ایران‘ پاکستان 2775 کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن کی تعمیر پر مذاکرات 1995ء میں شروع ہوئے تھے لیکن فنڈز کی کمی اور ایران کی جوہری سرگرمیوں کے سبب امریکی پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی بنا پر یہ پائپ لائن منصوبہ تاحال مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین 2009ء میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت گیس پائپ لائن منصوبہ دسمبر 2014ء تک مکمل ہونا تھا اور اس سے پاکستان کو یومیہ 21.5 ملین کیوبک میٹر گیس فراہم کی جانا تھی۔ اس منصوبے کو مخصوص طریقۂ کار کے تحت تعمیر کیا جانا تھا یعنی ایران کو اپنے علاقے میں اور پاکستان کو اپنی سرزمین پر پائپ لائن تعمیر کرنا تھی۔ گزشتہ ہفتے دورۂ پاکستان کے دوران ایرانی وزیرِ خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے اسلام آباد پر زور دیا کہ وہ انتہائی تاخیر کے شکار اس منصوبے کا اپنی طرف کا حصہ مکمل کرے‘ وگرنہ معاہدے کے مطابق پائپ لائن کی تعمیر مکمل کرنے میں ناکامی پر وہ یکم جنوری 2015ء سے ایران کو ایک ملین ڈالر یومیہ ادا کرنے کا پابند ہے۔ اگر ایران اس کیس کو ثالثی عدالت میں لے کر جاتا ہے تو پاکستان کو اربوں ڈالر جرمانے کے طور پر ادا کرنا پڑ سکتے ہیں۔ پاکستان نے ایران کو معاہدے کے تحت طے شدہ ذمہ داری کو معطل کرنے کے لیے ''فورس میجر اینڈ ایکسکیوزنگ ایونٹ‘‘ نوٹس جاری کیا ہے جس میں پاکستان کے قابو سے باہر بیرونی عوامل کا حوالہ دیاگیا ہے۔ سادہ الفاظ میں اس وقت تک منصوبہ آگے بڑھانے سے معذوری ظاہر کی گئی ہے جب تک کہ ایران پر امریکی پابندیاں برقرار ہیں یا امریکہ کی جانب سے اس منصوبے پر معاملہ آگے بڑھنے کے لیے کوئی مثبت اشارہ نہیں ملتا۔ یہ منصوبہ ملک میں توانائی کی شدید قلت کے باوجود تقریباً ایک دہائی سے سرد خانے میں پڑا ہے۔ ایران نے پاکستان کے بجھوائے گئے نوٹس پر اعتراض ظاہر کیا ہے۔ یہاں سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں کہ کیا سرحد پار توانائی منصوبے کی تکمیل کے لیے حکومت نے کوئی تاریخ متعین کر رکھی ہے؟ کیا تاخیر کی صورت میں پاکستان پر جرمانہ واجب الادا ہے اور کیا دیگر علاقائی ممالک امریکی پابندیوں کے باوجود تجارتی تعلقات کو قائم رکھے ہوئے ہیں؟ حکومتی موقف ہے کہ ایران‘ پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے، ایران پر سے پابندیاں ہٹنے کے بعد منصوبے کی سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی۔ جہاں تک جرمانے کی بات ہے تو اس کا فیصلہ ثالثی عدالت کرے گی اور اس کا تعین بھی اس کے اختیار میں ہو گا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سرکار گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کے لیے کوئی متعین تاریخ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ فورس میجر اینڈ ایکسکیوزنگ ایونٹ نوٹس اور ایران کی جانب سے اس نوٹس کو متنازع بنانے کا معاملہ عالمی ثالثی کے ذریعے ہی طے کیا جا سکتا ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے کہ اگر گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل نہ کیا گیا تو 18 ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ تجویز بھی دی گئی کہ اگر امریکہ اس گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنے کی منظوری نہیں دیتا تو جرمانے کی یہ رقم اسے ادا کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے امریکہ کو بھی اپنے دہرے معیارا ت ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ بھارت کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے حوالے سے اس سے نرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے مگر پاکستان کو سزا دے رہا ہے۔
یہ معاملہ حل کرنے کے لیے پٹرولیم ڈویژن کی ایک تکنیکی ٹیم نے جنوری میں تہران کا دورہ کیا تھا تاکہ آئی پی گیس پروجیکٹ کے فروغ کے طریقوں اور ذرائع پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ وزیر اعظم آفس نے تمام سٹیک ہولڈرز کی بین الوزارتی اجلاس اور آئی پی گیس پائپ لائن منصوبے پر آگے بڑھنے کے لیے ایکشن پلان پر اتفاق بھی کیا۔ ایک طرف پاکستان ایران کے ساتھ سرحدی تجارت بڑھا رہا ہے‘ بجلی کی ضرورت ایران سے پوری کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی تقریباً 25 فیصد سے زیادہ کھیپ غیر قانونی طریقے سے ایران سے پاکستان آ رہی ہے‘ دونوں ممالک کے تعلقات بہتری کی طرف جا رہے ہیں اور دوسری طرف ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ اس دوستی میں دراڑ ڈالتا دکھائی دے رہا ہے۔ مستقبل میں اس حوالے سے کیا پیشرفت ہوتی ہے‘ اس پر کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ لیکن اس معاملے کا مزید اچھلنا اور عالمی ثالثی عدالت میں جانا بیرونی سرمایہ کاری پاکستان لانے میں ایک رکاوٹ بن سکتا ہے۔
ایک طرف ایران‘ پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے اور دوسری طرف سعودی عرب سے مزید سرمایہ کاری پاکستان لانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف سے سعودی عرب کے نائب وزیر برائے خارجہ امور ولید عبدالکریم الخریجی نے اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ ملاقات کی ہے۔ وفد میں سعودی نائب وزیر برائے خارجہ امور کے ساتھ توانائی، صحت، ماحولیات، زراعت، صنعت اور معدنی وسائل اور سرمایہ کاری کی وزارتوں کے اعلیٰ حکام بھی شامل تھے۔ سعودی حکومت اور کمپنیوں کو زراعت، کان کنی، آئی ٹی، توانائی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دی گئی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کا قیام خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے رکن ممالک بالخصوص مملکت سعودی عرب کی ممکنہ سرمایہ کاری کو آسان اور تیز تر بنائے گا۔ اطلاعات ہیں کہ ریکوڈک منصوبے کے اپنے پچاس فیصد شیئر میں سے 25 فیصد سعودی عرب کو بیچنے کی بھی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں سونے اور تانبے کے بڑے ذخیرے ریکوڈک میں 50 فیصد شیئرز کی مالک کمپنی ''بیرک گولڈ کارپوریشن‘‘ کو اس منصوبے میں سعودی ویلتھ فنڈ کو اپنے شراکت داروں میں شامل کرنے پر اعتراض نہیں ہے۔ بیرک گولڈ کی جانب سے اس منصوبے میں اپنی ایکویٹی کو کم نہیں کیا جائے گا لیکن اگر سعودی عرب کا پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) حکومتِ پاکستان کی ایکویٹی خریدنا چاہتا ہے تو اسے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کس ریٹ پر سونے اور تانبے کے ذخائر بیچتا ہے۔ بیرک گولڈ کے ساتھ جو ڈیل ہوئی تھی‘ اس میں شیئر معاصر دنیا سے کم تھا۔ البتہ اس حوالے سے ابھی تک سعودی عرب سے کوئی واضع پیغام نہیں آیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیجی ممالک پاکستان کے ساتھ دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی استحکام آئے۔ کئی ماہ سے بیرونی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے لیکن ابھی تک کوئی خاص کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ بلکہ بندرگاہوں اور ایئرپورٹس کی فروخت کے حوالے سے ایک مشہور خلیجی اخبار نے یہ سرخی لگائی کہ ''پاکستان فار سیل‘‘۔ بیرونی سرمایہ کاری کے حکومتی منصوبوں کو ملکی اثاثے بیچنے کے منصوبے بھی کہا جا رہا ہے۔ سرکار نے ملکی اثاثوں کی لوٹ سیل لگا رکھی ہے اور سرمایہ کار اثاثوں کی قیمت سے کئی گنا کم ریٹ لگا رہے ہیں کیونکہ پاکستان کے اثاثے خریدنے وہ خود نہیں آئے بلکہ حکومت ان کے پاس گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق متحدہ عرب امارات نے کراچی کی دو بندرگاہوں کی آفر محض ایک ارب پچیس کروڑ ڈالرز لگائی ہے اور یہ ادائیگی بھی پچیس سال میں کی جائے گی۔ پہلے یہ آفر اسی کروڑ ڈالرز تھی‘ حکومت کے انکار پر پینتیس کروڑ ڈالرز مزید بڑھا دیے گئے۔ سرکار کے مطابق یہ قیمت کم ہے‘ اسے مزید بڑھانے کی درخواست کی گئی ہے۔
مالی مشکلات کے شکار پاکستان کی مدد کرنے کی بجائے سب صورتحال سے فائدہ اٹھانے میں زیادہ دلچپسی رکھتے ہیں‘ اس کی ایک وجہ حکومتی غیر سنجیدگی بھی ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب مردم شماری کے نوٹیفکیشن سے الیکشن معینہ مدت میں نہ کرانے کی راہ ہموار کر دی گئی ہے جس سے سٹاک مارکیٹ بری طرح گر رہی ہے۔ میں نے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ اگر الیکشن مقررہ وقت پر ہو گئے تو سٹاک ایکسچینج مثبت رہے گی اگر وقت بڑھایا گیا تو منفی ردعمل دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ یہ فیصلہ سامنے آتے ہی سٹاک ایکسچینج میں منفی رجحان شروع ہو گیا ہے۔ موجودہ حالات میں اگر مقامی سرمایہ کار ہی مایوس دکھائی دے رہے ہیں تو بیرونی سرمایہ کاروں کو کس بنیاد پر دعوت دی جا رہی ہے؟