آئی ایم ایف اور ریکوڈک کے معیشت پر اثرات

دورۂ پاکستان پر آئے آئی ایم ایف مشن سے حکومت کے مذاکرات کے بعد مثبت خبروں کی توقع ہے۔ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں‘ جس کی روشن امید ہے‘ تو آئی ایم ایف مشن جولائی میں 9 ماہ کے لیے دستخط کیے گئے 3 ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت پہلی سہ ماہی کے جائزے کے کامیاب اختتام کی منظوری کے لیے پاکستان کا کیس ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے رکھے گا، اِس سے پاکستان کو اگلے ماہ کے اوائل میں 71 کروڑ ڈالر کی دوسری قسط موصول ہو پائے گی۔ ٹیکس بیس کی توسیع اور اس کے معیار پر تنقیدی نظر رکھنے پر آئی ایم ایف مشن متاثر ہوا اور کہا کہ حکومت اور ایف بی آر کے پاس ٹیکس ریٹرن فائلرز کی تعداد میں اضافے کے حوالے سے مضبوط منصوبے موجود ہیں، زیرو ٹیکس ریٹرن فائلرز کی صورت میں ایک بڑا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے؛ تاہم آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ ریونیو بیس کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکس ریٹرن فائلرز کی تعداد بڑھانے کے بجائے ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے پر توجہ دی جائے۔ آئی ایم ایف نے اس مرحلے پر کسی نئے ٹیکس یا ٹیکس کی شرح میں اضافے کا مطالبہ نہیں کیا لیکن فکسڈ ٹیکس سکیم کے ذریعے ٹیکس نیٹ کو ریٹیلرز تک وسعت دینے کی بات ضرور کی ہے جس کے بعد رئیل اسٹیٹ ٹیکسیشن آئندہ ایجنڈے میں زیرِ غور آ سکتی ہے۔ منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات اور تجارت پر مبنی منی لانڈرنگ سے متعلق قانونی فریم ورک میں بہتری پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی جس پر بظاہر عالمی مالیاتی ادارہ مطمئن دکھائی دے رہا ہے۔
سرحد پار سمگلنگ اور سٹہ بازی کے خلاف انتظامی اقدامات نے روپے کی حقیقی قدر جاننے میں بہت مدد کی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ شرحِ تبادلہ میں کوئی مداخلت نہیں کی گئی۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید آئی ایم ایف کو اس بیان پر یقین نہیں‘ اس لیے کچھ دوست ممالک سے رابطہ کر کے قرضوں کی ادائیگی سے متعلق گارنٹی کی تصدیق کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف مشن نے اسلام آباد میں ایک دوست ملک کے سفارتخانے سے مالی اعانت کے وعدے بارے بات چیت کی جس نے انہیں یقین دہانی کرا دی، اسی طرح چند دیگر ممالک کے ساتھ بھی رابطہ کیا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ دوست ممالک کی جانب سے مالی اعانت کے وعدے برقرار ہیں اور عالمی اداروں مثلاً عالمی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور خود آئی ایم ایف کی جانب سے بھی فنڈز کے اجرا کی یقین دہانیاں موجود ہیں؛تاہم ذرائع نے نشاندہی کی ہے کہ بدلتے عالمی اقتصادی حالات اور مالیاتی منڈیوں میں بے یقینی کے پیشِ نظر رواں مالی سال کے دوران تقریباً 5 ارب ڈالر مالیت کے تجارتی قرضے اور تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کے طے شدہ بانڈز کے حوالے سے غیر یقینی حالات جنم لے سکتے ہیں، حتیٰ کہ اگر فنڈز دستیاب ہو جاتے ہیں تو بھی فنانسنگ کے اخراجات کا چیلنج موجود رہے گا۔
آئی ایم ایف مشن نے ایس آئی ایف سی کے قیام کی ضرورت کے حوالے سے استفسار کیا کہ اس کا قیام ملکی اثاثوں کی فروخت پر بھی اثرانداز ہو گا؟یاد رہے کہ پی ڈی ایم کے دورِ حکومت میں 17 جون کو باضابطہ طور پر خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں نو وفاقی وزرا کے علاوہ عسکری قیادت کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ یہ فورم خلیجی ممالک سے زراعت، معدنیات، دفاع، توانائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا۔ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے سرمایہ کاروں کے ساتھ ترجیحی رویہ نہ اپنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان معاملات میں شفافیت اور احتساب سب سے اوپر ہونا چاہیے۔ آئی ایم ایف نے کونسل کے اختیارات کے بارے بھی استفسار کیا جس پر بتایا گیا کہ یہ ادارہ لین دین میں تمام تر امور میں شفافیت یقینی بنائے گا جبکہ دفاعی اور عسکری اداروں کی شمولیت سرمایہ کاروں کی سکیورٹی یقینی بنانے کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ بلاشبہ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد اس وقت ملک کے مفاد میں ہے۔ امرا پر مزید ٹیکس لگانے کی آئی ایم ایف کی تجویز پر عملدرآمد میں اب مزید کوئی پیچیدگی یا تاخیر نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ عوام پہلے ہی آئی ایم ایف پروگرام کا مکمل بوجھ اٹھا رہے ہیں اور اب یہاں سے معاملات صرف آسانی کی طرف جانے چاہئیں۔ ماضی میں مسئلہ ایڈجسٹمنٹ میں تاخیر یا جزوی نفاذ کی وجہ سے تھا، آئی ایم ایف کی ٹیم ایس آئی ایف سی کے حوالے سے بریفنگ سے بھی مطمئن دکھائی دیتی ہے۔
سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے کے تحت چار اہم شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستان کو کلائمیٹ ریزیلینٹ منصوبوں پر کام کرنے ضرورت ہے کیونکہ شدید موسمی صورتحال اور قدرتی آفات کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے ''کلائمیٹ پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ اسیسمنٹ‘‘ (سی پی آئی ایم اے) اور پی آئی ایم اے ایکشن پلان کو اپنانا رواں برس کے آخر تک حاصل کیے جانے والے تین سٹرکچرل بینچ مارک میں سے ایک ہے۔ نیشنل کلائمیٹ انویسٹمنٹ منصوبے کے سی پی آئی ایم اے سے ہم آہنگ نہ ہونے کی صورت میں انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ اور کلائمیٹ فنڈنگ کی پاکستان آمد میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔ حکومت نے جولائی میں آئی ایم ایف کے ساتھ عہد کیا تھا کہ 2024ء کے وسط تک موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے کلائمیٹ چینج کے مطابق نیشنل اڈاپٹیشن پلان (این اے پی) کو حتمی شکل دی جائے گی تاکہ کلائمیٹ ریزیلینٹ کی ترجیحات کی نشاندہی کی جا سکے۔ عالمی بینک کی 2023ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 2023ء سے 2030ء کے درمیان مرحلہ وار ریزیلینس حاصل کرنے کے لیے تقریباً 348 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ یہ سرمایہ کاری گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کم کرنے، پاکستان کی ترقی اور عوام کی بہبود کو یقینی بنانے کے لیے نہایت اہم ہے۔ یہ عمل پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پالیسیوں کے عزم کو ظاہر کرتا ہے اور یہ نیشنل اڈاپٹیشن پالیسی سے ہم آہنگ ہے جو خوش آئند ہے کیونکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں سر فہرست ہے۔ یہ ایک طرف آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے ضروری ہے اور دوسری طرف مستقبل میں سیلابی اور آفاتی صورتحال سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔
سعودی عرب نے ریکوڈک کے سونے اور تانبے کے ذخائر میں حکومتی حصص حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور اس معاہدے میں کامیابی کی بدولت معاشی بحران سے دوچار پاکستان کو کافی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ ریکوڈک میں 50 فیصد حصص کی مالک بیرک گولڈ کارپوریشن اس کان کو دنیا کے سب سے کم توجہ دیے جانے والے تانبے اور سونے کے ذخائر میں سے ایک قرار دیتی ہے۔ پاکستان اس سال کے اوائل میں عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) سے 3 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی بدولت ڈیفالٹ سے بچنے میں کامیاب رہا لیکن اس معاہدے کا انحصار براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری لانے پر تھا تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے جا سکیں۔ پاکستان نے ریکوڈک میں اپنے حصص کی تشخیص کے لیے ایک بین الاقوامی مشیر مقرر کیا ہے اور توقع ہے کہ یہ عمل 25 دسمبر سے پہلے مکمل ہو جائے گا جس کے بعد ان کی فروخت سے متعلق بات چیت شروع ہو گی۔ ریکوڈک کے 50 فیصد بیرک گولڈ اور 50 فیصد حصص وفاق اور حکومت بلوچستان کے پاس ہیں۔ پہلے کہا گیا تھا کہ بیرک گولڈ اس منصوبے میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی؛ تاہم اگست میں بیرک گولڈ نے اعلان کیا کہ وہ سعودی عرب کو اس منصوبے میں شراکت دار بنانے پر تیار ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر دوست ممالک مختلف شعبوں میں تقریباً 70 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ کسی قسم کی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے اور نہ ہی اثاثوں کو نقصان پر فروخت کیا جائے بلکہ قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ میں نے اپنے متعدد کالموں میں سعودی عرب کی ریکوڈک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے دلچسپی کی بات کی تھی‘ وہ تمام خبریں آج درست ثابت ہو رہی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں