سرکاری اخراجات میں اصراف اور ٹیکس کا پیسہ حکومتی عیاشیوں اور غیر ضروری منصوبوں پر خرچ کرنے کا مسئلہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ امریکہ میں بھی موجود ہے لیکن فرق یہ ہے کہ امریکہ میں عوام اور ان کے نمائندگان اس پر سنجیدگی سے کام کرتے ہیں، قابلِ عمل حل پر کام کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور شدید نقصانات کے باوجود آخری لمحے تک بجٹ پر بحث اور تنقید جاری رکھی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں سیاستدان، عوامی نمائندگان، بیوروکریٹس اور دیگر سرکاری ملازمین عوامی ٹیکس کو مالِ مفت کی طرح خرچ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ عوام اس پر آواز اٹھاتے رہتے ہیں لیکن عوامی نمائندے اس مدعے کو چنداں اہمیت نہیں دیتے۔ شاید اس لیے کہ وہ خود اس کے سب سے بڑے بینی فشری ہیں۔ چند روز قبل کچھ وڈیوز وائرل ہوئیں جن میں افسران کے بیٹے سرکاری گاڑیوں میں وڈیوز بناتے دکھائی دیے۔ یہاں سرکاری گاڑیوں کے استعمال پر کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ اس حوالے سے گلگت بلتستان حکومت کا اقدام حوصلہ افزا ہے۔ گلگت بلتستان کی سرکاری گاڑیوں پر لکھا گیا ہے کہ ''یہ گاڑی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے خریدی گئی ہے اور عوام اسکے مالک ہیں‘‘۔ پاکستان میں بھی اس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ملکی وسائل کے بے دریغ استعمال کو روکا جا سکے۔ علاوہ ازیں حکومتی بندش یعنی شٹ ڈائون کی روایت کو فروغ دینا ضروری ہے جیسا کہ امریکہ میں ہوتا ہے تا کہ عوامی پیسے کے استعمال اور منظوری کے حوالے سے عوام میں آگاہی پیدا کی جا سکے۔ اس اپروچ کے کچھ قلیل مدتی نقصانات بھی ہیں لیکن طویل مدت میں فوائد زیادہ ہیں۔امریکہ میں مالی سال کا اختتام ہونے والا ہے جبکہ ایوانِ نمائندگان میں اکثریت رکھنے والی ریپبلکن جماعت حکومتی اخراجات میں کمی پر اصرار کر رہی ہے۔ ایوانِ نمائندگان سے حکومتی اخراجات کی منظوری نہ ہونے کی صورت میں آئندہ ہفتے امریکی حکومت کو 'شٹ ڈائون‘ کا سامنا ہوسکتا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ امریکہ میں کاروبارِ حکومت اور عام لوگوں پر اس کیاثرات ہو سکتے ہیں۔
امریکہ میں 30 ستمبر کو مالی سال کا اختتام ہوتا ہے۔ اس سے قبل کانگریس کو حکومت کے 438 اداروں کے اخراجات مختص کرنا ہوتے ہیں۔ اگر قانون ساز ایوان نئے مالی سال کے آغاز سے قبل اخراجات کی منظوری نہیں دیتا تو یہ ادارے معمول کے مطابق کام جاری نہیں رکھ سکیں گے اور کئی اداروں کے ملازمین معطل ہوجائیں گے۔ اس صورتحال کو حکومت کی بندش یا ''شٹ ڈائون‘‘ کہا جاتا ہے۔ 1981ء سے لے کر اب تک امریکہ میں 14 بار گورنمٹ شٹ ڈائون ہو چکا ہے۔ کئی بار یہ محض ایک یا دو روز کے لیے ہوا۔ حالیہ برسوں میں طویل ترین شٹ ڈائون بارڈر سکیورٹی سے متعلق تنازع کی وجہ سے ہوا جو دسمبر 2018ء میں شروع ہوا اور 34 دن تک جاری رہنے کے بعد جنوری 2019ء میں ختم ہوا۔ کئی مرتبہ اخراجات کی منظوری پر جاری مذاکرات کے دوران سرکاری اداروں کی فنڈنگ کی مدت میں توسیع کر دی جاتی ہے تاکہ حتمی منظوری تک ادارے اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ ناگزیر کاموں سے منسلک اہلکاروں کو معطل نہیں کیا جاتا لیکن شٹ ڈائون ختم ہونے تک انہیں ادائیگیاں نہیں کی جاتیں۔ ٹیکس جمع کرنے والے اور ڈاک جیسے ضروری محکمے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ جو شٹ ڈائونز چند دنوں تک جاری رہے‘ ان کے اثرات عملاً بہت کم ہوتے ہیں۔ اسی طرح اختتامِ ہفتہ پر ہونے والے شٹ ڈائونز بھی معمولات پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے لیکن اگر دو ہفتے بعد بھی وفاقی ملازمین کو ادائیگیاں نہ ہوں تو اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر معیشت پر اثر پڑ سکتاہے۔ ایک اندازے کے مطابق شٹ ڈائون کے دوران امریکہ کی مجموعی پیداوار ہر ہفتے لگ بھگ 0.15 فیصد کم ہو جاتی ہے؛ تاہم شٹ ڈائون ختم ہوتے ہی جی ڈی پی میں اسی شرح سے اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔ 2018-19ء میں ہونے والے شٹ ڈائون کے نتیجے میں امریکی معیشت کو تین ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ ہر وفاقی ادارہ اور محکمہ اس کی پیشگی منصوبہ بندی کرتا ہے جس میں اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ ملازمین کو ادائیگیوں کے بغیر بھی کام جاری رکھنا ہو گا۔ 