چیئرمین پاکستان تحریک انصاف پر 10مئی کو فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس حوالے سے انہیں اسی تاریخ کو عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔ یہ اہم کیس پاکستانی سیاست میں نیا موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ ماضی میں کئی مرتبہ ایسا بھی ہو چکا ہے کہ دی گئی تاریخ پر فردِ جرم عائد نہیں کی گئی۔ اس کی کئی قانونی اور سیاسی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ توشہ خانہ کیس میں عمران خان پر فردِ جرم عائد ہوتی ہے یانہیں‘ اس بارے میں مکمل یقین سے کوئی دعویٰ کرنا مشکل ہے۔ آنے والے چند دنوں میں صورتحال واضح ہو سکے گی۔ فی الحال وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کا دورہ اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ گزشتہبارہ برس میں کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا بھارت کا یہ پہلا دورۂ ہے۔ پاکستان کی جانب سے یہ مثبت قدم ہے جسے پذیرائی مل رہی ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ پاکستان نے امن اور دوستی کے لیے پہلا قدم آگے بڑھایا ہو بلکہ ماضی میں بھی اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ جنوری 2002ء میں سارک کانفرنس کے گیارہویں اجلاس میں اس وقت کے صدر پاکستان پرویز مشرف نے اپنی تقریر مکمل کرنے کے بعد اعلان کیا کہ ''اب جبکہ میں پوڈیم سے اتر رہا ہوں‘ میں وزیراعظم واجپائی کی طرف مخلص دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔ ہمیں مل کر جنوبی ایشیا میں امن‘ ہم آہنگی اور ترقی کے سفر کو آگے بڑھانا ہوگا‘‘۔ اس کے بعد جو ہوا اس کی کسی کو توقع نہ تھی۔ مشرف خاموش بیٹھے انڈین وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی نشست کی جانب گئے اور ان سے مصافحہ کیا۔ اس دوران ہر طرف تالیوں کی گونج تھی۔ یہ سفارتی سطح پر پاکستان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ جسے کئی برسوں تک ڈسکس کیا جاتا رہا۔ اس کے علاوہ 2014ء میں پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم کے نیپال میں مصافحہ اور گفتگو کرنے کے بھی چرچے رہے۔ یہ ملاقات نیپال سرکار کی کوششوں سے ممکن ہوئی تھی۔ اس کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے حالات کافی حد تک نارمل ہوئے تھے۔ موجودہ صورتحال میں وزیر خارجہ کا ہندوستان کا دورہ بلاوجہ نہیں ہے۔ اس معاملے پر پاکستانی ادارے اور حکومت ایک ہی پیج پر نظر آرہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں بھارت کیساتھ تعلقات نارمل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چند روز قبل بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنرنے کہا ہے کہ ''ہندوستان نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو کبھی نہیں روکا بلکہ یہ پاکستان کی جانب سے بند کی جاتی ہے‘ دونوں ممالک کے درمیان تجارت اب بھی ہے لیکن صلاحیت سے بہت کم ہے۔ ٹرانزٹ ٹریڈ انتہائی اہم ہے۔ وسطی ایشیا ایک بڑی منڈی ہے جس تک بھارت کو رسائی کی ضرورت ہے۔ ہندوستان دنیا کا سب سے اہم اور سب سے بڑا ملک ہے اور بہت جلد دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے والا ہے۔ ہمارے سروس سیکٹر نے بہت ترقی کی ہے۔ اب ہم آٹوموبیل اور الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ بھارت ہمیشہ پاکستان کیساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے کیونکہ ہم جغرافیہ نہیں بدل سکتے۔ دونوں ممالک ہمیشہ پڑوسی رہیں گے۔ ہم معمول کے تعلقات کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں‘‘۔ یہ بیان انتہائی اہم ہے۔ گو کہ بلاول صاحب نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر تعلقات آگے نہیں بڑھ سکتے لیکن میرے مطابق یہ تعلقات کافی حد تک آگے بڑھ چکے ہیں۔ بس دونوں اطراف کی حکومتیں عوام کے سامنے حقائق کھل کر بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ بھارت اس وقت برطانیہ سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ کئی ممالک میں اس کی کرنسی متبادل کرنسی کے طور پر استعمال کی جا سکتی ہے۔ وہاں اشیائے خورونوش کی قیمتیں پاکستان کی نسبت کم ہیں اور کئی ایسی اشیا ہیں جن کی اگر بھارت سے تجارت کھل جائے توپاکستانیوں کو بھی وہ سستے داموں مل سکتی ہیں۔ آج بھی بھارتی مصنوعات براستہ دبئی کئی گنا زیادہ قیمت پر پاکستان پہنچتی ہیں‘ جو کہ افسوسناک ہے۔ چین اور بھارت شدید نظریاتی اور سرحدی اختلافات رکھتے ہیں اور کئی جنگیں بھی لڑ چکے ہیں لیکن آج بھی بھارت تقریباً ایک ملین ٹن سے زیادہ چاول چین کو برآمد کرتا ہے۔ چین ہندوستان کے چاولوں کا سب سے بڑا امپورٹر ہے۔ ہمیں اپنے دوستوں سے سیکھنا چاہیے۔ اگر اختلافات بھی قائم رہیں اور تجارت بھی چلتی رہے تو اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔
پاکستان شماریات بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 4مئی کو ختم ہونیوالے ہفتے میں مشترکہ آمدنی والے گروپ کے لیے حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) کے ذریعے پیمائش کی جانے والی ہفتہ وار افراطِ زر سالانہ بنیادوں پر غیرمعمولی طور پر 48.35فیصد تک پہنچ گئی۔ شماریات بیورو کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ قلیل مدتی افراطِ زر میں ہفتہ وار 1.05فیصد اضافہ ہوا کیونکہ چکن‘ آلو‘ خشک دودھ‘ دالوں‘ انڈے‘ مٹن اور روٹی کی قیمتوں میں بڑا اضافہ دیکھا گیا۔ اس دوران جوتے اور صابن سمیت دیگر اشیائے ضروریہ بھی مہنگی ہو گئیں۔ سال بہ سال ایس پی آئی گزشتہ سال اگست سے مسلسل بڑھ رہا ہے اور زیادہ تر 40فیصد سے اوپر رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان میں مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے اور دوسری طرف آئی ایم ایف نے شرحِ سود مزید بڑھانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی کم کرنے کے لیے شرحِ سود مزید بڑھائی جائے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شرحِ سود بڑھانے سے ملک میں مہنگائی مزید بڑھے گی۔ شرحِ سود بڑھا کر مہنگائی کم کرنے کا فارمولا ترقی یافتہ ممالک کے لیے ہے نہ کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے۔ شرحِ سود بڑھانے سے حکومت پر قرضوں کا بھی اضافی بوجھ پڑے گا۔ کاروبار مزید سست ہو جائے گا۔ جو کمپنیاں بینکوں کے قرض پر چل رہی ہیں‘ وہ اشیا کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر دیں گی اور عام آدمی کی قوتِ خرید مزید کم ہو جائے گی۔ عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ ملک بچانے کا پروگرام ہے یا ملک کو مزید مسائل میں دھکیلنے کا منصوبہ ہے۔
اگلا مرحلہ بجٹ کا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاکستان مشن کے سربراہ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف اپنے بیل آؤٹ پیکیج کے حصے کے طور پر آئندہ مالی سال کے بجٹ منصوبوں کے حوالے سے پاکستان سے بات چیت کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ایک عرصے سے تاخیر کا شکار 1ارب دس کروڑ ڈالر کی فنڈنگ کے اجرا کے لیے سٹاف کی سطح کے معاہدے کی منظوری سے قبل مالیاتی خسارے جیسے بجٹ کے اہم اہداف پر مذاکرات آخری رکاوٹوں میں سے ایک ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام دوست بجٹ پیش کرے گی لیکن ایسا کیسے ممکن ہو سکے گا۔ صرف وہی قومیں عوام دوست بجٹ کی حقدار ہیں جن کے پاس وسائل ہیں اور وہ ان کا بھرپور استعمال کرنا بھی جانتی ہیں۔ میرے مطابق اوّل تو سرکار عوام دوست بجٹ پیش نہیں کر سکتی۔ اگر اپنی مرضی سے عوام کو ریلیف دے بھی دیا گیا تو مالی اہداف حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ وہ بجٹ عارضی ہوگا اور اس میں فوراً تبدیلیاں کرنا ناگزیر ہو جائے گا۔
پاکستانی عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ جس طرح ماضی میں بحرانوں سے نکلے ہیں‘ اب بھی نکل جائیں گے لیکن معیشت کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے جانتے ہیں کہ اب بخار بھی 106ہے اور کوئی دوا بھی اثر نہیں کر رہی۔ عوام جس کرشمے کی منتظر ہے وہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ مبینہ طور پر پاکستان کو تین کے بجائے آٹھ ارب ڈالرز کی گارنٹی کا اہتمام بھی کرنا ہے۔ گردشی قرضوں کا حجم کم کرنا ہے اور سبسڈیوں کا خاتمہ بھی کرنا ہے جبکہ دوسری طرف وزراتِ توانائی نے اگلے مالی سال کے لیے ڈیڑھ ٹریلین روپے کی سبسڈی مانگ لی ہے۔ آج کل اکثر لوگ مجھے یہ کہتے ہیں کہ کبھی یہ بھی لکھا کریں کہ پاکستان ترقی کر رہا ہے یا پھر مستقبل میں ترقی کرے گا۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ پچھلے ایک سال سے میں نے معیشت بارے جو لکھا ہے‘ وہی ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ میرے کہنے سے ہوا ہے بلکہ معیشت کے اعداد وشمار ہی ایسے ہیں کہ کوئی بھی معاشی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص یہ بتا سکتا ہے کہ اگلے ایک سال میں پاکستانی معیشت کہاں کھڑی ہو گی۔