آئی ایم ایف کا وفد پاکستان کے موجودہ تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے پہلے جائزے سے متعلق بات چیت کے لیے دو نومبر کو پاکستان کا دورہ کرے گا۔ آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے اس دورے کی تصدیق کی ہے۔ 29 جون کو آئی ایم ایف اور پاکستان نے تین ارب ڈالر سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت 13 جولائی کو عالمی مالیاتی فنڈ سے پاکستان کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط موصول ہوئی تھی جبکہ اس جائزے کے بعد اب مزید 71 کروڑ ڈالر کی دوسری قسط جاری کی جا سکتی ہے۔ نو ماہ پر محیط تین ارب ڈالر کی فنڈنگ پاکستان کے لیے توقع سے زائد ہے کیونکہ 2019ء میں طے پانے والے 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے بقیہ ڈھائی ارب ڈالر کے اجرا کا انتظار کیا جا رہا تھا جس کی میعاد نئے معاہدے سے ایک ماہ قبل ہی ختم ہو گئی تھی۔ امکانات ہیں کہ آئی ایم ایف حکام کا یہ دورہ کامیاب رہے گا؛ البتہ ایکسچینج ریٹ پر کچھ اعتراضات ہو سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے جون 2024ء تک ڈالر کی قدر 340 روپے تک جانے کی پیش گوئی کی تھی جو موجودہ ریٹ سے 60 روپے زائد ہے۔ اس کی وجہ درآمدات پر کنٹرول ہے۔ اگر ایک سال قبل درآمدات پر سے کنٹرول ہٹا لیا جاتا تو اِس وقت ڈالر کی قیمت آئی ایم ایف کی پیشگوئی کے قریب ہو سکتی تھی۔ آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ درآمدات پر سے مکمل پابندی ہٹائی جائے جو موجودہ حالات میں معاشی خودکشی کے مترادف ہے۔ آج کل ڈالر کی قدر میں ایک بار پھر ضافہ جاری ہے؛ تاہم آئی ایم ایف کے دورے سے قبل ایکسچینج ریٹ میں اضافہ معمول کی بات ہے۔آئی ایم ایف کے دیگر مطالبات پر عمل درآمد کی قیمت پاکستانی عوام ادا کر رہے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں تو پہلے سے ہی تسلسل سے اضافہ جاری ہے جبکہ مہنگائی بھی عروج پر ہے اور اب نگران وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے گیس کی قیمتوں میں194 فیصد تک اضافے کی منظوری دے دی ہے جس کا اطلاق یکم نومبر سے ہوگا۔اس کے علاوہ صارفین ماہانہ فکسڈ چارجز کی مد میں 390 فیصد کا غیر معمولی اضافہ بھی دیکھیں گے۔گیس کی قیمتوں میں نظرثانی یکم جولائی 2022ء سے ہونا تھی؛ تاہم شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت نے اس فیصلے کو مؤخر کر کے اس معاملے کو نگران حکومت کے لیے چھوڑ دیا۔ اگر یہ اضافہ پچھلے سال ہی ہو جاتا تو اس وقت مہنگائی کی شرح چالیس فیصد سے زائد ہوتی۔ سوئی نادرن اور سوئی سدرن پہلے ہی جولائی تا ستمبر‘ 46 ارب روپے کا خسارہ رپورٹ کر چکی ہیں۔یہ خسارہ اس لیے نہیں کہ حکومت مہنگی گیس خرید کر عوام کو سستے داموں مہیا کر رہی ہے بلکہ خسارے کی بڑی وجہ گیس چوری اور ریکوری میں ناکامی ہے۔ یہ سراسر حکومتی نااہلی ہے جس کا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ حکمران اس کا ملبہ بھی آئی ایم ایف پر ڈالتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ آئی ایم ایف کا مطالبہ خسارہ کم کرنا ہے نہ کہ گیس کے ریٹ بڑھانا۔ انتظامی معاملات بہتر کر کے بھی خسارہ کم کیا جا سکتا ہے۔
گیس کے پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کُل گھریلو صارفین کا 57 فیصد ہیں‘ ان کے لیے ماہانہ فکسڈ چارجز 10 روپے سے بڑھا کر 400 روپے کر دیے گئے ہیں جس سے اس کیٹیگری کے صارفین کے بلز 150 فیصد تک بڑھ سکتے ہیں۔ دیگر گھریلو صارفین کے لیے دو مختلف سلیب ریٹس بنائے گئے ہیں، پہلی کیٹیگری میں 1.5 ایچ ایم 3 تک گیس استعمال کرنے والوں کے لیے فکسڈ چارجز 460 روپے سے بڑھا کر ایک ہزار روپے کیے گئے ہیں جبکہ دوسری کیٹیگری میں 1.5 ایچ ایم 3 سے زائد گیس استعمال کرنے والے صارفین کے چارجز 460 روپے سے بڑھا کر 2000 روپے کیے گئے ہیں۔دیگر گھریلو صارفین کے لیے بھی گیس کے نرخوں میں نمایاں اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔ سب سے نمایاں 173 فیصد کا اضافہ 3 ایچ سی ایم تک سلیب میں کیا گیا ہے جس کی قیمتیں 1100 روپے سے بڑھ کر 3 ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک پہنچ جائیں گی۔