برآمدات میں کمی کے معاشی اثرات

متحدہ عرب امارات نے 10اکتوبر 2023ء سے پاکستان پر سمندر کے راستے گوشت درآمد کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے البتہ ہوائی راستے سے گوشت کی درآمد پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ اس شرط کے ساتھ کہ گوشت ویکیوم ماحول میں پیک کیا گیا ہو اور ذبیحہ کی تاریخ سے 60سے 120دن کی شیلف مدت رکھتا ہو۔ اس جزوی پابندی سے پاکستان کے مجموعی برآمدی اعداد و شمار کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان میں تقریباً 49کروڑ ٹن گوشت پیدا ہوتا ہے اور اس میں صرف 95ہزار 991ٹن یا کل پیداوار کا تقریباً 2فیصد برآمد ہوتا ہے۔ خلیج تعاون کونسل کی ریاستیں اور مشرقِ بعید کے کچھ ممالک بڑی مقدار میں پاکستانی گوشت درآمد کرتے ہیں جبکہ چین‘ مصر اور انڈونیشیا کو بھی چند ماہ قبل ہی پاکستانی گوشت کی برآمدات شروع کی گئی ہیں۔ پاکستان متحدہ عرب امارات کو سالانہ قریباً 14کروڑ 40لاکھ ڈالر مالیت کا گوشت برآمد کرتا ہے۔ اس پابندی سے پاکستان کے لیے گوشت کا برآمدی حجم مجموعی طور پر دو تہائی کم ہو سکتا ہے کیونکہ گوشت کی فضائی نقل وحمل بہت مہنگی ہے۔ پاکستان نے دوسرے ممالک کے مقابلے میں متحدہ عرب امارات میں اپنی برآمدات کی کسی قدر جگہ بنائی تھی لیکن اگر اب بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ ملک بھی ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ پاکستان کی ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اس پابندی کا ذمہ دار ایک شپنگ کمپنی کے ریفریجریشن سسٹم کو ٹھہرایا ہے۔ میٹ ایکسپورٹرز نے اُس شپنگ کمپنی پر ہرجانے کا دعویٰ بھی کر دیا ہے۔ فی الحال یہ کوئی مستقل پابندی نہیں ہے بلکہ متحدہ عرب امارات کے حکام نے اس وقت تک عارضی پابندی عائد کی ہے جب تک پاکستان برآمد کنندگان آئندہ گوشت کی ترسیل کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کی جانب سے تجویز کردہ پروٹوکول پر عمل کرنا شروع نہیں کر دیتا۔ اماراتی حکام کو جس کمپنی کے گوشت کی کھیپ میں فنگس کے نمونے ملے ہیں‘ اس نے گوشت کو محض کپڑے میں لپیٹ کر وہاں بھیجا تھا۔ افسوس ہے کہ ایک کمپنی کی طرف سے ایکسپورٹ کنسائنمنٹ بھیجتے وقت کی گئی لاپرواہی سے پورے ملک کی بدنامی ہوئی ہے۔ یہ کھیپ کراچی کی ایک کمپنی نے سمندری راستے سے بھیجی تھی۔ پوری کھیپ کو متحدہ عرب امارات کے حکام نے ضائع کر دیا ہے۔ پاکستانی سرکار متحدہ عرب امارات سے بہترین تعلقات کی دعویدار ہے لیکن کاروبار میں ذاتی تعلقات کی گنجائش ایک حد تک ہی ہوتی ہے۔ تجارت کا اصول پروفیشنل اپروچ ہے۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے یہ پابندی ایسے وقت میں لگائی گئی ہے جب پاکستان دعویٰ کر رہا ہے کہ متحدہ عرب امارات پاکستان میں 25ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ حکومت ایکسپورٹرز سے گوشت کی برآمد ات کے پروٹوکولز کی پابندی نہیں کروا پا رہی تو 25ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کیونکر حاصل کر سکے گی۔
پاکستان دنیا میں گوشت پیدا کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے اور گزشتہ دہائی کے دوران میں یہ گوشت کا ایک بڑا برآمد کنندہ ملک بھی بن گیا ہے اور خلیج تعاون کونسل کے ممالک کو گوشت کی مسابقتی برآمد سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ جنوری 2023ء میں پاکستان سے گائے کے گوشت کی برآمدی مالیت تین کروڑ 10لاکھ ڈالررہی تھی اور یہ 2022ء کے اسی عرصے کے دوران ریکارڈ کیے گئے دوکروڑ 40لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 29 فیصد زیادہ تھی۔ پاکستان میٹ ایکسپورٹ میں بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے لیکن یہ بہتری میٹ ایکسپورٹرز کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ سرکاری سطح پر اس شعبے کیلئے سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بحری جہاز سے ایکسپورٹ کے پروٹوکول کتنے کمزور ہیں‘ اس کا اندازہ تو عوام کو ہو ہی گیا ہے لیکن ہوائی جہاز سے ایکسپورٹ کرنے پر بھی شدید مسائل کا سامنا ہے جن کی نشاندہی کئی سالوں سے کی جا رہی ہے لیکن حکومت کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔ موجودہ نگران صوبائی وزیر برائے لائیو سٹاک نے بھی کئی مرتبہ میٹ ایکسپورٹرز کے مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے لیکن تاحال ان پر کوئی عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ مقامی سطح پر مناسب چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ اگر پاکستانی بندرگاہ پر بیرونِ ملک بھیجے جانے والے گوشت کو بین الاقوامی معیار کے مطابق چیک کر لیا جائے تو بہت سے مسائل بروقت حل ہو سکتے ہیں۔
گوشت کی پیداوار میں پانچویں نمبر پر ہونے کے باوجود پاکستان امریکا‘ یورپ اور بیشتر ایشیائی ممالک میں گوشت برآمد نہیں کر رہا جبکہ ہمسایہ ملک بھارت دنیا میں گوشت کا دوسرا بڑا ایکسپورٹر ہے۔ ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں حلال گوشت کی پیداوار پاکستان کی نسبت کم ہے جبکہ تھائی لینڈ دنیا کے حلال گوشت کا تقریباً 6فیصد مہیا کر رہا ہے۔ اگر بیف کی بات کی جائے تو بیف کی برآمدات میں برازیل دنیا کے تمام ممالک پر بازی لے گیا ہے۔ برازیل کے بعد بھارت‘ آسٹریلیا اور امریکا سر فہرست ہیں۔ پاکستان بیف کی برآمدات میں چودھویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان کی ستر فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور ان کی آمدنی کا زیادہ تر دارومدار زراعت اور لائیو سٹاک پر ہے۔ اس کے علاوہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں برآمدات سے منسلک سلاٹر ہاؤسز اپنی مکمل صلاحیت کے صرف چالیس فیصد پر کام کر رہے ہیں۔ ان تلخ حقائق کی سب سے بڑی وجہ حکومتی عدم دلچسپی اور غیر متوازن پالیسی رہی ہے۔ پاکستان کو اس وقت ڈالرز کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت اگر گوشت کی برآمدات کو بڑھانا چاہتی ہے تو اس کے لیے کچھ بنیادی اور ضروری فیصلے وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ گوشت کی برآمد کو سرکاری سطح پر صنعت کا درجہ دیا جائے۔ اینیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کی ری سٹرکچرنگ کی جائے اور اس کی صلاحیت بڑھائی جائے۔ گوشت کی برآمد کیلئے ہر آرڈر کے ساتھ کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کا سرٹیفکیٹ لازم ہے۔ پوری دنیا میں یہ سرٹیفکیٹ ایئر پورٹ پر ہی مل جاتا ہے۔ حکومتِ پاکستان کو بھی یہ سرٹیفکیٹ ایئر پورٹ پر باآسانی مہیا کرنے کا بندوبست کرنا چاہیے۔ پاکستان میں کورنٹائن سرٹیفکیٹ کی فیس لی جاتی ہے جبکہ بھارت میں اس کی کوئی فیس نہیں۔ یہاں بھی یہ فیس ختم ہونی چاہیے۔ پوری دنیا یہاں تک کہ بھارت کے ایئر پورٹس پر کولڈ سٹوریج کی سہولت موجود ہے جبکہ پاکستان کے ایئر پورٹس پر کولڈ سٹوریج کی کوئی سہولت میسر نہیں جس سے گوشت کے خراب ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایئر پورٹ پر کولڈ سٹوریج بنا کر حکومتِ پاکستان اس بڑے مسئلے کو با آسانی حل کر سکتی ہے جس سے برآمدات بھی بڑھیں گی اور ایکسپورٹرز کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی۔ اس کے علاوہ حکومت مویشی پالنے والوں کے مسائل سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی طرف توجہ دے تاکہ مویشی پال بھی خوشحال ہو سکیں اور اچھی نسل اور صحت مند جانوروں کی افزائش کو ترجیح بھی مل سکے جس سے گوشت کی برآمدات بڑھ سکتی ہیں۔
بیرونِ ملک گوشت کے مختلف قسم کے کٹ کی ڈیمانڈ ہے۔ پاکستان میں ٹیکنیکل ایجوکیشن انسٹی ٹیوشنز میں بین الاقوامی طریقے سے گوشت کی کٹنگ اور محفوظ کرنے کے حوالے سے طریقہ کار کو کورسز کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے حلال گوشت کے ماہر پاکستانی قصائیوں کو بیرونِ ملک روزگار میسر آ سکتا ہے۔ حکومتی سطح پر ملک بھر میں سیمینار منعقد کروائے جا سکتے ہیں۔ پاکستانی جانوروں کی نسلوں کو دنیا میں متعارف کرایا جا سکتا ہے۔ گوشت کی پیداوار بڑھانے کیلئے جوان گائیوں اور بھینسوں کی سلاٹرنگ پر مکمل پابندی ہونی چاہیے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے سخت سزائیں مقرر کرنی چاہئیں۔ صرف گوشت کی صنعت پاکستان کی دس نئی صنعتوں کو جنم دے سکتی ہے۔ جانور کی آنکھ سے لے کر دُم تک ہر چیز برآمد کی جا سکتی ہے۔ یورپ پاکستان سے جانوروں کی انتڑیاں بھی درآمد کر رہا ہے۔ حکومت کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ یہ شعبہ کتنی ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی جانب سے لائیو سٹاک میں دلچسپی بڑھنے کی اطلاعات ہیں۔ پچھلی حکومتوں کے منصوبے تو صرف کاغذوں کی زینت بنے رہے ہیں‘ اگر اب بھی اس شعبے کی ترقی میں دلچسپی لی جائے تو پاکستان کو بہت فائدہ ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں