ای کامرس، آن لائن ڈرگز سمگلنگ اور ایکسچینج ریٹ

پاکستان میں آن لائن شاپنگ کا رجحان گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ہی فروغ پایا ہے اور اب بیشتر برانڈز اپنی مصنوعات انٹرنیٹ پر مشتہر کرنے کے بعد آن لائن سپلائی کردیتے ہیں۔ صارفین کو گھر بیٹھے ادائیگی کے بعد مطلوبہ چیز مل جاتی ہے اور آن لائن فروخت کرنے والی کمپنی کسی مہنگی جگہ پر اپنا کاروبار چلانے کے بجائے کورئیر کمپنیوں کے ذریعے اپنا مال صارفین تک بھجوا دیتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 'ای کامرس‘ نے خرید و فروخت کے روایتی طریقوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے اب صارفین گھر بیٹھے دنیا کے کسی بھی گوشے سے آن لائن خریداری کر سکتے ہیں۔ 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ای کامرس سیل کا تخمینہ تقریباً 5.7 ٹریلین ڈالر لگایا گیا جبکہ 2026ء تک اس سیل میں 1.8 ٹریلین اضافے کی توقع ہے۔ ایک کاروباری ایپلی کیشن کی 2023ء کی رپورٹ کے مطابق: دنیا میں اس وقت آن لائن شاپنگ کرنے والے افراد کی تعداد 2.64 ارب ہے۔ مطلب دنیا میں ہر تین میں سے ایک شخص آن لائن شاپنگ کرتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں آن لائن کاروبار کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں کووِڈ کے دوران جب بازار یا تو بند تھے یا پھر ان کے اوقات کار مختصر کر دیے گئے تھے‘ اس وقت عوام آن لائن خریداری کی جانب متوجہ ہوئے جس کے بعد سے لوگوں میں آن لائن خریداری کو پذیرائی ملی۔ اب پاکستان میں ای کامرس کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی ای کامرس انڈسٹری دنیا میں 50 ویں نمبر پر ہے جبکہ 2021ء میں اس انڈسٹری نے ملکی اکانومی میں چار ارب ڈالر کی شراکت داری کی تھی لیکن شاپنگ کے آن لائن طریقہ کار میں منشیات کب شامل ہوئیں اب اس بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔ ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس اطلاعات موصول ہورہی تھیں کہ ایک گروہ منشیات کی ترسیل کے لیے آن لائن شاپنگ پلیٹ فارمز استعمال کر رہا ہے، کیونکہ عمومی طور پر آن لائن شاپنگ کے پیکٹس کو کسی عام چیک پوسٹ پر چیک نہیں کیا جاتا۔ انٹیلی جنس کی بنیاد پر ایک مشہور آن لائن شاپنگ کمپنی کے پارسلز پر شک کے بعد بعض افراد کی ریکی شروع کی گئی جس دوران بعض ایسے پیکٹس ملے جن میں منشیات موجود تھیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں ایک ہی دن کارروائی کرتے ہوئے گیارہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد متعلقہ شاپنگ کمپنی کے مختلف دفاتر پر بھی چھاپے مارے گئے اور مختلف مقامات سے منشیات برآمد کی گئیں جو آن لائن شاپنگ کی آڑ میں سپلائی کی جارہی تھیں۔ طریقۂ واردات بھی ٹیکنیکل تھا۔ منشیات فروشوں نے باقاعدہ کمپنیاں رجسٹرڈ کروا رکھی تھیں‘ کپڑوں اور جوتوں سمیت دیگر سامان کی آڑ میں ایک عام پیکٹ میں آدھ کلو سے ایک کلو تک منشیات ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچائی جارہی تھیں۔ یہ کاروبار وسیع سطح پر ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ مبینہ طور پر منشیات کی سمگلنگ میں ملوث افراد کاتعلق ملک کے سبھی علاقوں سے ہے اور یہ نیٹ ورک ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ بڑے ای کامرس پلیٹ فارم کے ملازمین کا اس دھندے میں ملوث ہونا خارج از امکان نہیں۔ آنے والے دنوں میں مزید حقائق سامنے آ سکتے ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ دنیا میں آن لائن بزنس میں منشیات کا استعمال نیا نہیں۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں آن لائن بزنس کے نام پر منشیات کی سمگلنگ کئی سالوں سے جاری ہے۔ ان ممالک کی حکومتیں اس پر قابو پانے کی کوششیں بھی کر رہی ہیں لیکن ابھی تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ اس وقت آن لائن کاروبار اور کرپٹو کرنسی کے ذریعے ڈرگز سمگلنگ میں امریکہ کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ کا آن لائن ڈرگز مارکیٹ میں شیئر تقریباً 36 فیصد ہے، برطانیہ کا تقریباً 16 فیصد، آسٹریلیا کا لگ بھگ 11 فیصد اور نیدر لینڈز کا تقریباً 9 فیصد ہے۔ انتہائی سخت کنٹرولز کے باوجود آج بھی یہ دھندہ جاری ہے۔ پاکستان میں اس مسئلے نے اب سر اٹھایا ہے جبکہ امریکہ اور یورپ میں یہ مسئلہ کئی سال پرانا ہے۔ یورپین مانیٹرنگ سنٹر فار ڈرگز اینڈ ڈرگ ایڈکشن کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ 2016ء میں صرف یورپ میں ماہانہ آن لائن بزنس اور کرپٹو کے ذریعے ڈرگز سمگلنگ کی مارکیٹ تقریباً 2.3 ارب ڈالر تھی۔
