سیاست‘ فری لانسنگ اور ڈالر کے معاشی اثرات

عمران خان کی سپریم کورٹ اور پھر ہائیکورٹ سے رہائی دیکھنے کے بعد اس دعوے پر یقین مزید پختہ ہو گیا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ نیب کے پہلے ریمانڈ کے دوسرے دن ہی سپریم کورٹ سے ضمانت ملنے کی شاید یہ پہلی مثال ہے۔ خان صاحب کی ضمانت صرف پاکستان کے باسیوں کے لیے ہی حیرت کا باعث نہیں تھی بلکہ انٹرنیشنل میڈیا بھی خان صاحب سے پوچھتا رہا کہ آپ کو یہ ضمانت کیوں دی گئی ہے؟ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عام آدمی کو بھی ملنے والے انصاف کی رفتار اتنی تیز ہو سکتی ہے؟ شاید یہ ایک خواب ہی رہے۔ عام آدمی کو شاید یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر ایسا انصاف چاہیے تو پہلے عمران خان بنو۔ عام آدمی سمجھدار ہے اور جانتا ہے کہ ملک میں اپنی بات منوانے کے لیے کیا طریقہ کار سب سے موثر ہے۔ دورانِ سماعت جب اطہر من اللہ صاحب نے خان صاحب سے ملک میں ہونیوالے ہنگامہ آرائی کے واقعات پر بات کی تو چیف جسٹس صاحب کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ فی الحال ہمارے سامنے نہیں۔ تکنیکی طور پر شاید وہ درست تھے لیکن عوام یہ سوچنے لگے ہیں کہ ملک میں اتنا جلاؤ گھیراؤ ہوا لیکن کسی نے اس پر کوئی نوٹس کیوں نہیں لیا۔ ان ہنگاموں میں پاکستانی اثاثوں کو پہنچنے والے نقصان کی کیا قیمت ہے‘ اس بارے کسی کو علم نہیں۔ فی الحال ملک میں تین روز کی انٹرنیٹ بندش سے جو نقصان ہوا ہے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
فری لانسنگ کے حوالے سے پاکستان دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ فری لانسنگ کی مارکیٹ میں سب سے بڑا نقصان بری شہرت کو سمجھا جاتا ہے۔ اگر ایک مرتبہ انٹرنیشنل کلائنٹ کو یہ احساس ہو جائے کہ جس ملک کے ساتھ وہ کام کر رہا ہے‘ وہ مجھے وقت پر ڈیلیوری نہیں دے سکتا تو کلائنٹ فوراً کسی اور ملک سے کام کروا لیتا ہے اور کئی سالوں کی محنت سے بنائے گئے اکاؤنٹ کی ریٹنگ گر جاتی ہے۔ انٹر نیٹ کی بندش سے فری لانسرز کے آرڈر بروقت پورے نہ ہونے کی صورت میں پاکستانی فری لانسرزکی ساکھ پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جبکہ بروقت ڈیلیوری کے ذریعے کمائی جانے والے ڈالرز سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ یہ سمجھیں کہ جیسے چلتی گاڑی رک گئی ہو۔ ایک اندازے کے مطابق ان تین روز میں ملک میں آن لائن فوڈ ڈیلیوری کے کام سے منسلک ایک لاکھ تیس ہزار افراد‘ 12ہزار ہوم شیف‘ 30ہزار آن لائن ٹیکسی ڈرائیور اور فری لانسنگ سے منسلک تقریباً پانچ لاکھ افراد بیروزگار رہے۔ انٹرنیٹ بندش سے پاکستان کو ہر روز تقریباً 50 سے 60 لاکھ ڈالرز کا نقصان ہوا۔ ملکی سکیورٹی اہم ہے لیکن انٹرنیٹ آئی ٹی انڈسٹری کی لائف لائن ہے۔ اگر مستقبل میں کبھی انٹرنیٹ بند کرنے کی ضرورت پڑے تو آئی ٹی انڈسٹری کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جانا چاہیے۔ انٹرنیٹ بند کرنے کے حکومتی فیصلے سے پاکستان کا برینڈ امیج خراب ہوا ہے۔ پچھلے تین برسوں میں آئی ٹی سیکٹر کی گروتھ 42 فیصد تھی۔ اس سال مارچ میں یہ گروتھ صرف 0.8 فیصد رہ گئی ہے۔ اس سال آئی ٹی کی برآمدات کا ہدف 3.2ارب ڈالر تھا‘ جو تاحال پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ حکومت جانتی ہے کہ یہی سیکٹر پاکستان کی برآمدات بڑھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ کا نہ ہونا بنیادی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 18اور 19میں معلومات تک رسائی‘ رائے کی آزادی اور نقل و حرکت کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ بندش کے دوران تقریباً 12کروڑ لوگ موبائل انٹرنیٹ سے محروم رہے۔ آج کے دور میں جس طرح کھانا پینا ضروری ہے‘ اسی طرح انٹرنیٹ بھی بنیادی انسانی ضرورت بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ بندش سے ٹیلی کام سیکٹر اور سرکار کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹیلی کام کمپنیوں کو ایک دن میں 82کروڑ روپے جبکہ حکومت کو ٹیکس آمدن کی مد میں تقریباً 28 کروڑ 70لاکھ کا نقصان ہوا ہے۔ انٹرنیٹ بند کرنے کی حکومتی حکمت عملی ناکام رہی۔ انٹرنیٹ بند کرنے کا مقصد ملک میں ہنگامہ آرائی کو روکنا تھا۔ وہ مقصد بھی حاصل نہیں ہو سکا۔ ایک طرف ملکی املاک کو اربوں روپوں کا نقصان پہنچااور دوسری طرف آئی ٹی برآمدات اور آن لائن کاروبار کرنے والوں کے کاروبار بری طرح متاثر ہوئے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ دوبارہ اس طرح کے اقدامات سے پرہیز کرے تا کہ بے یقینی کی کیفیت کم ہو اور ملک مزید معاشی نقصان سے بچ سکے۔
آئیے اب ایک نظر ڈالر کے اتار چڑھاؤ پر ڈالتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو پچھلے ایک سال سے شدید مالی بحران کا شکار ہے اور مستقبل قریب میں یہ بحران کم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ڈالر پاکستانی سیاست کی طرح غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ کبھی 15روپے بڑھ جاتا ہے اور کبھی 14روپے گر جاتا ہے۔ میرے مطابق دو دن مسلسل ڈالر ریٹ بڑھنا اور ایک ہی دن میں تقریباً 14 روپے نیچے آجانا بلاوجہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے معاشی ادارے ہیں۔ انہوں نے ممکنہ طور پر ایک مرتبہ پھر سیاسی حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے جیسا کہ وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ امپورٹ بند ہونے کی وجہ سے انٹر بینک میں ڈالر کی ڈیمانڈ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی قرض کی ادائیگی بھی نہیں کرنی تھی اور نہ ہی تیل یا کسی اور مد میں کوئی ادائیگی کرنا تھی۔ ذرائع کے مطابق کچھ بینکوں نے تیس چالیس ملین ڈالرز کی مصنوعی ڈیمانڈ پیدا کی جس سے ریٹ بڑھا۔ حکومتی اداروں نے بروقت کارروائی کرکے متعلقہ بینکوں کو وارننگ دی جس کی وجہ سے ریٹ چودہ روپے نیچے آیا۔ حکومتی ایکشن بروقت تھا۔ گیارہ مئی کو انٹربینک مارکیٹ بند ہونے کے بعد رات کو ہی بازار کا ریٹ نیچے گر گیا تھا اور خریدو فروخت دس سے پندرہ روپے مائنس پر ہو رہی تھی۔ یہ بالکل ویسا ہی معاملہ ہے جیسا مفتاح اسماعیل کے دور میں ہوا تھا۔ مفتاح اسماعیل کے دور میں بینکوں نے پہلے ڈالر کی مصنوعی ڈیمانڈ پیدا کرکے ڈالر ریٹ بڑھا کر منافع کمایا۔ پھر ڈالر ریٹ کم کرکے خریداری کی اور دوبارہ پیسہ بنایا۔ اسحاق ڈار صاحب جب وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے اُن بینکوں کو سزا دینے کا اعلان کیا لیکن آج تک ان کا احتساب نہیں ہو سکا۔ اگر بروقت ایکشن لے لیا جاتا تو ڈالر کے ساتھ دوبارہ کھیلنے کی نوبت نہ آتی۔ میرے مطابق ڈالر ریٹ زیادہ دیر تک نیچے نہیں رہ سکے گا۔ یہ ایک مرتبہ تین سو کا ہندسہ عبور کر چکا ہے اور دوبارہ بھی کر سکتا ہے۔ اس وقت گرے مارکیٹ میں ڈالر 310 روپے میں مل رہا ہے کیونکہ حکومت نے درامدکنندگان کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ جو چاہے درآمد کریں لیکن ڈالرز کا بندوبست خود کریں۔ یہ سری لنکا والا ماڈل ہے۔ ڈیفالٹ ہونے سے پہلے انہوں نے بھی درآمد کنندگان کو ڈالر خود ارینج کرنے کا کہہ دیا تھا۔ اس طرح ڈالرز گرے مارکیٹ میں زیادہ ٹریڈ ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ بینکنگ چینلز کے ذریعے پاکستان نہیں آ رہے۔ حکومت نے اگر یہ پالیسی نہ بدلی تو ڈالر جلد ہی 325 روپے کا ہو سکتا ہے۔ جون کا مہینہ اس حوالے سے بہت اہم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں