری پرویز الٰہی کا وہ بیان یاد آ گیا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ کچھ لوگ اگر پہلے گرفتار ہو جاتے تو پنجاب حکومت چلتی رہتی، بلکہ ایک نجی محفل میں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ''جب میں عمران خان کو سمجھاتا تھا کہ حکومت گرانا پارٹی اور آپ کے لیے درست نہیں ہے تو پنجاب سے تعلق رکھنے والے مشیران عمران خان کے کان بھرتے تھے اور مجھے طعنے دیتے تھے کہ آپ کرسی چھوڑنا نہیں چاہتے‘‘۔
حالات کے پیش نظر زمینی حقائق یہی ہیں کہ نہ ہی نوے دن میں الیکشن ہوئے اور نہ ہی حکومت دبائو میں آ سکی۔ اب تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ اگست میں الیکشن کرائے جائیں۔ یہ مطالبہ بھی مجھے پورا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ جب سے عمران خان وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے گئے ہیں، ان کا ایک بھی مطالبہ ایسا نہیں ہے جو پی ڈی ایم نے مانا ہو۔ عمران خان نے الیکشن کرانے سے لے کر اگلی حکومت کے قیام تک جنرل باجوہ کو توسیع دینے کا مطالبہ کیا، جسے تسلیم نہیں کیا گیا۔ ان مطالبات کو منوانے کے لیے کیا کیا نہ کیا گیا؟ لانگ مارچ بھی کیا گیا لیکن حکومت نے مطالبات نہیں مانے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کرانے کے لیے صوبائی اسمبلیاں تک تحلیل کر دی گئیں لیکن پی ڈی ایم نے تحریک انصاف کے مطالبات نہیں مانے۔ حکومت نے وہی کیا جو وہ بہتر سمجھتی تھی۔ اب پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ 8 اکتوبر کے بجائے اگست میں پورے ملک میں الیکشن کرائے جائیں۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگست اور اکتوبر میں کیا فرق ہے؟ 9 ستمبر کو صدرِ مملکت کے عہدے کی میعاد ختم ہورہی ہے اور چیف جسٹس صاحب بھی ستمبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ تحریک اانصاف ان دونوں کی موجودگی میں ہی نئے الیکشن کرانا چاہتی ہے۔ لیکن حکومت کسی بھی صورت اگست میں الیکشن کرانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو ان کوششوں میں مصروف دکھائی دیتی ہے کہ الیکشن اکتوبر میں بھی نہ ہوں۔ تحریک انصاف کے لیے یہ بہترین وقت ہے کہ وہ صحیح موقع پر چوکا مارے۔ اگر وہ یہ اعلان کر دے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں وہ آٹھ اکتوبر کو پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن کرانے پر راضی ہے تو اس سے عوام میں اس کی پذیرائی بڑھے گی اوراس تاثر کو بھی زائل کرنے میں مدد ملے گی کہ پی ٹی آئی کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا ہے جس کے باعث معیشت متاثر ہو رہی ہے۔ عمران خان کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ جب احتجاج کی سیاست کام نہ کر رہی ہو تو مفاہمت کی سیاست کرنا ہی فائدہ مند ہوتا ہے۔
آئیے! اب ایک نظر معیشت پر ڈالتے ہیں۔ پاکستان کی خطے کے نو ممالک کے لیے برآمدات رواں مالی سال کے ابتدائی نو مہینے کے دوران 28.28 فیصد گر گئیں، جس کی بنیادی وجہ چین کو شپمنٹس میں کمی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف برآمدات میں کمی نہیں ہوئی بلکہ درآمدات بالخصوص چین سے درآمدات میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔حکومت کے کفایت شعاری اقدامات کے تحت درآمدی کنٹینرز کو کلیئرنس کا انتظار ہے جبکہ سٹیٹ بینک کی جانب سے صارفین کی اشیا کے لیے لیٹرز آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنے کو ترجیح نہیں دی جا رہی۔ پاکستان کی نو ممالک؛ افغانستان، چین، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھارت، ایران، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ کے لیے برآمدات کم ہو کر 2 ارب 74 کروڑ ڈالر رہ گئی ہیں جو مالی سال 2023ء میں جولائی تا مارچ کے دوران پاکستان کی کل برآمدات (21 ارب 5 کروڑ ڈالر) کا صرف 13.83 فیصد بنتی ہیں۔
