برآمدات کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کے کمزور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پورا ملک کمزور ہو رہا ہے۔ بعض بین الاقوامی حلقوں میں تو اب ہمیں سنجیدہ نہیں لیا جا رہا کیونکہ معیشت اور سیاست کا جو ماڈل پاکستان میں چل رہا ہے‘ اس کے آگے گہری کھائی اور پیچھے آگ کا دریا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برآمدات میں اضافے کے بجائے مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ جرمنی اور ہالینڈ میں پاکستانی اشیا کی طلب میں کمی کی وجہ سے مالی سال 2023ء میں یورپی یونین کو برآمدات میں 4.41 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی۔ یورپی یونین کے 27 رکن ممالک کو مالی سال 2023ء میں 8 ارب 18 کروڑ ڈالر کی برآمدات کی گئیں جو گزشتہ مالی سال کے دوران 8 ارب 56 کروڑ ڈالر تھیں۔ یورو کے لحاظ سے برآمدات میں معمولی اضافہ ہوا؛ تاہم جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنس پلس (جی ایس پی پلس) سکیم کے باوجود برآمدات میں کمی دیکھی گئی۔ جی ایس پی پلس سکیم یکم جنوری 2014ء کو نافذ ہوئی تھی اور یہ سہولت رواں مالی سال تک دستیاب رہے گی۔ پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ برآمدات جرمنی، ہالینڈ، سپین، اٹلی اور بلجیم کو بھیجی گئیں۔ مصنوعات کے لحاظ سے جائزہ لیں تو یورپی یونین کو بھیجی جانے والی برآمدات میں ملبوسات اور ہوزری کے سامان میں اضافہ ہوا، دوسری سب سے بڑی برآمدی کیٹیگری گھریلو ٹیکسٹائل رہی اور تیسری کیٹیگری کپاس اور ٹیکسٹائل کا سامان ہے۔ یورپی یونین کو برآمد کی جانے والی دیگر مصنوعات میں چمڑا، چاول، کھیلوں کا سامان (فٹ بال)، جراحی کا سامان، جوتے، پلاسٹک، معدنیات، مشینری، قالین، کٹلری، کیمیکلز اور ربر اور دوا سازی کی اشیا شامل ہیں۔ بریگزٹ سے پہلے پاکستان کی برآمدات کا بڑا مرکز برطانیہ تھا، بریگزٹ کے بعد پاکستان کی برآمدات مالی سال 2023ء کے دوران 10.63 فیصد کم ہوکر ایک ارب 96 کروڑ ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 2 ارب 20 کروڑ ڈالر تھیں۔ برطانیہ کو برآمدات میں کمی ایک حوصلہ شکن عنصر ہے۔ برآمد کنندگان کو خدشہ ہے کہ وہ بریگزٹ کے بعد برطانیہ کی مارکیٹ کھو دیں گے؛ تاہم برطانوی حکومت نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ بریگزٹ کے بعد کے منظر نامے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی جو پاکستان کے ترجیحی مارکیٹ رسائی سکیم میں شامل ہونے سے ظاہر ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں رسائی کے لحاظ سے اب جی ایس پی پلس کے تحت برطانیہ کی جگہ جرمنی نے لے لی ہے جو پاکستانی مصنوعات کی بڑی برآمدی منڈی کے طور پر ابھرا ہے؛ تاہم ملکوں کے لحاظ سے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ جرمنی جانے والی برآمدات میں 8.62 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ مالی سال 2023ء میں یہ برآمدات ایک ارب 60 کروڑ ڈالر تھیں جو گزشتہ مال سال ایک ارب 75 کروڑ ڈالر تھیں۔ پاکستان کی برآمدات کے لیے دوسری بڑی مارکیٹ ہالینڈ ہے۔ مالی سال 2023ء میں ہالینڈ کو بھیجی جانے والی برآمدات 3.53 فیصد کم ہوکر ایک ارب 44 کروڑ ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ مالی سال کے دوران ایک ارب 49 کروڑ ڈالر تھیں۔ تیسری بڑی مارکیٹ سپین ہے، مالی سال 2023ء میں پاکستان سے سپین جانے والی برآمدات 19.39 فیصد بڑھ کر ایک ارب 37 کروڑ ڈالر ہوگئیں جو پچھلے مالی سال کے دوران ایک ارب 15 کروڑ ڈالر تھیں۔ چوتھی بڑی مارکیٹ اٹلی ہے، مالی سال 2023ء میں پاکستان سے اٹلی جانے والی برآمدات 5.88 فیصد بڑھ کر ایک ارب 15کروڑ ڈالر ہو گئیں جو پچھلے مالی سال کے دوران ایک ارب 8 کروڑ ڈالر تھیں۔ بیلجیم جانے والی برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر 2.20 فیصد کمی، پولینڈ 3.65 فیصد کمی، ڈنمارک 29.47 فیصد کمی، سویڈن 18.6 فیصد کمی اور آئرلینڈ بھیجی جانے والی برآمدات میں 7.17 فیصد کمی آئی جبکہ فرانس کو برآمدات میں 7.24 فیصد اور یونان کو بھیجی جانی والی برآمدات میں مالی سال 2023ء میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔ اگر ملکی معاشی مسائل کو حل کرنا مقصود ہے تو برآمدات کو بڑھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جو ممالک برآمدات نہیں بڑھا پاتے وہ گلوبل کمیونٹی میں تنہا رہ جاتے ہیں۔
