گزشتہ چند سالوں سے مہنگائی ایک عالمی مسئلہ بن کر سامنے آئی ہے۔ کورونا وبا اور اس کے بعد روس‘ یوکرین جنگ نے تقریباً ہر طبقے کے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ نہ صرف بنیادی انسانی ضروریات خواہش کے مطابق پوری کرنا اب ممکن نہیں رہا بلکہ دینی فرائض خصوصاً حج کی ادائیگی بھی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ حج دنیا بھر میں ہونے والے سب سے بڑے مذہبی اجتماعات میں سے ایک ہے اور ہر سال دنیا بھر سے تقریباً 20 سے 25 لاکھ عازمین سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں۔ 2020ء میں پاکستان سے حج کے فریضے کی ادائیگی کے لیے جانے والے افراد سے حکومت نے پانچ لاکھ روپے فی کس کے لگ بھگ رقم لی تھی جو 2022ء میں سات لاکھ دس ہزار روپے تک جا پہنچی اور رواں برس اس مد میں تقریبا 12 لاکھ روپے کے قریب وصول کیے گئے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب نے بھی عالمی مہنگائی کے باعث کچھ فیسیں بڑھائی ہیں لیکن اگر پاکستانی کرنسی کی قدر پچھلے سال کے برابر رہتی تو اس سال کے حج اخراجات میں ایک لاکھ روپے تک ہی اضافہ ہونے کا امکان تھا۔ اسی طرح مصر کے مسلمانوں کے لیے بھی حج ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ وہ بھی پاکستان کی طرح آئی ایم ایف گزیدہ ہیں۔ مصر سے حج کرنے کا خرچ تقریباً چھ ہزار ڈالر ہے‘ جو پچھلے سال تقریباً تین ہزار ڈالر تھا۔ بڑھتی قیمتوں کی ایک وجہ مقامی کرنسی کا اپنی قدر کھو دینا ہے۔ مارچ 2022ء سے اب تک مصری پاؤنڈ ڈالر کے مقابلے میں اپنی نصف کے قریب قدر کھو چکا ہے۔
اگرچہ حج ایسی عبادت ہے جو محض صاحبِ استطاعت پر ہی فرض ہے؛ یعنی یہ ہر اس شخص پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو‘ جو شخص مکہ تک پہنچنے اور واپسی کے سفری اخراجات، رہائش اور خوراک وغیرہ کا بندوبست کرنے کے قابل ہو۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں عوام کی اکثریت عالمی کساد بازاری کے باعث حج کے لیے صاحبِ استطاعت نہیں رہی ہے۔ پاکستان میں یہ مسئلہ 2019ء میں اس وقت شروع ہوا جب تحریک انصاف کے حکومت سنبھالنے کے بعد ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہوا تھا اور حج کا خرچ تقریبا دو گنا تک بڑھ گیا تھا۔ اس وقت ملائیشیا کے ''تابونگ حاجی‘‘ منصوبے کے ماڈل کو پیشِ نظر رکھ کر 'حج فنڈ‘ کے نام سے سستے حج کے لیے ایک منصوبہ تشکیل دیا گیا تھا اور متعلقہ وزارتوں نے اس حوالے سے قانون سازی بھی شروع کر دی تھی۔ وزارتِ مذہبی امور نے حج فنڈ کے تحت حلال سرمایہ کاری کا ڈرافت تیار کرنے کا کام شروع کیا تھا جبکہ فنانس ڈویژن نے ایک سٹیئرنگ کمیٹی قائم کی تھی۔ واضح رہے کہ ملائیشین حکومت کی دلچسپی اور تابونگ حاجی منصوبے کو عین اسلامی قوانین کے مطابق چلانے کے باعث 1281 کھاتہ داروں اور 46610 رنگٹ (ملائیشین کرنسی) سے شروع ہونے والے پروجیکٹ میں اب تک 90 لاکھ سے زیادہ اکائونٹ کھل چکے ہیں جن میں 73 ارب رنگٹ سے زیادہ رقم جمع ہے۔ تابونگ حاجی کی آمدنی ایکویٹی منافع، عمارتوں کے کرائے، کنسٹرکشن،فارن ایکسچینج ریٹ منافع، 'شیئرز کی فروخت اورسکیورٹی‘ مارکیٹ سے حاصل شدہ منافع اور بونس کی صورت میں ہوتی ہے۔ کھاتہ داروں کو منافع زکوٰۃ کی کٹوتی کے بعد ادا کیا جاتا ہے۔ تابونگ حاجی بینک اسلامی ملائیشیا کی مذہبی کونسل اور نیشنل فتویٰ کمیٹی کی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے معاشی ماہرین، کامیاب کاروباری حضرات اور بیوروکریٹس پر مشتمل فنانس اسلامی کونسل تشکیل دی گئی ہے۔ حلال آمدنی کو یقینی بنانے کے لیے کسی بھی ایسے کاروبار‘ جیسا کہ کنونشنل بینکنگ، کنونشنل انشورنس اور ہوٹلوں میں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی۔ اس قانون سے متاثر ہوکر دنیا کے دیگر مسلم ممالک نے بھی اسے اپنا لیا ہے جن میں انڈونیشیا اور مالدیپ سرِفہرست ہیں۔
اس منصوبے کے مطابق حج کی خواہش رکھنے والے افراد کے بینک اکائونٹس کھولے جاتے ہیں‘ جہاں اکائونٹ ہولڈرز نے اپنی استطاعت کے مطابق رقم جمع کراتے ہیں۔ اکائونٹ ہولڈر بننے کے بعد ایک اکائونٹ نمبر الاٹ کیا جاتا ہے تاکہ کھاتہ دار جب چاہے اپنی اسٹیٹمنٹ نکلوا سکے‘ البتہ حج کی ادائیگی سے قبل رقم نکلوانے پر پابندی ہوتی ہے۔ کھاتہ داروں کی رقم سے سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور اس کے لیے مشارکہ، مضاربہ، مرابحہ، تکافل، صکوک، اجارہ اور بیع المعجل جیسے بہترین اسلامی سرمایہ کاری کے قوانین استعمال کیے جاتے ہیں۔ شرعی بورڈ کی منظوری کے بعد اس فنڈ کی رقم سے دنیا بھر کے حلال کاروباروں میں حلال طریقے سے سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور نفع و نقصان کو بھی انہی قوانین کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس سرمایہ کاری سے کمائے گئے منافع اور سرمائے کی رقم سے کھاتہ داروں کے حج اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں۔ موجودہ حالات میں تابونگ حاجی منصوبہ ہمارے ہاں بھی آسانی کی ایک صورت پیدا کر سکتا ہے۔ اس میں حج کی ادائیگی کے لیے لوگوں کا انتخاب ''پہلے آؤ پہلے پائو‘‘کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے اور رقم ایک مخصوص حد پر پہنچے پر ہر اکائونٹ ہولڈر حج قرعہ اندازی کا حقدار قرار پائے۔ جن لوگوں کا انتخاب ہوجائے‘ ان کے منافع اور سرمائے کی رقم اگر حج کی ادائیگی کے اخراجات سے کچھ کم ہو تو حکومت فنڈ میں موجود دوسرے کھاتہ داروں سے قرض لے کر ان کے حج اخراجات کی ادائیگی کر دے اور مستقبل میں ہونے والے منافع سے اس قرض کی ادائیگی کر دی جائے۔ اس طرح بہت سے لوگ ہر سال صاحبِ استطاعت ہونے پر فریضۂ حج ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر منافع اور سرمایہ حج اخراجات سے زیادہ ہوجائے تو پھر بونس کی شکل میں کھاتہ داروں کو یہ رقم واپس کر دی جائے۔
واضح رہے کہ پاکستانی عوام کی بڑی تعداد صاحبِ نصاب تو ہے مگر صاحبِ استطاعت نہیں۔ حج جیسے فریضے کی ادائیگی کے لیے صاحبِ نصاب نہیں بلکہ صاحبِ استطاعت ہونا ضروری ہے۔ پاکستانی عوام کے لیے صاحبِ استطاعت ہونے کا معیار ریاست نے امسال تقریباً 12 لاکھ روپے مقرر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ حج کی استطاعت کے معیار پر پورا نہیں اتر پاتے۔ لیکن حج فنڈ سے لوگ بتدریج صاحبِ استطاعت ہوتے چلے جائیں گے اور یوں ان کے لیے حج کی ادائیگی نسبتاً آسان ہوجائے گی۔ اہم بات یہ کہ ایسا کرنے سے نہ تو حکومت کا اضافی سرمایہ خرچ ہوگا اور نہ ہی اس پر سبسڈی کا بوجھ پڑے گا۔ پچھلی حکومت نے اس منصوبے میں دلچسپی لیتے ہوئے اس پر کام شروع کیا تھا مگر محسوس ہوتا ہے کہ اب یہ منصوبہ سرد خانے کی نذر ہو رہا ہے۔ کچھ حکومتی عہدیداروں سے رابطہ کر کے اس پر عمل درآمد تیز کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ میری حکومت سے گزارش ہے کہ جتنی کاوش آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے کی جا رہی ہے‘ اس کی صرف دس فیصد توجہ بھی اس منصوبے پر دے تو نہ صرف پاکستانی عوام کی اکثریت حج کے لیے صاحبِ استطاعت ہو سکتی ہے بلکہ ملک میں ایک معاشی انقلاب آ سکتا ہے۔ ملائیشیا میں تقریباً ہر دوسرا شہری تابونگ حاجی پروگرام کا اکائونٹ ہولڈر ہے‘ پہلے لوگ جو پیسہ گھروں میں رکھ کر حج کے لیے جمع کرتے تھے اب وہی پیسہ وہ انویسٹ کرتے ہیں جس سے اربوں روپے گھروں سے نکل کر بینکوں اور ڈاکومنٹڈ سسٹم میں آ گئے ہیں۔ اس سے نوکریاں پیدا ہوئی ہیں اور کاروبار بڑھے ہیں۔ پاکستان میں اسلامی سرمایہ کاری کو عملی شکل دینے کے لیے علما اور مفتیان کرام کی کئی کئی سالوں کی محنت ہے۔ اگر حکومت ان سے فائدہ اٹھائے تو لوگ اپنے حلال سرمایے سے حج کے لیے صاحبِ استطاعت بن سکتے ہیں۔ حج کے لیے سبسڈی دینا حکومت کے لیے آسان نہیں ہوتا، ویسے بھی یہ ایک بحث طلب معاملہ ہے؛ البتہ عوام کی استطاعت بڑھانا یقینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔پاکستان میں اس منصوبے کی کامیابی کے بعد دیگر مسلم ممالک بھی اس طرح کے منصوبوں پر کام شروع کریں گے اور یوں یہ عالمی سطح پر اسلامی سرمایہ کاری کا بہت بڑا منصوبہ بن کر سامنے آئے گا۔