جی 20اجلاس ،ایکسچینج ریٹ اور ترکیہ

بھارت میں جی 20 ممالک کے تیسرے مالیاتی اجلاس کے دوران قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کے حوالے سے مذاکرات میں بہت معمولی پیشرفت ہوئی۔ جی 20 ممالک کے وزرائے خزانہ اور سینٹرل بینکوں کے گورنرز قرضوں کی ری سٹرکچرنگ پر مذاکرات کے حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں کر سکے‘ یہ گہری تشویش کی بات ہے۔اگرچہ تین برسوں سے ڈیفالٹ کے شکار ملک زیمبیا نے گزشتہ ماہ چین سمیت بیرونِ ملک حکومتوں کو واجب الادا 6 ارب 30 کروڑ ڈالر کے قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے لیکن بہت سے چیلنجز ابھی باقی ہیں۔جی 20 ممالک کے وزرائے خزانہ کو غریب ممالک کے قرضوں کی ادائیگی مؤخر کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ کورونا وبا اور اس کے نتیجے میں مہنگائی اور قرض کی ادائیگی میں اضافے نے مزید ساڑھے سولہ کروڑ افراد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے۔اس اضافے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی 20 فیصد سے زیادہ آبادی(تقریباً ایک ارب 65 کروڑ لوگ) یومیہ 3.65 ڈالر سے بھی کم پر زندگی گزار رہے اور اشیائے خورونوش کی خریداری میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔اس بات کی بھی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ اب یا تو کامن فریم ورک پر تیزی سے کام کرنا ہوگا تاکہ یہ معاملہ آگے بڑھ سکے یا کوئی دوسرا میکانزم ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ کامن فریم ورک ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو جی20 ممالک نے کورونا وبا کے دوران قائم کیا تھا تاکہ قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کو تیز کیا جاسکے اور ان میں پھنسے ممالک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے عمل کو آسان بنایا جا سکے۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی سرگرمیوں کے کچھ عناصر فنانسنگ کے معاملے میں اپنی توجہ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم اہم بات یہ ہے کہ فی الحال قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کا معاملہ آگے نہیں بڑھ رہا ہے جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جنہیں قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کی ضرورت ہے۔ گو کہ آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ مل گیا ہے لیکن یہ عارضی ارینجمنٹ ہے۔ لمبے عرصے کے ریلیف کے لیے قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کو معاشی پالیسیوں میں سب سے زیادہ اہمیت دیے جانے کی ضرورت ہے لیکن حکومت اس طرف توجہ دیتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ایک طرف عالمی طاقتیں عدم دلچسپی کا اظہار کر رہی ہیں اور دوسری طرف ہماری سرکار شاید یہ سوچ رہی ہے کہ وہ چند ہفتوں کی مہمان ہے۔ انتخابات کے بعد جو حکومت آئے‘ قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کے حوالے سے وہی کوئی واضح پالیسی بنائے۔
موجودہ حکومت نے ڈالر ریٹ کو کھلا چھوڑ دیا ہے۔ اس کا اصل ریٹ کیا ہو گا‘ یہ فیصلہ بھی شاید آنے والی حکومت کرے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ تین ارب ڈالر معاہدے کے بعد پاکستان میں امریکی کرنسی کی نمایاں آمد کے باوجود انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض معاہدے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے کمرشل قرضے ملنے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ ڈالر کی قیمت میں کمی واقع ہو گی لیکن قیاس آرائیوں کی فضا پیدا کی گئی۔ مقامی کرنسی کو محض سٹاک ایکسچینج کی ایک کمپنی سمجھا جاتا ہے جو افسوسناک ہے۔ اس کے نتیجے میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں میں مایوسی بڑھتی ہے جو سرمایہ کاری کو کم کرتی ہے اور کریڈٹ ریٹنگ کو بھی گرا دیتی ہے۔ چین کے ایگزم بینک نے 60 کروڑ ڈالر کا قرض رول اوور کر دیا ہے۔ سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر گزشتہ ہفتے ڈالرز کی آمد کے ساتھ تقریباً دوگنا ہو کر 8 ارب 70 کروڑ ڈالر ہو گئے ہیں لیکن امریکی کرنسی کی قیمت میں اس کے باوجود اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے وزیر خزانہ کو بریفنگ دینی چاہیے۔ وزیر خزانہ صاحب کئی مرتبہ یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ڈالر کی قیمت 244 روپے ہے‘ منی ایکسچینج ایسوسی ایشن بھی یہ دعویٰ کرتی رہی کہ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد ڈالر مزید نیچے آ جائے گا لیکن دونوں کے دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے بھی احتساب کا کوئی نظام موجود ہونا چاہیے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ڈالر ریٹ میں اضافہ اتحادی حکومت کا متفقہ فیصلہ ہے۔ شاید پیپلز پارٹی نہیں چاہتی کہ موجودہ حکومت ڈالر ریٹ کو روکے کیونکہ ڈالر ریٹ کو روکنے سے آنے والی حکومت کے لیے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق وزارتِ خزانہ آئی ایم ایف بورڈ سے قرض کی منظوری ملنے کے بعد ڈالر ریٹ کو رئیل ایفیکٹو ایکسچینج ریٹ کے قریب لانے کے احکامات جاری کر چکی تھی۔ آئی ایم ایف کو جیسے ہی اطلاع ملی تو انھوں نے اعلیٰ حکام کو اس سلسلے میں آگاہ کیا‘پیپلز پارٹی نے بھی حکومت پر دبائو بڑھایا جس کے بعد ڈالر ریٹ کو کم کرنے کا فیصلہ تبدیل ہو گیا۔ ڈالر ریٹ کے حوالے سے وزیر خزانہ آج کل آئی ایم ایف کے بجائے پیپلز پارٹی سے مذاکرات کر رہے ہیں اور مبینہ طور پر ڈالر ریٹ کو تھوڑے عرصے کے لیے کنٹرول کرنے کا فارمولا بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں‘ اس بارے کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے معاہدے کی تفصیلی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس کے مطابق اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک کے درمیان فرق 1.25 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے جو موجودہ ریٹ کے مطابق تقریباً چار روپے ہے یعنی انٹربینک کا ریٹ اوپن مارکیٹ طے کرے گی۔ پاکستان میں ایکسچینج ریٹ کی اوپن مارکیٹ بہت چھوٹی ہے‘ کوئی بھی ملک یا بڑا سرمایہ کار مصنوعی ڈیمانڈ پیدا کر کے ایکسچینج ریٹ کے ساتھ کھیل سکتا ہے۔ ڈالر کا ریٹ مارکیٹ کو طے کرنا چاہیے لیکن مافیاز کو کنٹرول کرنے کا بھی کوئی طریقہ کار وضع کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آئی ایم ایف معاہدے کے خلاف جا کر کوئی فیصلہ کیا جائے بلکہ ادارے کو اعتماد میں لے کر کوئی فریم ورک طے کیا جائے۔ پاکستان آئی ایم ایف کو ناراض کر کے آگے نہیں بڑھ سکتا جبکہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر عالمی مارکیٹ میں تنہائی کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستانی معیشت ایک کمزور معیشت ہے جبکہ ترکیہ پاکستان کے مقابلے میں ایک مضبوط معاشی طاقت ہے۔ اس کے باوجود وہ عالمی معاشی دبائو کو زیادہ دیر تک ہینڈل نہیں کر سکا۔ صدر اردوان نے اپنے نیٹو اتحادیوں کو اُس وقت حیران کر دیا جب انہوں نے اچانک سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی درخواست پراپنے دیرینہ اعتراضات کو اچانک منسوخ کر دیا۔ان کے رویے میں اچانک تبدیلی یہ واضح کرتی ہیں کہ نومنتخب صدرمغرب سے اپنے تعلقات کو بہتر کرنا اور بیرونی سرمایہ کاروں کو اعتماد دینا چاہتے ہیں‘ جنہوں نے حالیہ برسوں میں ترکیہ کے ساتھ معاشی اختلافات کے باعث وہاں سرمایہ کاری روک رکھی ہے۔ صدر اردوان نے اس فیصلے کے بدلے سویڈن، امریکہ، نیٹو حتیٰ کہ یورپی یونین سے بھی یقین دہانیاں لی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سے بھی تعلقات بہتر بنانے کے خواہش مند ہیں۔ ترکیہ اور سعودی عرب کے اختلافات ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن اس کے باوجود ترک صدر کا دو سو سرمایہ کاروں کی بڑی ٹیم کے ساتھ سعودی عرب کا دورہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ کوئی ملک عالمی طاقتوں سے کٹ کر نہیں چل سکتا۔ ترکیہ اور سعودی عرب نے توانائی، براہ راست سرمایہ کاری اور دفاع سمیت متعدد شعبوں میں باہمی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ترکیہ 900 ارب ڈالرز کی معیشت ہے لیکن وہ اس وقت عدم استحکام کا شکار ہے۔ مہنگائی چالیس فیصد سے زیادہ بڑھ گئی ہے اور عوام کی قوتِ خرید کم ہوئی ہے جس کی وجہ سے کاروبار بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ترک عوام کو ایندھن اور سیلز پر بھاری ٹیکس ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک کے مرکزی بینک نے 27 مہینوں کے دوران شرحِ سود میں 15 فیصد تک اضافہ کیا ہے۔گزشتہ ماہ سالانہ افراطِ زر کی شرح 38فیصد رہی جو پچھلے سال اکتوبر میں 85 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھی۔کرنٹ اکائونٹ خسارہ رواں برس پہلے پانچ مہینوں میں 37.7 بلین ڈالرز تک پہنچ چکا ہے اور صدر اردوان کو امید ہے کہ تیل اور گیس سے مالا مال خلیجی ریاستیں اس خلا کو پُر کرنے میں مدد فراہم کریں گی۔ پاکستان کو بھی اس حوالے سے ترکیہ سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں