معاشی اصلاحات اور ان کے اثرات

دنیا کی جدید معیشتوں کی طرح بھارت نے ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا سہارا لیا۔ ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے ہوں، ٹیکس جمع کرانا ہو، ریٹرنز کینسل کرنے ہوں‘دہرانے ہوں، اپیل فائل کرنی ہو، ری ویو فائل کرنا ہو یا ٹیکس سے متعلقہ کوئی بھی کام ہو‘ آن لائن یہ کام 24 گھنٹوں سے بھی پہلے ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر حکومت سے ٹیکس ریفنڈ لینا ہو تو وہ بھی 24 گھنٹوں میں درخواست گزار کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جاتا ہے۔ حکومت نے ٹیکس ریٹ کم کر کے ٹیکس بیس بڑھانے کی طرف توجہ دی۔نومبر 2016ء میں نریندر مودی نے کیش لیس معیشت کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ حکومت نے بھارت کے ہر کونے میں ڈیجیٹل طریقہ کار کے تحت خریدوفروخت کرنے کے فوائد کی آگاہی دی۔ اخبارات، ٹی وی اور ریڈیو پر اشتہاری مہم چلائی گئی۔ نوجوانوں سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنے ارد گرد کم از کم دس لوگوں کو موبائل کے ذریعے خریدوفروخت کے طریقوں سے آگاہ کریں اور انہیں اس کی تربیت دیں۔ موبائل سے ادائیگیوں کو آسان بنانے کیلئے سرکار نے یونیفائیڈ پیمنٹ انٹرفیس (یو پی آئی) سسٹم متعارف کرایا جس کے تحت تمام دکانداروں اور سٹور مالکان کو بینک اکاؤنٹ کھولنے اور حکومتی نظام کے ساتھ منسلک ہونے کی ہدایت کی گئی۔ اس نظام کے ذریعے کسی بھی چیز کی خریداری اتنی ہی آسان ہوگئی جتنا کسی موبائل ایپ کو استعمال کرنا۔ اس سسٹم کے تحت اگر آپ کوئی سامان خریدنا چاہتے ہیں تو اپنے موبائل فون سے سامان پر لگا کیو آر کوڈ سکین کریں‘ آپ کے سامنے سرکار کے ٹیکس اور دکاندار کی رقم آ جائے گی۔ ادائیگی سے ٹیکس کی رقم براہِ راست سرکار کے اکائونٹ میں اور خریداری کی رقم دکاندار کے اکائونٹ میں چلی جائے گی۔ یہ ٹرانزیکشن پلک جھپکتے میں ہوجائے گی۔ اس سے نہ ٹیکس چوری کا خدشہ رہتا ہے اور نہ ہی کیش کے چوری ہونے کا ڈر۔ اس کے علاوہ کارڈ سویپنگ مشین کے پاس موبائل لائیں تو کارڈ سویپ کیے بغیر آپ کے بینک اکاؤنٹ سے دکاندار کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل ہو جائے گی۔ اس نظام نے بھارت میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ مارچ 2019ء تک 143 بینک یو پی آئی کے ساتھ منسلک تھے اور آج یہ تعداد 458 سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس نظام کے تحت 2019ء میں ایک ماہ کی ٹرانزیکشن کی تعداد لگ بھگ 800 ملین تھی جس کی مالیت 19 ارب ڈالر بنتی ہے۔ آج یہ تعداد پانچ گنا سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ بھارتی حکومت کی ان کاوشوں سے ٹیکس چوری کو روکنے میں خاصی مدد ملی اور ٹیکس آمدن میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یو پی آئی سسٹم متعارف کرانے سے پہلے مالی سال 2015ء میں ٹیکس وصولی 14 لاکھ 60 ہزار کروڑ روپے تھی جو مالی سال 2023ء میں 19 لاکھ 68 ہزار کروڑ روپے ہو چکی ہے۔
چین کی معیشت بھی ڈیجیٹل خریدوفروخت کی بہترین مثال ہے۔ چین موبائل سے ادائیگی کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ چین کے سینٹرل بینک کے مطابق 76.9 فیصد چینی موبائل سے ادائیگیاں کرتے ہیں۔جب چین نے کیش لیس معیشت کا بیڑہ اٹھایا تو عوام کو تحفظات تھے کہ اس طریقہ کار سے حکومت ہمیں ٹیکس کے معاملے میں تنگ کرسکتی ہے جس پر چینی حکومت نے اعلان کیا کہ ''جب آپ کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہوگا تو آپ کو کوئی خوف بھی نہیں ہوگا‘‘۔ ریاست نے عوام کو یقین دلایا کہ ان کی معلومات حکومت کے پاس امانت ہے اور اگر کچھ غلط نہیں کیا جا رہا تو کسی کو بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ کامیاب حکومتی حکمت عملی کے سبب آج چین میں ٹیکس چوری یا بلیک منی چھپانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔بھارت اور چین کے برعکس پاکستان میں سرکاری سطح پر موبائل کے ذریعے خریداری کرنے کی نہ تو سہولت موجود ہے اور نہ ہی حکومتی سطح پر اس کی کوئی پلاننگ نظر آتی ہے۔فیصل آباد کی سوتر منڈی، لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ، کراچی کے صدر بازار، کوئٹہ کی کباڑی مارکیٹ، پشاور کے سمگلر بازار وغیرہ جیسی سینکڑوں مارکیٹیں ایسی ہیں جہاں ہر روز اربوں روپے کا کاروبار کیش پر ہوتا ہے۔ کس نے کتنا کمایا اور یہ سارا پیسہ کہاں گیا‘ کچھ پتا نہیں چلتا۔
پاکستان اس وقت شدید مالی بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ وقت ناکام ملکوں کی روایت چھوڑ کر کامیاب ملکوں کے اصول اپنانے کا ہے۔ پاکستان کو کیش معیشت سے نکال کر کیش لیس ڈیجیٹل معیشت کی طرف لانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک ایسا نظام متعارف کرانے کی ضرورت ہے جس میں کیش کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہو اور ایک روپے کی ادائیگی بھی بذریعہ بینک کارڈ یا موبائل کے ذریعے ہوسکے۔ تمام موبائل اکاؤنٹ ایف بی آر سے منسلک ہوں اور جب بھی صارف کوئی ادائیگی کرے تو اس کا ٹیکس خودکار نظام کے ذریعے ایف بی آر کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جائے، جیسا کہ بینکوں میں ہوتا ہے۔ جب تک بینک ٹیکس کاٹ نہیں لیتے‘ وہ صارف کی ذاتی رقم کی ادائیگی بھی نہیں کرتے۔ ابتدائی طور پر موبائل یا کارڈ کے ذریعے ادائیگی کرنے والوں کیلئے حکومت انعامات اور سہولتوں کا اعلان کرے تا کہ عوام اس طرف مائل ہوں۔پاکستان میں موبائل کمپنیوں کا جال پہلے سے بچھا ہوا ہے اور وہ آن لائن رقم منتقلی کی سہولت بھی فراہم کر رہی ہیں۔وزارتِ خزانہ کو چاہیے کہ وہ بھارت کی طرح سرکاری سطح پر یو پی آئی جیسا ادارہ بنائے جو پورے ملک کے بینکوں سے منسلک ہو۔ عوام میں آگاہی مہم چلائی جائے اور دکانداروں اور سٹور مالکان کے لیے بینک اکاؤنٹ کھلوانے اور آن لائن سسٹم سے منسلک ہونے کو لازمی قرار دیا جائے۔ کسی دکاندار کو دکان کھولنے کی اجازت اس وقت تک نہ دی جائے جب تک وہ موبائل اور آن لائن خریداری کے نظام سے منسلک نہ ہوجائے۔ایک خاص حد سے زیادہ کیش پر خریدوفروخت کرنے والوں پر جرمانہ عائد کیا جائے ۔ پاکستان آئی ایم ایف کے ٹیکس اہداف حاصل نہیں کر پا رہا جس کی وجہ سے حکومت پٹرولیم مصنوعات پر تقریباً سو روپے فی لیٹر ٹیکسز کی مد میں وصول کر رہی ہے جبکہ ٹیکس ہدف حاصل کرنا پاکستانی معیشت کے لیے اتنا مشکل نہیں ہے جتنا اسے سمجھا جاتا ہے۔ حکومت گلہ کرتی ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے جبکہ عوام کا کہنا ہے کہ کون سی چیز ایسی ہے جس پر ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ عوامی رائے بہت حد تک درست اور وزنی ہے۔ سوئی سے لے کر جہاز تک ہر چیزپر ٹیکس لیا جاتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ ٹیکس سرکار کے خزانے میں جمع نہیں ہو پاتا۔ اکثر کاروباری حضرات ٹیکس چوری کو اپنا منافع قرار دیتے ہیں اور جہاں تک ہو سکے ٹیکس چوری کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عوام خرید و فروخت پر دکانوں اور شاپنگ مالز پر ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن وِد ہولڈنگ ایجنٹس اس ٹیکس کا قلیل حصہ جمع کراتے ہیں اور بیشتر حصہ چوری کر لیا جاتا ہے۔ یو پی آئی سسٹم کے نفاذ سے ٹیکس چوری تقریباً ناممکن ہو جائے گی۔ جب کسٹمرز آن لائن ادائیگی کریں گے تو ٹیکس کی رقم براہِ راست حکومت کے اکائونٹ میں جمع ہو سکے گی اور مڈل مین کا کردار بیچ سے نکل جائے گا۔ عوام کو یقین دلایا جائے کہ ان کی معلومات حکومت کے پاس امانت ہے اور اگر انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا تو انہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔یہ وقت ایسے انقلابی اقدامات کرنے کا ہے جن سے عوام کا اعتماد بھی بحال ہو اور اس کے اثرات بھی لانگ ٹرم ہوں۔ وقتی دبائو ڈالنے سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا مشکل ہے۔
ملکی معیشت کو بہتر بنانے، کالے دھن کی روک تھام ، روپے کی قدر کو بہتر بنانے اور مختلف قسم کی ادائیگیوں کے لیے حکومت ڈیجیٹل کرنسی بھی متعارف کرا سکتی ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی کی قدر پاکستانی روپے کے برابر رکھی جائے‘ جیسے چین کی ڈیجیٹل کرنسی کا ایک یونٹ چینی یوآن کے برابر ہے اور اس کو سٹیٹ بینک کی مکمل حمایت حاصل ہو۔ یہ پیپر کرنسی کی طرح لیگل ٹینڈر یعنی حکومتی ضمانت کی بنیاد پر جاری ہو۔ آہستہ آہستہ اس کرنسی کو بڑھایا اور کاغذی نوٹوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس سے کاغذی نوٹ چھاپنے، ان کو مختلف شہروں اور دیہاتوں تک حفاظت سے پہنچانے پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی آسکتی ہے اور ساتھ ہی پرانے نوٹوں کو تلف کرنے کے عمل پر اُٹھنے والے اخراجات بھی کم ہوسکتے ہیں۔ ڈیجیٹل کرنسی نظام میں ہر ٹرانزیکشن کا ریکارڈ بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے، یوں مانیٹری پالیسی بہتر اور مؤثر طریقہ سے نافذ العمل عمل ہوسکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں