نگران وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کہا ہے کہ اگلے تین برسوں میں پاکستان کی آئی ٹی برآمدات دس ارب ڈالرز سالانہ تک پہنچ جائیں گی لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کیسے ہو گا۔ اس وقت پاکستان کی سالانہ آئی ٹی برآمدات دو ارب 60 کروڑ ڈالرز ہیں۔ اگر اگلے تین سال میں اسے دس ارب ڈالرز تک لے جانا ہے تو ہر سال برآمدات میں تقریباً دو ارب 44 کروڑ ڈالرز اضافہ کرنا ہو گا۔ پچھلے تیس برسوں میں پاکستان آئی ٹی برآمدات کا حجم صرف دو ارب 60کروڑ ڈالرز تک پہنچا سکا ہے۔ اب ایک سال میں تقریباً دو ارب 44کروڑ ڈالرز کیسے کمائے جا سکیں گے۔ سرکار نے پچھلے سال کہا تھا کہ برآمدات کے 35فیصد تک ڈالرز برآمد کنندگان اپنے اکاؤنٹ میں رکھ اور باہر بھیجے جا سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب سٹیٹ بینک سے اس بارے معلومات لی گئیں تو پتہ چلا کہ ابھی تک ایسا کوئی سافٹ وئیر نہیں بنایا جا سکا ہے جس میں سٹیٹ بینک کی مداخلت کے بغیر آزادانہ طریقے سے آئی ٹی سیکٹر بیرونِ ملک کسٹمرز کیساتھ باآسانی لین دین کر سکتا ہے۔ وزیر آئی ٹی برآمدات میں اضافے کا دعویٰ تو کر رہے ہیں لیکن پتہ نہیں اسے عملی جامہ کیسے پہنائیں گے۔ ملک کا سب سے بڑا فری لانسر کل مجھے بتا رہا تھا کہ میں کئی روز سے وزیر آئی ٹی سے رابطے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن کامیاب نہیں ہو سکا۔ اگر فری لانسرز کے سب سے بڑے نمائندے کی یہ صورتحال ہے تو عام فری لانسر کی آواز حکومت تک کیسے پہنچے گی اور قابلِ عمل پالیسیز کیسے بن سکتی ہیں۔ عوام ان زمینی حقائق سے خوب آگاہ ہیں‘ شاید اسی لیے وہ ایسے دعووں کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے۔
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس آئی ٹی شعبے میں بہترین ٹیلنٹ موجود ہے اور دورِ جدید میں یہ واحد شعبہ ہے جو پاکستان کو ڈالرز کے بحران سے نکال سکتا ہے۔ پاکستان فری لانسنگ میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ نجی شعبے نے یہ نتائج اپنی مدد آپ کے تحت حاصل کیے ہیں‘ اس میں سرکار نے کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔ نگران حکومت کے پاس صرف تین ماہ باقی ہیں جبکہ وزیر صاحب اگلے تین سال کی منصوبہ بندی بنائے بیٹھے ہیں۔اس کے بجائے اگر وہ یہ طے کر لیں کہ وہ اگلے تین ماہ میں آئی ٹی سیکٹر کو درپیش مشکلات کیسے ختم کر سکتے ہیں تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ کچھ مسائل ایسے ہیں جو ایک جنبشِ قلم سے حل ہو سکتے ہیں اور ان سے ملک میں اربوں ڈالرز باآسانی آسکتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا کام یہ ہو سکتا ہے کہ آئی ٹی کمپنیوں کو ڈالرز میں بیرونِ ملک ادائیگی کی اجازت دی جائے۔ یہ عمل کئی ہفتوں اور مہینوں کے بجائے چند سیکنڈز میں مکمل ہونا چاہیے اوراس کیلئے پنجاب آئی ٹی بورڈ سٹیٹ بینک کیساتھ مل کر ایک ماہ میں قابلِ عمل حل دے سکتا ہے۔ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی اصل آئی ٹی برآمدات پانچ ارب ڈالرز ہیں۔ آدھے سے زیادہ ڈالرز سافٹ وئیر ہاؤسز اور فری لانسرز بیرونِ ملک ہی رکھ لیتے ہیں کیونکہ انہیں انٹرنیشنل ادائیگیاں کرنا ہوتی ہیں۔ اگر وہ ڈالرز پاکستان لے آئیں تو بیرونی ادائیگیاں بہت مشکل ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کی 60فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر انہیں آئی ٹی کے شعبے میں معیاری اور عالمی سطح کی ٹریننگ دی جائے تو پاکستان آئی ٹی سیکٹر میں دس ارب ڈالرز تک برآمدات بڑھا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دس ارب ڈالرز کے ہدف کو حاصل کرنے کیلئے کم از کم دو لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی شعبے میں آسان ٹریننگ مہیا کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں پیچیدہ ٹیکس نظام بھی آئی ٹی برآمدات بڑھانے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ آئی ٹی شعبے کیلئے فکسڈ ٹیکس متعارف کروا کر اور اسے قابلِ عمل بنا کر اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ٹیک ایمرجنسی سے یہ صورتحال بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ آئی ٹی واحد شعبہ ہے جس میں برآمدات بڑھانے کیلئے کچھ درآمد کرنے کی ضرورت نہیں۔ ماضی میں ٹیکسٹائل ایمرجنسی لگانے سے ملک کو فائدہ ہوا تھا۔ ٹیک ایمرجنسی نافذ کرنے سے کروڑوں بے روزگار نوجوان آن لائن سروسز مہیا کرکے باآسانی ڈالرز کما سکتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً تیس لاکھ فری لانسرز کام کر رہے ہیں جو سالانہ تقریباً چالیس کروڑ ڈالرز سے زیادہ زرِمبادلہ پاکستان لاتے ہیں لیکن یہ اعداد و شمار حتمی نہیں ہیں۔ اس کیلئے ریسرچ کی ضرورت ہے اور پاکستان میں کوئی ادارہ ریسرچ کیلئے فنڈز دینے کو تیار نہیں۔ پاکستان فری لانسرز ایسوسی ایشن کی جانب سے ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ پاکستان میں فری لانسرز کی اصل تعداد معلوم کرنے کیلئے ریسرچ کروائے۔ امید ہے کہ جلد حقیقی تعداد معلوم ہو سکے گی۔ المیہ یہ ہے کہ ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ طلبہ کی اکثریت یہ جانتی ہی نہیں کہ فری لانسنگ کیا ہے۔ حکومت نے محدود پیمانے پر فری لانسرز کو ٹریننگ ضرور دی ہے لیکن ان میں سے کتنے بچے ڈالرز کمانے کے قابل ہوئے‘ اس بارے میں کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں۔ پاکستان کے فری لانسرز بہترین کانٹینٹ بنا رہے ہیں لیکن انہیں ان کی محنت کے مطابق معاوضہ نہیں مل رہا۔ فیس بک ڈالرز کمانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے لیکن پاکستان میں یہ پلیٹ فارم موناٹائز نہیں ہے۔ پاکستانیوں کو مجبوراً دبئی‘ یو کے‘ امریکہ اور یورپ میں اکاؤنٹس کھلوانا پڑتے ہیں۔ اگر یہ لوگ کسی ذریعے سے ڈالرز پاکستان لے آئیں تو یہاں سے بیرونِ ملک ادائیگی کرنے میں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک میں ڈالرز لا کر خود کو مصیبت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ حکومت کو ان مسائل کو سمجھنا چاہیے اور جو فری لانسرز ڈالر پاکستان لا رہے ہیں‘ انہیں کم از کم اتنے ہی ڈالرز بیرونِ ملک بھجوانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ حکومتی عدم دلچسپی کی وجہ سے اکثر فری لانسرز چند لاکھ روپے میں دبئی کا دو سال کا ویزا لیتے ہیں اور دبئی میں بینک اکاؤنٹس کھلوا لیتے ہیں اور فری لانسنگ کی آمدن اُن اکاؤنٹس میں منگواتے رہتے ہیں۔ انہی اکاؤنٹس سے کرپٹو کرنسی پلیٹ فارمز سے ڈالرز خریدتے ہیں اور پھر وہیں پر ڈالرز بیچ کر پاکستانی بینک اکاؤنٹس میں کیش منگواتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایف بی آر اور دیگر اداروں کی پوچھ گچھ کی وجہ سے اکثر فری لانسرز اپنے رشتہ داروں کے اکاؤنٹس میں فیملی ریمیٹنس منگوا لیتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی چیک اینڈ بیلنس رکھنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں فری لانسرز کی تعداد بڑھ رہی ہے اور حکومت مزید دو لاکھ آئی ٹی ماہر بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی تعداد میں ماہرین صاحب روزگار کیسے ہوں گے؟ وفاقی وزیر آئی ٹی کا کہنا ہے کہ وہ مزید دس ہزار فری لانسنگ سینٹرز قائم کریں گے‘ یہ مثبت قدم ہے لیکن یہ سب کب اور کیسے ہو گا‘ اس بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ پاکستانی فری لانسرز کو فری لانسنگ کے حوالے سے مزید تربیت دی جانے کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں تقریباً سات کروڑ لوگ فری لانسنگ سے جڑے ہیں جن میں سے تقریباً پانچ کروڑ ان پلیٹ فارمز کو استعمال نہیں کرتے جنہیں پاکستانی استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ دیگر تکنیک کے ذریعے کاروبار بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان کو اپنا ذاتی فری لانسنگ پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت فری لانسرز اور آئی ٹی ماہرین سے مشاورت کر سکتی ہے تا کہ قابلِ عمل اور دیر پا پالیسیز بنائی جا سکیں۔ پاکستان میں فری لانسنگ کو انڈسٹری کا درجہ دیا جانا چاہیے۔ فری لانسرز کے پاس کوئی حکومتی پلیٹ فارم ایسا نہیں جہاں جا کر وہ اپنے مسائل بتا سکیں۔ سرکاری سطح پر اس حقیقت کو تسلیم کیے جانے کی ضرورت ہے کہ فری لانسر ساری عمر فری لانسنگ نہیں کر سکتے انہیں سٹارٹ اپس کی ضرورت ہے۔ یہ ڈالرز کمانے کا دیر پا اور مضبوط ذریعہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سٹارٹ اپس کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ مالی معاملات ہیں۔ پچھلے چند ماہ میں نئے سٹارٹ اپس شروع ہونے کے بجائے بہت سے سٹارٹ اپس بند ہوئے ہیں۔ حکومت فری لانسرز کو سستے قرض دے کر سٹارٹ اپس میں اضافہ کر سکتی ہے۔ سپیشل ٹیکنالوجی زون کے قانون میں سو فیصد ڈالرز ملک میں رکھنے اور باہر بھیجنے کی اجازت ہے۔ اگر حکومت آئی ٹی انڈسٹری کو سہولتیں فراہم کرے اور اس شعبے کو دس سال کیلئے کھلا چھوڑ دے تو اس شعبے کیلئے سالانہ دس پندرہ ارب ڈالرز لانا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اس کیلئے دیر پا اور مستقل پالیسی کی ضرورت ہے۔