پاکستان علاقائی ممالک میں سب سے زیادہ برآمدات چین کو کرتا ہے جبکہ دیگر زیادہ آبادی والے ممالک بھارت اور بنگلہ دیش پیچھے رہ گئے ہیں؛ تاہم پاکستان کی چین کے لیے برآمدات میں رواں مالی سال کے ابتدائی 9 مہینوں کے دوران سالانہ بنیادوں پر منفی نمو دیکھی گئی ہے۔ خطے کے ممالک کے لیے کُل برآمدات کا 55 فیصد چین کو بھیجا جاتا ہے جبکہ باقی برآمدات دیگر 8 ملکوں کو جاتی ہیں۔ رواں مالی سال میں جولائی سے مارچ‘ پاکستان کی چین کیلئے برآمدات 28.31 فیصد کم ہو کر ایک ارب 52 کروڑ ڈالر رہ گئیں، جو گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران 2 ارب 12 کروڑ ڈالر تھیں۔ کووڈ19 کے بعد پہلی بار چین کو برآمدات میں کمی دیکھی گئی ہے؛ تاہم چین سے درآمدات بھی 48.36 فیصد تنزلی کے بعد 7 ارب 74 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئیں؛تاہم پاکستان کی افغانستان کیلئے برآمدات (جولائی تامارچ) 8.42 فیصد اضافے کے بعد 40 کروڑ 7 لاکھ ڈالر ہوگئیں، جو گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران 36 کروڑ 96 لاکھ ڈالر تھیں۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کے لیے امریکہ کے بعد سب سے بڑی برآمدی منڈی افغانستان ہی تھی، واضح رہے کہ اس میں زمینی راستے سے ہونیوالی برآمدات شامل نہیں۔ حکومت نے افغانستان اور ایران سے پیاز اور ٹماٹر کی درآمدات پر ڈیوٹی اور ٹیکسز ختم کر دیے تھے تاکہ مقامی مارکیٹ میں قلت پر قابو پایا جا سکے‘ جس کی وجہ سے ان اشیا کی درآمدات میں گزشتہ چند مہینوں کے دوران بڑا اضافہ دیکھا گیا۔ رواں مالی سال کے ابتدائی 9 مہینے کے دوران پاکستان کی ایران کیلئے باضابطہ برآمدات 27 ہزار ڈالر رہیں جو گزشتہ برس صفر تھیں۔ ایران کے ساتھ زیادہ تر تجارت بلوچستان کے ذریعے غیر رسمی چینلز کے ذریعے ہوتی ہے، حکومت نے تفتان اور گوادر سرحد سے پیاز اور ٹماٹر کی درآمدات کی اجازت دی تھی۔ پاکستان ایران کیساتھ عموماً بارٹر تجارت کرتا ہے۔ پاکستان کی بھارت کو مالی سال 2023ء کے ابتدائی 9 مہینے کے دوران برآمدات 78.83 فیصد کمی کے بعد 2 لاکھ 21 ہزار ڈالر ریکارڈ کی گئیں، جو گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران 10 لاکھ ڈالر تھیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے کھڑی فصلیں تباہ ہونے کے سبب سبزیوں کی مقامی سطح پر قیمتیں زیادہ ہو گئی تھیں، جس کے بعد واہگہ بارڈر کے ذریعے کپاس اور سبزیوں کی درآمدات کی اجازت کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ بنگلہ دیش کو برآمدات 9.24 فیصد گرنے کے بعد 58 کروڑ 82 لاکھ ڈالر کی سطح پر آ گئیں جو گزشتہ برس 64 کروڑ 82 لاکھ ڈالر تھیں۔ سری لنکا کے لیے برآمدات 21.75 فیصد کمی کے بعد 22 کروڑ 28 لاکھ ڈالررہ گئیں جو گزشتہ برس اسی عرصے میں 28 کروڑ 82 لاکھ ڈالر تھیں۔دوسری جانب پاکستان کی نیپال کے لیے برآمدات 53.84 فیصد کم ہو کر 22 لاکھ 50 ہزار ڈالر کی سطح پر آگئیں جو مالی سال 2022ء کے ابتدائی 9 مہینے کے دوران 47 لاکھ 93 ہزار ڈالر تھیں۔
مالدیپ کیلئے برآمدات 21.84 فیصد اضافہ ہونے کے بعد 61 لاکھ 85 ہزار ڈالر پر پہنچ گئیں۔ بھوٹان کے لیے زیر جائزہ مدت میں برآمدات محض 48 ہزار ڈالر ریکارڈ کی گئیں جس میں گزشتہ سال کی نسبت 92 فیصد اضافہ ہوا ہے، جب یہ برآمدات 25 ہزار ڈالر تھیں۔برآمدات کم ہونے کی ایک وجہ تو موسمیاتی تغیر ہے لیکن بڑی وجہ حکومت کی ایکسپورٹ مخالف پالیسیاں ہیں۔ بدقسمتی سے (ن) لیگ کے ادوارِ حکومت میں برآمدکنندگان کے شکوے ہمیشہ بڑھے ہیں اور اس دور میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