نگران حکومت نے آتے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں بالترتیب 17 روپے 50 پیسے اور 20 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ قبل ازیں حال ہی میں مدت مکمل کر کے رخصت ہونے والی حکومت نے یکم اگست کو پٹرول کی قیمت میں بڑا اضافہ کیا تھا۔حکومت کے مطابق 15 روز کے دوران عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ 16 جولائی کو ہائی سپیڈ ڈیزل کی فی بیرل قیمت 96 ڈالر تھی جو 31 جولائی کو 111.46 ڈالر فی بیرول ہوگئی۔ نگران حکومت کے بھی عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت میں اضافہ کو جواز بنا رہی ہے جس کے نتیجے میں صارفین کے لیے قیمت میں ردوبدل کیا گیا، لیکن عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر عالمی مارکیٹ کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے تو ملک میں آمدن کے ذرائع بھی عالمی مارکیٹ کے مطابق کیے جائیں تا کہ عوام اس اضافے کوبرداشت کرنے کے قابل ہو سکیں۔سارا بوجھ عوام پر ڈال کر ان کو بے یارو مددگار چھوڑنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس وقت ڈالربھی بے لگام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پچھلی حکومت نے پالیسیوں کی تبدیلی سے ڈالر کو کچھ کنٹرول کیا ہوا تھا، ڈار صاحب کی کوشش رہی ہے کہ وہ ڈالر کو قابو میں رکھیں‘ یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کے کنٹرول میں آئی ایم ایف نہیں ہے لیکن وہ ڈالر کو کنٹرو ل کرنے کی کوششیں کرتے دکھائی دیے۔ اگر کوشش نظر آتی رہے تو مافیاز ایک مخصوص دائرے کے اندر رہ کر کھیلتے ہیں اور جب انہیں یقین ہو جائے کہ اب پوچھنے والا کوئی نہیں تو پھر چوکے اور چھکے لگانے کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ نگران حکومت کے پہلے ہی دن ڈالر مافیا نے اوپن مارکیٹ میں ڈالر چار روپے مہنگا کر کے پہلے چوکے کی شکل میں حکومت کو سلامی دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اچانک ایسی کون سی ڈیمانڈ آ گئی کہ ڈالر کے ریٹ میں اضافہ ہوا۔ کسی بھی ترقی یافتہ یا ترقی پذیرملک میں ڈالر کو بے لگام چھوڑنے کا کوئی قانون نہیں ہے۔ بھارت میں بھی ڈالر کو حکومتی مداخلت سے کنٹرول کیا جاتاہے۔ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب میں بھی ڈالر ریٹ ایک مخصوص عرصے کے لیے فکس رہتا ہے۔ برطانیہ اور یورپ میں بھی ایکسچینج ریٹ کو مناسب سطح پر رکھنے کے لیے قوانین اور وزارتیں موجود ہیں لیکن پاکستان میں ڈالر کو مارکیٹ پر چھوڑنے کا مطالبہ کیاجاتا ہے۔ آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ معاشی خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کی ہر شرط کو من و عن ماننا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ ملکی حالات کے پیش نظر درست فیصلے کیے جانے کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ امپورٹ مکمل کھول دینی چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا عملی طور پر ممکن بھی ہے یا نہیں۔ پاکستان جیسی معیشت کی درآمدات کے لیے آٹھ ارب ڈالرز ماہانہ بھی کم ہیں اور برآمدات کے حالات پہلے ہی بیان ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کا ایک طرف یہ مطالبہ ہے کہ مہنگائی کم کی جائے لیکن شرحِ سود کم کرنے پر وہ خفا ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں مطالبات بیک وقت کیسے پورے کیے جا سکتے ہیں۔ اگر ڈالر کو مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائے تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت ایک لیٹر پٹرول تقریباً ایک ڈالر کے برابر ہے۔ بڑھتے ہوئے ڈالر ریٹ کے پیش نظرشاید پٹرول تین سو کی حد بھی جلد عبور کر جائے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ کچھ ادائیگیاں تھیں جو تین مسلسل چھٹیوں میں نہیں ہو سکیں اس کی وجہ سے روپے پر دبائو ہے لیکن سٹیٹ بینک نے ایسی کسی ادائیگی کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی اس وقت کوئی منتخب حکومت موجود ہے جس کے سامنے خدشات اورسوالات رکھے جا سکیں۔ نگران حکومتوں کو عوامی جذبات اور حالات کی پروا کم ہی ہوتی ہے؛ تاہم ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ حکومت کو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنا چاہیے اور ان کے مسائل کا حل تجویز کرنا چاہیے۔ پاکستان اپنی جغرافیائی برتری کو اب بھی کیش نہیں کرا پا رہا، شاید جس راستے کا ہم نے انتخاب کر رکھا ہے وہ درست نہیں۔ اس وقت ملک کو ایسے مسیحا کی تلاش ہے جو اسے کامیابی کے ٹریک پہ لے جائے۔