زیادہ گیس استعمال کرنے والوں کے لیے ایک چوتھائی اضافہ کر کے ٹیرف ایک ہزار 600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھا کر 2 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔کمرشل صارفین کے لیے 136 فیصد کے نمایاں اضافے کی منظوری دی گئی ہے جس کے بعد اس کی فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت 3900 روپے ہو گئی ہے، سیمنٹ فیکٹریوں اور سی این جی سٹیشنز کے لیے 193 فیصد اور 144 فیصد سے زیادہ اضافے کے بعد ان کے لیے ٹیرف 4400 روپے ہو جائے گا۔ اس سے مہنگائی کا نیا سونامی آئے گا۔ حکومت ایک طرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر رہی ہے، ڈالر ریٹ پر قابو پا لیا گیا ہے اور روزمرہ استعمال کی چند دیگر اشیا بھی سستی ہوئی ہیں؛ تاہم گیس کی قیمتوں میں اس ہوشربا اضافے نے عوام کے لیے ریلیف کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ پٹرولیم ڈویژن کے تخمینے کے مطابق ملک میں قدرتی گیس کے ذخائر ہر سال 5 سے 7 فیصد کم ہو رہے ہیں۔یہاں ضرورت مزید ذخائر تلاش کرنے کی ہے نہ کہ گیس کی قیمتیں بڑھانے کی۔
اگر بینائی لیوا انجکشن سکینڈل کی بات کریں تو اس نے کئی گھروں کی خوشیاں چھین لی ہیں۔ میں اس سکینڈل کا کرب اور تکلیف اس لیے بھی زیادہ محسوس کر سکتا ہوں کہ بدقسمتی سے میرے ایک عزیز بھی ان متاثرین میں شامل ہیں جن کی آنکھ مذکورہ انجکشن کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ تقریباً ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی اصل ذمہ داروں کو سزا نہیں دلائی جا سکی۔ یقینا ہر کاروبار کا بنیادی مقصد منافع کا حصول ہوتا ہے لیکن کوئی معاشرہ انسانی جانوں کے ساتھ کھیل کر منافع کمانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ انجکشن سکینڈل کی بڑی وجہ ناجائز منافع کمانے کا لالچ اور رشوت خوری کے علاوہ کچھ نہیں۔ زیادہ فائدے کے لیے انجکشن کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا جبکہ انجکشن فروخت کرنے والی کمپنی کے پاس لائسنس تک موجود نہیں، اس کے باوجود یہ غیر قانونی کمپنی نیٹ ورک آنکھوں کے ہسپتالوں کو انجکشن فروخت کرتا رہا۔لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں انجکشن کمپنی نے کچھ جگہ کرائے پر لے رکھی تھی جہاں بین الاقوامی کمپنی کا انجکشن خرید کر اسے چھ حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا اور الگ الگ خوارکیں بنا کر کمپنی غیر قانونی طور پر منافع کما رہی تھی۔کمپنی ڈرگ کنٹرول اتھارٹی سے بھی لائسنس یافتہ نہیں ہے جبکہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے مطابق ایک انجکشن کی الگ الگ خوارکیں فروخت نہیں کی جا سکتیں۔ خرابی انجکشن کی الگ الگ خوراکیں تیار کرنے ہی سے پیدا ہوئی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ایک غیر رجسٹرڈ ادارہ کینسر کے انجکشن بناتا رہا اور سرکاری مشینری نے کوئی ایکشن نہیں لیا؟ ایکشن نہ لینے کی ممکنہ وجوہات ڈھکی چھپی نہیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے افسران اس معاملے سے بے خبر ہوں۔ ایک دو چھوٹے آفیسرز یا تھرڈ پارٹی کو ذمہ دارٹھرا نا آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ اس دوا کو دو سے آٹھ ڈگری درجہ حرارت میں رکھا جاتا ہے اور یہ صرف کینسر ہسپتالوں اور کینسر کے اداروں کو فراہم کی جا سکتی ہے لیکن غیر رجسٹرڈ کلینکس اور عام ہسپتالوں میں بھی یہ آسانی سے دستیاب تھی اور ذرائع کے مطابق‘ پابندی کے باوجود یہ دوا آج بھی کلینکس اور ہسپتالوں میں بیچی جا رہی ہے۔ اس کی ذمہ داری ان ہسپتالوں اور کلینکس پر بھی عائد ہوتی ہے جو اس کی فروخت میں ملوث ہیں اور یہ سب کچھ ہیلتھ کئیر کمیشن کے دائرۂ کار میں آتا ہے۔ بدقسمتی سے اس میگا سکینڈل میں نگران حکومت کی توجہ اصل ذمہ داران سے ہٹائی جا رہی ہے اور تمام فوکس ان اداروں اور افراد کی طرف کر دیا گیا ہے جو کمزور ہیں یا جن کا اس معاملے سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ نگران صوبائی وزیر صحت کے سامنے میں نے خدمت خلق کا جب بھی کوئی معاملہ رکھا‘ انہوں نے اس پر فوری ردعمل دیا اور مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ امید ہے کہ وہ انجکشن سیکنڈل کی بھی جامع تحقیقات کرائیں گے تاکہ میگا کرپشن کا یہ نیٹ ورک بے نقاب ہو سکے اور اصل ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔ اس حوالے سے میں خود بھی تحقیقات اور معلومات کی فراہمی میں حکومت کی مدد کے لیے ہمہ وقت حاضرہوں۔