پاکستان میں سیاسی بازار خاصا گرم ہے۔ تحریک انصاف میں جس طرح سیاسی لوگ شامل ہوئے تھے‘ اب اس سے زیادہ تیز رفتاری سے وہ پارٹی کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف اس موقع پر بھی اپنی لاعلمی کا مظاہرہ کرتے نظر آئے‘ کہتے ہیں ''ہم نے جبری شادیوں کے بارے میں تو سن رکھا تھا مگر تحریک انصاف کے لیے جبری علیحدگیوں کا ایک نیا عجوبہ متعارف کرایا گیا ہے۔ میں تو اس پر بھی حیران ہوں کہ اس ملک سے انسانی حقوق کی تنظیمیں کہاں غائب ہو گئی ہیں‘‘۔خان صاحب تاریخ کے طالب علم ہیں لیکن وہ شاید بھول رہے ہیں کہ تحریک انصاف کو مضبوط پارٹی بنانے کے لیے کس طرح (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی سے لوگوں کی جبری علیحدگی کروا کر انہیں تحریک انصاف میں شامل کیا گیا تھا اور جو شامل نہیں ہو رہے تھے ان پر کرپشن کے کیسز بن جاتے تھے۔ اگر چیئرمین تحریک انصاف اس وقت انسانی حقوق کی تنظیموں کواس پر آواز اٹھانے کے لیے آگے بڑھتے تو آج ان کا یہ گلہ جائز مانا جا سکتا تھا۔ جب لوگ ٹولیوں کی شکل میں تحریک انصاف میں شامل ہو رہے تھے اس وقت خان صاحب اس عمل کو مخالفین کی وکٹیں گرانا کہا کرتے تھے۔ وہ آج دل بڑا کریں اور مان لیں کہ ان کی کمزور حکمتِ عملی، غلط فیصلوں اور حکومت کی دوراندیشی کے سبب ان کی وکٹیں گر رہی ہیں۔ شاید ان کے اس ردعمل کو زیادہ پذیرائی مل سکے۔ یہ کوئی عجوبہ نہیں ہے بلکہ کائنات کا اصول ہے کہ جو بویا ہے وہی کاٹنا پڑتا ہے۔ ہماری ملکی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن چیئرمین تحریک انصاف کمال معصومیت سے اس فیصلے کو عجوبہ قرار دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت حالات کو نارمل کرنے کی ضرورت ہے اور چیئرمین پی ٹی آئی سمیت تمام اعلیٰ قیادت کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔ نو مئی کے قصورواروں پر کیسز چلیں اور انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ اس کے بعد ہی کوئی بہتر حل سامنے آ سکتا ہے۔ آئیے اب ایک نظر معیشت پر ڈالتے ہیں۔
پاکستان میں غیر معمولی افراطِ زر اور بلند شرحِ سود کے پیشِ نظر بینک نجی شعبے کو قرضے دے کر خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں جس کے باعث وہ نہ ختم ہونے والی سیاسی اور اقتصادی بے یقینی کی صورتحال سے دوچار‘ انتہائی ناموافق حالات میں کاروبار چلانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ موجودہ صورتحال میں نجی بینک 22 فیصد کے قریب غیر معمولی منافع حاصل کرنے کے لیے حکومت کو خوشی خوشی قرض دے رہے ہیں۔سٹیٹ بینک کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یکم جولائی 22ء سے 5 مئی تک رواں مالی مالی سال میں پرائیویٹ سیکٹر کے لیے نیٹ بینک ایڈوانس صرف 129.6 ارب روپے رہ گیا جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 1 ہزار 296 ارب روپے تھا۔ تیزی سے ہوتی گراوٹ‘ مسلسل سیاسی بے یقینی اور معاشی پالیسیوں کی ناکامی کا براہ راست نتیجہ ہے، جبکہ ڈیفالٹ کے بڑھتے ہوئے خطرات رواں مالی سال کے آغاز سے ہی سٹیک ہولڈرز کو پریشان کر رہے ہیں۔سٹیٹ بینک کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نجی شعبے کو بینکوں کا قرضہ جولائی تا اپریل میں 84.4 فیصد کم ہو کر صرف 128.7 ارب روپے رہ گیا جو پچھلے سال کی اسی مدت میں 820.4 ارب روپے تھا۔ اسلامک بینکوں کی طرف رواں مالی سال نجی شعبے کو دیا گیا قرض تقریباً نصف ہو کر 98.6 ارب روپے رہ گیا جو گزشتہ برس اسی مدت میں 196.5 ارب روپے تک تھا۔مجموعی بینکنگ انڈسٹری میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے اسلامی بینکاری تیزی سے پھیل رہی ہے لیکن رواں مالی سال نے اس کے مزید بلند ہونے کے امکانات کو کافی حد تک کم کر دیا؛ تاہم روایتی بینکوں کی مسلم بینکنگ شاخوں کی جانب سے قرضہ انتہائی کم رہا جہاں مالی سال 2022ء میں جولائی تا اپریل 279.5 ارب روپے کے خالص قرضے کے مقابلے میں مالی سال 2023ء کے دوران یہ قرض 97.7 ارب روپے رہا۔اقتصادی کمی کے رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے حال ہی میں مالی سال 23ء کے لیے اپنی نمو کی پیش گوئی پر نظر ثانی کرکے اسے صرف 0.8 فیصد کردیا ہے جبکہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے پہلے ہی 0.4 تا 0.6 فیصد تک اقتصادی توسیع کی پیش گوئی کر چکے ہیں۔ سٹیٹ بینک نے حالیہ ششماہی رپورٹ میں کہا ہے کہ جی ڈی پی نمو 2 فیصد کے اندازے سے کم ہو سکتی ہے۔ امکان ہے کہ رواں مالی سال اقتصادی شرح ایک فیصد تک ہو سکتی ہے۔ مرکزی بینک کی رپورٹ کے مطابق آئندہ کچھ ماہ میں بینکوں کی طرف سے نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضوں میں مزید کمی آسکتی ہے کیونکہ غیر ملکی زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر سے درآمدات پر پابندیاں عائد ہیں جو مینوفیکچرنگ صنعتوں کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔حکومت کو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کیونکہ اگر کاروبار نہیں چلیں گے تو معاشی صورتحال مزید سنگین ہوتی جائے گی۔
پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے تنزلی کا شکار ہیں۔ اس مسئلے کا حل شاید چین کے پاس ہے۔ چین سے یوآن میں تجارت پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر کو کافی حد تک قابو میں لا سکتی ہے۔ چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے۔ چین کی کرنسی یوآن غیر محسوس طریقے سے عالمی منڈیوں میں اپنی جگہ بنا رہی ہے اور چین اسے ڈالر کے متبادل کے طور پر متعارف کرانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ انہی کوششوں کی بدولت لاطینی امریکہ کے کئی ملکوں میں یوآن تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔حالیہ ہفتوں میں لاطینی امریکہ کے کئی ملکوں سے اس حوالے سے مثبت اشارے ملے ہیں۔ارجنٹائن حکومت نے گزشتہ ماہ اعلان کیا کہ چین کواس کی برآمدات ڈالر کے بجائے یوآن میں کی جائیں گی تاکہ اس کے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھا جا سکے۔برازیل‘ جہاں یوآن دوسری بڑی زرمبادلہ ریزرو کرنسی بن گئی ہے‘ وہاں بھی حکومت نے دونوں ممالک کی کرنسیوں میں چین کے ساتھ تجارت کرنے اور ڈالر کا سہارا لینے سے بچنے کے معاہدے کا اعلان کیا ہے۔ گو کہ لاطینی امریکہ کی دو بڑی معیشتوں میں ان تبدیلیوں کی نشاندہی بولیویا کے صدر لوئس آرسے نے ایک علاقائی رجحان کے طور پر کی جس میں ان کا ملک بھی شامل ہوسکتا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اسے چین کی جانب سے اپنی کرنسی کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے کی کوششوں میں کامیابی کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ چین اپنی کرنسی کو مختلف مارکیٹوں میں متعارف کرانے کے لیے کئی طریقہ کار استعمال کر رہا ہے۔بیجنگ نے خطے میں ایک اہم تجارتی شراکت دار اور کچھ ممالک کیلئے مالی اعانت کا ذریعہ بننے کے بعد گزشتہ دہائی کے دوران لاطینی امریکہ میں یوآن کی زیادہ سے زیادہ موجودگی یقینی بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ 2015ء میں چینی حکام نے چلی کے ساتھ سرمایہ کاری اور غیر ملکی زرمبادلہ کے تبادلے کے معاہدوں پر دستخط کیے اور لاطینی امریکہ کا پہلا یوآن کلیئرنگ بینک کھولنے کا اعلان کیا۔چند ماہ بعد ارجنٹائن میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔کلیئرنگ بینکوں کا مقصد‘ جنہیں کلیئرنگ ہاؤس بھی کہا جاتا ہے‘ مقامی کرنسی اور یوآن کے مابین بین الاقوامی لین دین کو آسان اور ڈالر سے محفوظ بنانا ہوتا ہے۔ چین نے دوسرے خطوں میں بھی یوآن معاوضے کے معاہدے کیے۔ امسال فروری میں برازیل میں اس کا اعلان کیا گیا جو لاطینی امریکہ میں اس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، دونوں ملکوں کی باہمی تجارت 2022ء میں ریکارڈ 150 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا کے زیر انتظام چلنے والا فنانس ہیوی ویٹ برازیل کے تاجروں کو یوآن میں طے ہونے والے کاروباروں کو ریائس(برازیل کی مقامی کرنسی) میں فوری طور پر تبدیل کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر لاطینی امریکہ کے بڑے ممالک چین سے کرنسی معاہدے کر کے اپنی اپنی معیشت کو مضبوط بنا سکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟ پاکستان اور چین کی دوستی سمندروں سے گہری اور پہاڑوں سے بلند تصور کی جاتی ہے لیکن اس دوستی کا اصل فائدہ اسی وقت ہو گا جب برازیل اور ارجنٹائن کی طرح اس دوستی کو صحیح معنوں میں معاشی فائدے میں تبدیل کیا جائے۔