2018-19ء میں وفاقی حکومت کے 22 لاکھ ملازمین میں سے آٹھ لاکھ کو شٹ ڈائون کی وجہ سے عارضی طور پر معطل کیا گیا تھا۔ وائٹ ہائوس کے بجٹ آفس نے تاحال اس سال کے ممکنہ متاثرین کی تعداد بیان نہیں کی۔شٹ ڈائون میں عام طور پر فضائی آپریشنز متاثر نہیں ہوتے؛ تاہم 2018ء میں ہونے والے شٹ ڈائون میں ٹرانسپورٹیشن سکیورٹی ایڈمنسٹریشن نے انتباہ جاری کیا تھا کہ ایئر پورٹ سکیورٹی میں سکریننگ کرنے والوں کی جانب سے بیماری کی درخواستوں کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ موجودہ ممکنہ شٹ ڈائون میں ابھی تک یہ واضح نہیں کہ امریکہ کی وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام 63 نیشنل پارک کھلے رہیں گے یا نہیں۔ انٹرنل ریونیو سروس نے پچھلی بار ہونے والے شٹ ڈائون میں اپنے 90 فیصد عملے کو کام سے روک دیا تھا؛ تاہم حالیہ پلان میں تمام عملے کو ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔ فوج کے تمام اہلکار بھی اپنا کام جاری رکھیں گے؛ تاہم پنٹاگون میں کام کرنے والے چار لاکھ 29 ہزار سویلین اہلکار شٹ ڈائون کی صورت میں معطل ہو سکتے ہیں۔ جیسے پہلے بتایا کہ شٹ ڈائون وفاقی حکومت کے اخراجات کی کانگریس سے منظوری حاصل نہ کر پانے کی صورت میں ہوتا ہے۔ دوسری جانب کانگریس اخراجات کے لیے وفاقی حکومت کے قرضوں کی بالائی حد کا تعین بھی کرتی ہے جسے اب ہر کچھ عرصے بعد بڑھانا پڑ جاتا ہے۔ اگر کانگریس قرضوں کے بالائی حد میں اضافے کی منظوری نہ دے تو امریکہ کا محکمہ خزانہ قرضوں کی ادائیگی نہ کرپائے۔ عرفِ عام میں اس دیوالیہ کہا جاتا ہے۔ گورنمنٹ پر شٹ ڈائون کے مقابلے میں قرضوں کی بالائی حد بڑھانے کی عدم منظوری زیادہ گہرے اقتصادی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ بعض مرتبہ کانگریس قرضوں کی بالائی حد میں بہ آسانی اضافہ کردیتی ہے لیکن اکثر آخری لمحے تک اس پر بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے۔
اس وقت پاکستان مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے۔ ملک میں کئی ایسے منصوبے منظور کیے جا چکے ہیں جن سے جی ڈی پی میں اضافہ ممکن نہیں اور بظاہر یہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں کے ضیاع کے مترادف ہیں۔کابینہ کی کمیٹی برائے معاشی بحالی نے وزیر منصوبہ بندی سے کہا ہے کہ وہ 200 سے 250 ارب روپے کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے غیر ضروری پروجیکٹس بند کر دیں۔ ان کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ ایسے پروجیکٹس کی نشاندہی کریں جن سے معاشی شرحِ نمو میں اضافہ نہیں ہوتا یا ان کی زیادہ اہمیت نہیں۔ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے کہ مالی خسارہ کم کیا جا سکے۔ ایسے پروجیکٹس کو بھی ختم کرنے کی تجویز ہے جو ابھی شروع ہی نہیں کیے گئے۔ ان پروجیکٹس کو ختم نہیں کیا جائے گا جن پر اچھا خاصا کام ہو چکا ہے۔ گزشتہ حکومت کا بجٹ معاشی اعتبار سے غیر حقیقت پسندانہ تھا۔ اب ملک کی موجودہ معاشی صورتحال سے یہ لگ رہا ہے کہ حکومت واقعی ان کٹوتیوں پر کام کر رہی ہے تاکہ 950 ارب روپے کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ بجٹ سے زیادہ سے زیادہ بچت یقینی بنائی جا سکے۔ اسی حکومتی رویے کی وجہ سے مالی سال 2022ء اور 2023ء میں منظور ہونے والے ترقیاتی پروجیکٹس سست روی کا شکار ہیں جبکہ مالی سال سال 2024ء کے ترقیاتی پروجیکٹس کے حوالے سے ابھی تک پیسے ہی فراہم نہیں کیے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق مالی سال 2023ء یا اس سے پہلے کے 70 پروجیکٹس ہیں جبکہ مالی سال 2024ء کے 45 پروجیکٹس ہیں جن کے لیے پیسے نہیں دیے گئے۔ مالی سال 2024ء کے لیے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت مختلف وزارتوں کے تقریباً 38 پروجیکٹس منظور ہوئے تھے۔ اسی طرح دوسری وفاقی وزارتوں کے ترقیاتی پروجیکٹس کے لیے بھی خطیر رقم مختص کی گئی تھی۔ ملک کی معاشی صورتحال کے تناظر میں یہ وقت بچت کرنے اور آمدن بڑھانے کا ہے تا کہ آئی ایم ایف اہداف عوام پر بوجھ بڑھائے بغیر حاصل ہو سکیں۔