وزارتِ خزانہ نے ایک بار پھر ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد پٹرول کی قیمت میں تقریباً 26جبکہ ڈیزل کی قیمت میں تقریباً 17روپے لٹر کا اضافہ ہو گیا ہے جس کے بعدپٹرول کی قیمت 331.38 جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 329.18روپے ہو گئی ہے۔ نگران حکومت نے تقریباً ایک ماہ کے دوران تیسری مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ نگران وزیراعظم نے جب 14اگست کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا تو پٹرول کی فی لٹر قیمت 272روپے 95پیسے جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 273روپے 40پیسے تھی۔ نگران حکومت نے ایک ماہ کے دوران پٹرول کی فی لٹر قیمت میں 58روپے 65 پیسے جبکہ ڈیزل کی فی لٹر قیمت میں 55روپے 78پیسے اضافہ کیا ہے۔ وزراتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں بڑھنے کے باعث لیا گیا۔ وجہ جو بھی ہو‘ مہنگائی اور آئے روز پٹرول کی قیمت میں اضافے سے تنگ عوام نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غم و غصے کا اظہار کیا جبکہ سیاسی قائدین میں سے سراج الحق کے علاوہ کسی نے آگے بڑھ کر عوام کے لیے آواز اٹھانا مناسب نہیں سمجھا۔ ابھی بجلی بلوں کے خلاف ہی عوام کا احتجاج کوئی رنگ نہیں لایا کہ اب پٹرولیم مصنوعات بھی مزید مہنگی ہو گئی ہیں۔ باقی ملک میں یہ احتجاج نہ جانے کب رنگ لائے لیکن آزاد کشمیر میں عوام کا احتجاج رنگ لے آیا ہے اور وہاں حکومت عوامی احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی ہے جس کے بعد وہاں بجلی کی قیمتیں نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
امریکہ‘ یورپ اور برطانیہ میں بھی عوام مہنگائی کے خلاف اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے ایک مرتبہ پھر یہ دلائل دیے جارہے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں پٹرول پاکستانی چار سو سے چھ سو روپے فی لٹر ہے۔ پاکستان میں پٹرول کی قیمت کئی ممالک کی نسبت اب بھی کم ہے لیکن دلائل دینے والے یہ نہیں بتاتے کہ ان ممالک میں فی کس آمدن بھی پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ برطانیہ میں ایک لٹر پٹرول تقریباً ڈیڑھ پاؤنڈ کا ہے جو کہ پاکستانی تقریباً 550روپے بنتے ہیں لیکن وہاں کم سے کم آمدن آٹھ پاؤنڈ فی گھنٹہ ہے۔ یعنی کہ اگر کوئی بھی شخص چاہے تو وہ ایک دن آٹھ گھنٹے کام کرکے 64 پاؤنڈ با آسانی کما سکتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی بات ہو رہی ہے جو معمولی نوکریاں کرتے ہیں۔ یہ رقم پاکستانی تقریباً ساڑھے تیئس ہزار روپے کے برابر ہے۔ اگر ایک دن میں وہ پانچ لٹر پٹرول بھی استعمال کریں تو پٹرول کا خرچ تقریباً پونے تین ہزار روپے ہو گا۔ ساڑھے تیئس ہزار روپے ایک دن کا کما کر پٹرول کے لیے تین ہزار روپے خرچ کرنے کے بعد بھی بیس ہزار روپے سے زائد دیگر اخراجات کے لیے بچ جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں ایک مزدور روزانہ ایک ہزار سے پندرہ سو روپے کماتا ہے۔ جس سے صرف تین یا چار لٹر پٹرول آتا ہے۔ پٹرول ڈلوانے کے بعد دیگر اخراجات کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ اگر پٹرول کی قیمتوں کا موازنہ ترقی یافتہ ممالک سے کرنا ہے تو آمدن کا موازنہ بھی اسی اصول کے تحت کیا جائے۔ اگر حکومت پٹرول کی قیمتیں ترقی یافتہ ممالک کے برابر رکھنا چاہتی ہے تو آمدن بھی ان ممالک کے برابر کی جائے۔ فی الحال حکومتی پالیسیاں صرف مہنگائی میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔
دوسری طرف طورخم سرحد کی بندش کے بعد سبزیوں بالخصوص ٹماٹر اور پیاز کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کی وجہ سبزیوں کی سپلائی کی معطلی کو قرار دیا جا رہا ہے۔ گو کہ اب بارڈر کھول دیا گیا ہے لیکن ابھی مکمل طور پر تجارت بحال نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان مقامی طلب پورا کرنے کے لیے افغانستان سے ٹماٹر‘ پیاز‘ آلو اور دیگر سبزیاں درآمدکرتا ہے۔ بلاشبہ سمگلنگ دیمک کی طرح ملک کو چاٹ رہی ہے جسے بند ہونا چاہیے۔ سمگلنگ کے خلاف اقدامات کرنے پر قوم آرمی چیف کی شکرگزار ہے لیکن قانونی اور غیر قانونی تجارت میں تفریق کی ضرورت ہے۔ سمگلنگ کی وجہ سے بارڈر بند ہونے سے لیگل کاروبار کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان پولٹری کی ٹریڈ کے لیے خیبرپختونخوا حکومت اور افغانستان کے درمیان معاہدے کیے گئے ہیں۔ افغان کرنسی کو پاکستانی روپے میں تبدیل کر کے ادائیگی ہوتی ہے۔ یہ نظام بہت صاف شفاف ہے۔ پاکستان میں چکن کی کھپت پیداوار کا تقریباً 40فیصد ہے بقیہ افغانستان ایکسپورٹ ہوتا ہے۔ اس معاملے پر بھی نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔
رواں مالی سال کے ابتدائی دو مہینوں کے دوران ٹیکسٹائل اور کپڑے کی برآمدات سالانہ بنیادوں پر 9.49 فیصد کم ہو گئیں جس کی وجہ پیداواری لاگت بڑھنا اور نقدیت کے مسائل ہیں۔ جولائی تا اگست کے دوران ٹیکسٹائل اور کپڑے کی برآمدات گھٹ کر 2ارب 76کروڑ ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران 3ارب 5کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں۔ تنزلی کا یہ رجحان مالی سال 2024ء کی پہلی ششماہی تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔ نگران وزیر تجارت نے حالیہ دنوں میں دعویٰ کیا تھا کہ حکومت جلد ہی ٹیکسٹائل برآمدکنندگان کو توانائی کی مسابقتی قیمت فراہم کرے گی اور زیر التوا ٹیکس ریفنڈز بھی جاری کرکے نقدیت کے مسائل کو حل کرے گی‘ لیکن یہ کب ہو گا‘ اس بارے کسی کو علم نہیں۔ جولائی تا اگست کے دوران ٹیکسٹائل مشینری کی درآمدات 74.63 فیصد گھٹ گئیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ توسیع یا جدت لانے کے منصوبے ترجیح نہیں رہے۔ اُدھر مزدوروں کی عالمی تنظیم (آئی ایل او) نے کہا ہے کہ پاکستان کی لیبر مارکیٹ اب تک عالمی وبا کورونا وائرس اور معاشی بحران سے مکمل طور پر بحال نہیں ہوئی اور اس سال بے روزگار افراد کی تعداد 56لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے جس میں 2021ء کے بعد 15 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ ملازمتوں میں کمی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری پاکستان کی پیش رفت کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل سکتی ہے۔ 2023ء میں ملک میں آبادی سے روزگار کا تناسب 47.6فیصد سے بہت نیچے گر گیا ہے۔
عجب بات یہ ہے کہ جب پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی کی قیمتوں‘ بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے تو نگران حکومت یہ کہہ کر جان چھڑا لیتی ہے کہ ہمارے پاس مینڈیٹ نہیں ہے اور سارا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ جب کچھ بہتری کی خبریں سامنے آتی ہیں تو اس کا کریڈٹ لینے پوری کابینہ کیمروں کے سامنے براجمان ہو جاتی ہے۔ نگران حکومت نے قانونی ذرائع سے ترسیلاتِ زر بھیجنے والے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے نئی سکیم کا اعلان کیا ہے۔ سکیم کو فروغ دینے کے لیے 80ارب روپے مختص کیے ہیں اور اس مد میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کو 20ارب روپے منتقل کیے جا چکے ہیں۔ قانونی ذرائع سے ترسیلاتِ زر کو فروغ دینے کے لیے پانچ اقسام کی سکیموں کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان سکیموں کے تحت 100ڈالر سے زائد ترسیلاتِ زر کو بغیر کسی فیس کے یہاں وصول کیا جا سکے گااور ترسیلاتِ زر بھیجنے والوں کو پوائنٹس دیے جائیں گے جن کے تحت وہ کئی سرکاری اداروں سے خدمات اور اشیا رعایتی نرخوں پر حاصل کر سکیں گے۔ حکومت پاکستان ایکسچینج کمپنیوں کے لیے بھی مراعات فراہم کرے گی۔ سکیم کے تحت مالی اداروں کی جانب سے قانونی ذرائع سے ترسیلاتِ زر بھیجنے کے حوالے سے مارکیٹنگ کے بدلے مراعات دی جائیں گی۔ سکیم کے تحت قرعہ اندازی کی جائے گی اور اس کے تحت قانونی ذرائع کے ذریعے زیادہ ترسیلاتِ زر بھیجنے والوں کو نقد انعامات بھی دیے جائیں گے۔ اس طرح کی کئی سکیمیں پہلے بھی سامنے آ چکی ہیں لیکن حقیقی طور پر جس سکیم میں عوام نے سب سے زیادہ دلچسپی دکھائی وہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ ہے۔ یہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے ملک میں فارن کرنسی بھجوانے کی سب سے زیادہ پُرکشش اور کامیاب سکیم ہے جس کے ذریعے اب تک تقریباً چھ ارب ڈالرز پاکستان آ چکے ہیں۔ نگران حکومت سے گزارش ہے کہ اگر وہ کچھ بہتر کرنا چاہتی ہے تو روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں مزید سہولتیں فراہم کرنے کے راستے نکالے۔ منافع کی شرح بڑھائے اور اس عمل کو مزید آسان اور سادہ کرے۔ بیرونِ ملک پاکستانی ملک کا اثاثہ ہیں۔ ان کی مشکلات اور پریشانیوں کو بھی کم کرنے کی ضرورت ہے۔