یورپی یونین نے پاکستان کیلئے جی ایس پی پلس سٹیٹس میں مزید چار سال کی توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔ جی ایس پی 1971ء سے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ یورپی یونین کے تجارتی معاہدے کا حصہ ہے۔ یہ پالیسی 60سے زیادہ ممالک کا احاطہ کرتی ہے۔ یورپی یونین نے جی ایس پی پلس قوانین کو 2027ء تک رول اوور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یورپی کونسل موجودہ سکیم کیلئے حتمی منظوری بھی جلد دے سکتی ہے۔ 2023ء کے اختتام پر فیصلے کے بجائے پہلے ہی توسیع کی تجویز دے دی گئی ہے۔ توسیع کا تعلق پاکستان کی کارکردگی یا کسی اور رکن ملک سے نہیں ہے۔ یورپی یونین کا فیصلہ صرف پاکستان کیلئے نہیں بلکہ وہ تمام ممالک جنہیں یہ سٹیٹس حاصل ہے‘ انہیں کسی معیار کی جانچ پڑتال کے بغیر توسیع دے دی گئی ہے۔ پاکستان کو یورپی یونین کی طرف سے دیے گئے 27کنونشنز میں کارکردگی دکھانا ہو گی۔ جی ایس پی پلس کی سہولت حاصل ہونے کے باعث پاکستان کی ایسی دو تہائی مصنوعات جن پر درآمدی ڈیوٹی لگنی ہوتی ہے‘ ان پر پورپی ممالک میں ڈیوٹی صفر ہے۔ تاہم اس کیلئے کچھ شرائط بھی ہیں جس کے تحت جی ایس پی پلس سٹیٹس کے حامل ملک کو انسانی حقوق‘ مزدوروں کے حقوق‘ ماحولیات کے تحفظ اور گورننس میں بہتری سمیت 27 بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق کرنا ہوتی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے بنیادی اصولوں کے تحت صنعتوں اور کارخانوں میں یونین سازی کو یقینی بنانا جبکہ جبری یا رضاکارانہ مشقت‘ چائلڈ لیبر‘ کام کی جگہ پر جنس‘ رنگ و نسل اور عقیدے کی بنیاد پر امتیازی طرزِ عمل کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ ان 27 کنونشنز کی خلاف ورزی کی صورت میں یورپی یونین پاکستان کو دی جانے والی اس سہولت پر نظرِ ثانی کی مجاز ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان معاملات پر یورپی یونین کی مانیٹرنگ اور اس کی رپورٹنگ کو بغیر کسی تحفظ کے اظہار کے ماننا پڑتا ہے اور اس سلسلے میں یورپی یونین کے ساتھ تعاون بھی ناگزیر ہے۔ پاکستان کو یورپی یونین کی طرف سے حاصل جی ایس پی پلس کی سہولت دسمبر 2023ء میں ختم ہو رہی تھی۔ پاکستان کو یہ سہولت برقرار رکھنے کا معاملہ رواں ماہ یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں جائے گا جہاں ممبر ممالک اس پر حتمی فیصلہ دیں گے۔ نگران وزیر تجارت کے مطابق پاکستان یورپی یونین کو کرائی جانے والی یقین دہانیوں پر پورا اترے گا۔ یونین نے سکیم کو مزید 10برس تک جاری رکھنے کیلئے نئی قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس معاملے پر یورپی یونین کونسل اور پارلیمنٹ کے درمیان تعطل موجود ہے۔ عارضی اقدام کے طور پر یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ موجودہ سکیم کی مدت میں چار برس کی توسیع کر دی جائے۔ اس تجویز کو اب یورپی یونین پارلیمنٹ میں ووٹنگ کیلئے پیش کیا جائے گا۔ مجوزہ سکیم میں ضرور توسیع کر دی جائے گی لیکن اس کی مدت کا حتمی فیصلہ یورپی قانون ساز کریں گے۔ اس وقت یورپی یونین کی طرف یہ سٹیٹس پاکستانی معیشت کیلئے بڑا ریلیف ہے۔ اس سکیم کے تحت پاکستانی تاجروں کو زیرو ریٹڈ اور کسی ٹیکس کے بغیر اپنی مصنوعات یورپی منڈیوں میں بھجوانے کا موقع ملتا ہے۔ اگر صرف جی ایس پی سٹیٹس ہو تو پاکستان کو ٹیکس ادا کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا سیکٹر ٹیکسٹائل ہے جس کی برآمدات 4500ملین ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ رواں سال یہ ختم ہونے جا رہا تھا تو پاکستانی ایکسپورٹرز پریشانی کا شکار تھے لیکن اب اس میں چار سالہ توسیع کے بعد ان تاجروں نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے۔ جائزہ رپورٹ سے حتمی صورتحال سامنے آ سکتی ہے۔ یہ ابھی کہنا مشکل ہے کہ کن شعبوں میں پاکستان کارکردگی نہیں دکھا سکا۔ پرفارمنس کے حوالے سے رپورٹس رواں ماہ آنی ہیں۔ اگر پاکستان نے تمام کنونشنز پر درست طریقے سے کارکردگی نہ دکھائی تو اسے آئندہ توسیع کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ماضی میں جی ایس پی پلس کے اکثر معاہدوں پر من و عن عمل نہیں ہو سکا لیکن امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں ان معاہدوں پر من و عن عملدرآمد ممکن ہو سکے۔ وزراتِ تجارت اس حوالے سے سنجیدہ کوششیں کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ یورپی یونین کے مطالبے وہی ہیں جو دین اسلام نے سکھائے ہیں۔ یہ اصول اگر ہمارے معاشرے میں پہلے سے ہی لاگو ہوتے تو یقینا پاکستان بھی ترقی یافتہ ممالک کے صف میں کھڑا ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے پالیسی ساز اگلے ہفتے مراکش میں سالانہ اجلاس کے موقع پر جمع ہوں گے تو قرض لینے والے ممالک جیسا کہ پاکستان اور مصر کے مالی معاملات بھی زیر بحث آئیں گے۔ سالانہ اجلاس میں 190ممالک کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے نمائندے ایک ہفتے کیلئے مراکش میں جمع ہوں گے اور عالمی معیشت کو درپیش خطرات کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا کے مطابق 2020ء سے لگاتار دھچکوں کے سبب عالمی پیداوار میں 37کھرب ڈالر کی کمی ہوئی ہے‘ حتیٰ کہ موجودہ شرح نمو بھی کورونا وبا سے پہلے کی سطح سے کافی نیچے ہے۔ ستمبر میں جے پی مارگن کی جانب سے سرمایہ کاروں کے سروے کے مطابق ارجنٹائن‘ پاکستان اور کینیا ان ممالک میں سرفہرست ہیں جنہیں ڈیفالٹ کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ فچ کے مطابق پاکستان ان تین ممالک میں شامل ہے جس کی اگلے برس تک سود کی ادائیگیوں میں 40 فیصد یا اس سے زیادہ آمدنی خرچ ہو گی۔ بلومبرگ کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایک سے دو ارب ڈالر کے درمیان منافع گزشتہ 18ماہ سے پاکستانی بینکوں میں پھنسا ہوا ہے۔ اگست میں چار کروڑ 70 لاکھ ڈالر کے اخراج سے کچھ بہتری آئی ہے لیکن رواں سال کے آغاز میں غیرملکی کمپنیاں پاکستان سے باہر جو فنڈز بھیجنا چاہتی تھیں‘ ان میں کمی ہوئی ہے۔ حکومت کو کوشش کرنی چاہیے کہ اس اجلاس سے پاکستانی معیشت کیلئے مثبت خبریں سامنے آئیں۔
کل دو دوست پاکستانی معیشت پر گفتگو کر رہے تھے۔ ایک سینئر بینکر ہے اور دوسرا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ۔ بینکر کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کی تیس دن کی کارکردگی منتخب حکومتوں کی پچھلے تیس سال کی کارکردگی پر بھاری ہے جبکہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کا دعویٰ تھا کہ یہ سب عارضی ہے۔ دونوں کے پاس اپنے اپنے دعووں کیلئے دلائل بھی موجود تھے۔ بینکر کے مطابق چینی‘ ڈالر‘ سونے کی قیمتوں میں اتنی کمی پہلے نہیں دیکھی گئی۔ سمگلنگ پر اس سطح کا کریک ڈاؤن بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ غیر قانونی غیر ملکیوں سے متعلق ایسے سخت فیصلے پہلے کبھی نہیں ہوئے‘ منی ایکسچینج کرنے والوں کے خلاف آپریشن سے مطلوبہ نتائج سامنے آئے ہیں اور ڈالر خودبخود نیچے جا رہا ہے جبکہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کا کہنا تھا کہ کموڈٹیز کی قیمتیں کم ہونا مثبت علامت ہے‘ لیکن یہ کب تک کم رہتی ہیں یہ اصل چیلنج ہے۔ مہنگائی کم نہیں ہو رہی جو کہ تشویش ناک ہے۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کا کہنا تھا کہ معیشت میں ایسا کونسا فارمولا ہے کہ ڈالر انٹر بینک میں پچھلے تیس دن سے روزانہ مستقل مزاجی سے تقریباً ایک روپیہ ہی گر رہا ہے۔ اگر ایکسچینج ریٹ آزاد ہوتا تو یہ زیادہ گرتا‘ یا کبھی زیادہ بڑھ جاتا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سٹیٹ بینک ڈالر کنٹرول کر رہا ہے۔ ایکسپورٹر ریٹ کم ہونے کے ڈر سے ڈالرز ملک میں لا رہے ہیں‘ عام آدمی بھی غیرضروری ڈالرز بیچ رہا ہے‘ امپورٹر ڈالر ریٹ مزید کم ہونے کے انتظار میں خرید نہیں رہے جو مجبوری میں امپورٹ کرنا بھی چاہ رہے ہیں بینک ان کی ایل سی نہیں کھول رہے۔ سٹیٹ بینک کو ہدایات ہیں کہ وہ کسی بھی حالت میں روزانہ تقریباً ایک روپیہ ڈالر کی قیمت گرائے۔ ایسے حالات میں ڈالر کی اصل قدر سامنے نہیں آ سکتی۔ سٹیٹ بینک صرف ایک دن ڈالر ریٹ نہ گرائے تو اگلے دن ان تمام کموڈٹیز کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو جائیں گی۔ گرتی اور چڑھتی ہوئی مارکیٹ کبھی حقیقی نہیں ہوتی۔ متوازن مارکیٹ ہی اصل ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت نے ایکسچینج ریٹ کے حوالے سے امریکا اور آئی ایم ایف کو بھی اعتماد میں لے لیا ہے۔ طالبان کے خلاف ہونیوالے آپریشن میں ملکی معیشت کی بہتری کے کچھ راز پوشیدہ ہیں۔ حسبِ معمول یہ گفتگو بغیر کسی نتیجے پر ختم ہوئی۔ فیصلہ آپ کریں کہ کس کا موقف زیادہ بہتر ہے۔