گردشی قرضوں کا بوجھ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ مہنگی بجلی اور گیس ہے‘ جسے حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے آئے روز مہنگا کرنے پر مجبور ہے۔ایسی صورتحال میں اگر ایران سے سستی گیس پاکستان کو مل جائے تواس کے مثبت اثرات سامنے آسکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف عام آدمی کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے بلکہ صنعت کا پہیہ بھی تیزی سے چل سکتا ہے۔ مبینہ طور پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے یہ منصوبہ تقریباً 13 سالوں سے التوا کا شکار ہے۔ ایران‘ پاکستان گیس پائپ لائن معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کے سبب ایران پاکستان پر 18 ارب ڈالر جرمانہ ادا کرنے کے لیے دبائو ڈال رہا ہے جبکہ پاکستانی حکام نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ ایران‘ پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کی اجازت دے اور اگر اجازت نہیں دینی تو پھر 18 ارب ڈالر کا جرمانہ ایران کو ادا کرے۔ امریکی حکام نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منصوبے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں پاکستان 18 ارب ڈالرز کا جرمانہ کیسے ادا کرے گا۔ اس وقت زرمبادلہ ذخائر تقریباً 4 ارب ڈالر ہیں۔ یہ جرمانہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر سے تقریباً چار گنا سے بھی زیادہ ہے۔ ایران بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کرنے کا بھی عندیہ دے رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں ایک تر ک اور ایک کینیڈین کمپنی نے بھی پاکستان کے خلاف بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کیا تھا اور ان کیسز میں تقریباً گیارہ بلین ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔تاہم اس جرمانے کو ادا کرنے کے بجائے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کیے گئے۔ اس مسئلے کو بھی جلد از جلد حل کرنا ہو گا‘ بصورتِ دیگر حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
پاکستان اور ایران کے مابین تجارتی حجم اس وقت تقریباً دو بلین ڈالر ہے۔ ایران پاکستان کو144 میگا واٹ بجلی برآمد کر رہا ہے۔ ایرانی سفیر کے مطابق ایران پاکستان کو 500 میگا واٹ بجلی فراہم کرنے کاارادہ رکھتا ہے۔ دیگر کئی منصوبے بھی شروع کیے جا چکے ہیں۔ اگر ان حالات میں گیس پائپ لائن منصوبے پر تعطل برقرار رہتا ہے تو دونوں برادر ملکوں کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں جس کا معاشی نقصان پاکستان کو زیادہ ہو گا۔ ایک طرف جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے اور دوسری طرف تجارتی حجم میں بھی واضح کمی آ سکتی ہے جو مہنگائی میں مزید اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر ایران‘ پاکستان گیس پائپ لائن بروقت مکمل ہو جاتی تو قطر سے مہنگی گیس درآمد کرنے کے بجائے ایران سے سستی گیس لی جا سکتی تھی۔ 2013ء سے 2022ء تک اگر قطر سے جہازوں پر گیس درآمد کرنے کے بجائے ایران سے پائپ لائن کے ذریعے گیس درآمد کی جاتی تو سالانہ تقریباً 3.3 بلین ڈالر اور مجموعی طور پر تقریباً 33 ارب ڈالر سے زائد کی بچت کی جا سکتی تھی ۔حکومت اگر اب بھی بہتر لابنگ کرے تو اس گیس پائپ لائن منصوبے سے کافی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری میں مسلسل اضافہ جبکہ ترسیلاتِ زر میں کمی ہو رہی ہے۔ موجودہ مالی سال کے پہلے دس مہینوں میں ترسیلاتِ زر میں پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 13 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ پچھلے مالی سال کے پہلے دس ماہ میں ترسیلاتِ زر 26.1 ارب ڈالرز تھیں جو رواں مالی برس کے اسی دورانیے میں کم ہو کر 22.7 ارب ڈالرز رہ گئی ہیں۔خلیجی ممالک سے آنے والی ترسیلات میں 2.5 ارب ڈالرز کی کمی ہوئی ہے۔ برطانیہ اور یورپی یونین سے پاکستان آنے والی ترسیلاتِ زر میں تقریباً 500 ملین ڈالرز کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بنیادی وجہ روپے کی قدر میں کمی ہے۔ ایک سال قبل برطانیہ سے ایک لاکھ روپے پاکستان بھیجنے کے لیے تقریباً 422 پاؤنڈز بھیجنا پڑتے تھے‘ اب ایک لاکھ روپے بھیجنے کے لیے تقریباً 233 پاؤنڈز درکار ہوتے ہیں۔جب حکومت خود درآمد کنندگان کو یہ اجازت دے کہ وہ ہنڈی؍ حوالے سے ڈالر خرید کر امپورٹس کی ادائیگی کر سکتے ہیں تو بینکنگ چینل سے ترسیلات کیسے آئیں گی؟ اس وقت انٹربینک میں ڈالر تقریباً 287 روپے کا ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں 306 روپے کا۔ گرے مارکیٹ میں یہ 320 روپے کا ہو چکا ہے یعنی انٹر بینک اور گرے مارکیٹ کا فرق تقریباً 33 روپے ہے۔ ایسی صورت میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بینک کے بجائے گرے مارکیٹ میں ڈالرز بھیج رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کا بینکنگ نظام آئی ٹی فری لانسرز اور ایکسپورٹرز کے لیے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ حکومت نے جنوری 2023ء میں ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا کہ آئی ٹی ایکسپورٹرز انٹرنیٹ بینکنگ کے ذریعے ڈالرز پاکستان لا سکیں گے اور اگر بیرونِ ملک کوئی ادائیگی کرنی ہو وہ بھی کر سکیں گے۔ یہ ایک بہترین کاوش تھی۔یہ اجازت دو ماہ یعنی مارچ 2023ء تک کے لیے تھی لیکن سٹیٹ بینک ابھی تک ایسا سافٹ ویئر ہی نہیں بنا سکاجو انٹرنیٹ کے ذریعے پاکستان سے بیرونِ ملک ادائیگی کر سکے۔ اسی وجہ سے اکثر فری لانسرز اور سافٹ ویئر ہائوسز نے بیرونِ ملک دفاتر قائم کر رکھے ہیں اور تمام ادائیگیاں باہر سے ہی کرتے ہیں اور صرف ضرورت کے مطابق ڈالرز پاکستان میں لاتے ہیں۔
اس کے علاوہ پیچیدہ ٹیکس نظام بھی پاکستان میں ڈالر لانے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک ملٹی نیشنل سوفٹ ویئر ایکسپورٹ کمپنی کے مالک بتا رہے تھے کہ ٹیکس حکام نے ان پر سپر ٹیکس لگا کر ان کے اکائونٹ سے کروڑوں روپے نکال لیے حالانکہ سوفٹ ویئر ایکسپورٹرز پر سپر ٹیکس کے قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ حالات کے پیش نظر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اگر حکومت معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کچھ کر رہی ہے تو افسر شاہی اپنی آرام پسندی کے باعث اس میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے‘ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
24 مئی محسنِ پاکستان نواب آف بہاولپور صادق محمد خان عباسی پنجم کا یومِ وفات ہے۔ ریاست بہاولپور کی پاکستان کیلئے عظیم خدمات ہیں۔ امسال نواب صاحب کی برسی کے موقع پر ان کی خدمات کا اعتراف اور انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کا ملکی سطح پر اہتمام کیا گیا۔ گورنر پنجاب بلیغ الرحمن صاحب نے ان کی قبر پر حاضری بھی دی۔ شاید ہماری آج کی نسل کے علم میں نہ ہو کہ نواب صادق محمد خان عباسی پنجم کے عہد میں ریاست بہاولپور ہندوستان کی ایک خوشحال ریاست تھی۔اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت برطانیہ کا پائونڈ اور ریاست بہاولپور کی کرنسی کی قدر برابر تھی۔لوگ خاصے خوشحال تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے نواب آف بہاولپور کی تحریک پاکستان سے محبت اس قدر تھی کہ قیام پاکستان سے ایک سال پہلے ریاست بہاولپور کی طرف سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا جس پر ایک طرف قائداعظم کی تصویر اور پاکستان کا جھنڈا بنا تھا اور دوسری طرف نواب آف بہاولپور کی تصویر اور ریاست بہاولپور کا جھنڈا تھا۔ پاکستان قائم ہوا تو کسی ملک نے بھی پاکستانی کرنسی کے اجرا کی ضمانت نہیں دی۔ زر مبادلہ کے سارے ذخائر ہندوستان کے پاس تھے۔ اس وقت نواب آف بہاولپور نے ہی پاکستان کرنسی کی ضمانت دی۔ ان کی خدمات صرف بہاولپور تک ہی محدود نہیں تھیں بلکہ ریاست بہاولپور کے ریکارڈ کے مطابق نواب آف بہاولپور نے پنجاب یونیورسٹی کا سینٹ بلاک،کنگ ایڈورڈ کالج کی نصف بلڈنگ اور لاہور میں ایچی سن کالج کے بہت سے کمرے ذاتی حیثیت میں لاکھوں روپے خرچ کر کے تعمیر کرائے۔ ریاست بہاولپور کی طرف سے تعلیمی مقاصد کیلئے لاہور کو سالانہ جو گرانٹ جاری ہوتی رہی اس کی تفصیلات کے مطابق کنگ ایڈورڈ کالج کو ڈیڑھ لاکھ،اسلامیہ کالج لاہور کو تیس ہزار،انجمن حمایت اسلام کو پچھتر ہزار،ایچی سن کالج کو دوہزاراور پنجاب یونیورسٹی لاہور کو بارہ ہزار روپے ملتے تھے۔ اس کیساتھ ساتھ لاہور کے مختلف ہسپتالوں اور دوسرے رفاہی اداروں کی بھی ریاست بہاولپور کی طرف سے لاکھوں روپوں میں مدد کی جاتی رہی۔ قیام پاکستان کے بعد خزانہ خالی ہونے کی وجہ سے سرکاری ملازمین کو پہلی تنخواہ بھی نواب آف بہاولپور نے ہی دی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ نوزائیدہ ریاست کو مضبوط بنانے میں بھی ان کا اہم کردار تھا۔اس کے علاوہ بھی ان کی بہت سی خدمات ہیں جنہیں اس کالم میں سمیٹنا مشکل ہے۔