جب بھی کوئی کاروبار بڑھتا ہے تو اس کے مثبت استعمال کے ساتھ منفی استعمال کا خدشہ بھی رہتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ منفی استعمال کے خدشے کے پیش نظر اس کاروبار کے مثبت پہلوئوں سے نظر ہٹا لی جائے۔ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں آن لائن قانونی اور جائز کاروبار کرنے والوں کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ عوام کو یقین دہانی کرائے کہ کسی بھی شخص یا کمپنی کو بلاوجہ ہراساں نہیں کیا جائے گا۔ اگر کسی نے کچھ غلط نہیں کیا تو اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آن لائن کاروبار میں منشیات کی سمگلنگ میں سب سے بڑا مسئلہ رقم کی ادائیگی کا ہوتا ہے جس میں کرپٹو کرنسی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں کرپٹو کرنسی کا استعمال عام ہے لیکن پاکستان میں اس کا استعمال غیر قانونی ہے؛ تاہم آن لائن بزنس میں اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ نئی نسل کم وقت میں اور آسان طریقوں سے پیسہ بنانے کے خواب دیکھتی ہے اور اس خواب کو جائز و ناجائز طریقوں سے پورا بھی کر رہی ہے جس میں کرپٹو کرنسی ایک بڑا ہتھیار ہے۔ اس حوالے سے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔
ڈالر ریٹ کم ہونے کا سلسلہ کامیابی سے جاری ہے، پٹرول، آٹا، چینی، دال، چکن، گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے۔ ٹرانسپورٹ کرایوں میں بھی کمی ہوئی ہے لیکن پچھلے تین دن سے مارکیٹ مختلف نظر آرہی ہے۔ پیر کے روز انٹربینک ڈالر کی قدر میں انتہائی معمولی کمی ہوئی جو نہ ہونے کے برابر تھی۔ منگل کے روز تقریباً سترہ پیسے کا اضافہ ہوا اور بدھ کے روز تقریباً دو روپے اضافہ ہوا۔ جب بینکوں سے پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ کچھ ادائیگیاں کرنی تھیں۔ کتنی ادائیگیاں اور کون سی ادائیگیاں‘ اس بارے میں کچھ معلومات نہیں ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ کوئی بڑی ادائیگی نہیں کرنا تھی۔ منی چینجر ز نے پچھلے ایک ماہ میں تقریباً پانچ سو ملین ڈالرز بینکوں کو دیے ہیں‘ اگر پچاس یا سو ملین ڈالرز کی ادائیگی ہو تو یہ بہ آسانی کی جا سکتی ہے۔ انٹر بینک میں ڈالر ریٹ بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کی اجازت سے ایسا ہو رہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں بینکوں نے فارن ایکسچینج سے ریکارڈ منافع کمایا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بینکوں کا ٹوٹل کیپٹل تقریباً 125 ارب روپے ہے اور ایک سال کا منافع ہی اس سے کہیں زیادہ ہے۔ زیادہ تر بینک بیرونی ممالک کے ہیں لہٰذا ان کی ملکی معیشت کو بہتر کرنے میں کیا دلچسپی ہو گی‘ یہ بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ حکومت نے منی چینجرز پر تو قابو پا لیا ہے لیکن بینکوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ اب بھی اربوں ڈالر بینکوں کے لاکرز میں ہیں جو تشویشناک امر ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بھارت بھی اب افغانستان میں ایکٹو ہو گیا ہے اور افغانستان میں ڈالر 305پاکستانی روپوں کا ہو گیا ہے۔ ڈالر ریٹ میں اس اچانک تبدیلی نے سٹہ بازوں کو ایک مرتبہ پھر ایکٹو کر دیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مافیاز کی جانب سے پہلے ڈالر ریٹ بڑھا کر پیسہ بنایا گیا، پھر ریٹ نیچے گرا کر پیسہ کمایا گیا اور اب دوبارہ ریٹ بڑھا کر پیسہ کمایا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو حالیہ کاوشوں کے حوالے سے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ نگران وزیر تجارت ڈالر ریٹ 250 روپے پر لانے کی بات کر رہے ہیں‘ مقتدر حلقوں کا بھی یہی پیغام ہے۔ اگر ڈالر کو ریورس گیئر لگا تو یہ تاثر ابھرے گا کہ ڈالر مافیا شاید ریاست سے بھی زیادہ مستحکم، منظم اور طاقتور ہے۔ منگل کو جب ڈالر ریٹ میں سترہ پیسے کا اضافہ ہوا تو میں نے متعلقہ حکام سے بات کی جس پر بتایا گیا کہ یہ سترہ پیسے کا معمولی اضافہ ہے‘ لہٰذا پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ بدھ کے روز جو اضافہ ہوا‘ اس بارے میں بھی حکام کو پیغام پہنچایا ہے، امید ہے کہ وہ اس معاملے کو پہلے کی طرح سنجیدگی سے لیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں