غلط فیصلوں کے معاشی اثرات

''گھر کی مرغی دال برابر‘‘ ایک ایسا محاورہ ہے جو ملک میں عام استعمال کیا جاتا ہے اور شاید اس کا سب سے زیادہ اطلاق بھی پاکستانیوں پر ہی ہوتا ہے۔ اگر کوئی پاکستانی دانشور یا ماہرِ معیشت حکومت کو کوئی مشورہ دیں تو اسے قابلِ غور نہیں سمجھا جاتا لیکن اگر وہی مشورہ آئی ایم ایف یا کوئی اور بیرونی ادارہ دے تو اس پر آنکھیں بند کرکے فوراً عمل کر لیا جاتا ہے۔ آج کل آئی ایم ایف جو مطالبات پاکستان سے منوا رہا ہے‘ وہ تمام تجاویز ان صفحات پر کئی مرتبہ پیش کی جا چکی ہیں لیکن سرکار شاید آئی ایم ایف کی منتظر تھی۔
آئی ایم ایف سے کیے وعدوں کے مطابق صدرِ مملکت نے چار حکومتی اداروں کی تنظیمِ نو کیلئے ترمیمی آرڈیننس جاری کردیے ہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (ترامیم) آرڈیننس 2023ء‘ پاکستان پوسٹل سروس مینجمنٹ بورڈ (ترامیم) آرڈیننس 2023ء‘ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (ترامیم) آرڈیننس 2023ء‘ پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن (ترامیم) آرڈیننس 2023ء متعلقہ سیکریٹریز کی جانب سے صدرِ مملکت کو اس معاملے پر بریفنگ کے بعد جاری کر دیے گئے ہیں۔ ترامیم کے بعد این ایچ اے‘ پاکستان پوسٹ‘ پی این ایس سی اور پی بی سی کے چیئرپرسن اور چیف ایگزیکٹیو کے عہدوں کو الگ کردیا جائے گا اور آزاد اراکین کو بھی ان کے بورڈ میں شامل کیا جائے گا۔ یہ ترامیم ان اداروں کو رواں برس جنوری میں جاری ہونے والے سٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز (گورننس اینڈ آپریشنز) ایکٹ 2023ء کے تحت لانے کیلئے کی گئی ہیں۔ یہ ترامیم حکومتِ پاکستان اور عالمی شراکت داروں کے درمیان طے کیے گئے ریاستی ملکیتی اداروں میں اصلاحات کا حصہ ہیں اور یہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے سٹینڈ بائی معاہدے میں بطور سٹرکچرل بینچ مارک شامل ہیں۔ مجموعی طور پر ریاستی ملکیتی اداروں کے قوانین میں ترامیم بہتر گورننس‘ سہولیات کی فراہمی اور عوام کو جوابدہی کا باعث بنیں گی۔ رواں برس آئی ایم ایف اور پاکستان نے عملے کی سطح پر تین ارب ڈالر کا سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ کیا تھا۔ معاہدے کے تحت رواں برس 13جولائی کو عالمی مالیاتی فنڈ سے پاکستان کو ایک ارب 20کروڑ ڈالر کی پہلی قسط موصول ہو گئی تھی۔ گزشتہ ماہ عالمی مالیاتی فنڈ نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ پہلے جائزے میں عملے کی سطح پر معاہدہ طے پا گیا ہے اور ایگزیکٹیو بورڈ کی منظوری سے 70کروڑ ڈالر جاری کر دیے جائیں گے۔
پاکستان کے معاشی نظام میں اس وقت جو ہو رہا ہے‘ وہ سب آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہے۔ کافی حد تک یہ درست بھی دکھائی دے رہا ہے لیکن ایسا کب تک رہے گا‘ اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر کچھ شرائط فائدے کا سبب بنتی ہیں تو ان کے کچھ نقصانات بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ مہنگائی میں اضافہ۔ گیس کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کے سبب نومبر میں سالانہ بنیادوں پر مجموعی مہنگائی ایک بار پھر بڑھ کر 29فیصد سے زائد ہو چکی ہے۔ شہری صارفین کے لیے نومبر میں سال بہ سال گیس کی قیمت 520فیصد اور بجلی کی قیمت 34.95فیصد تک بڑھ گئی جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ اکتوبر کے مقابلے میں نومبر میں ماہانہ بنیادوں پر بھی مہنگائی 2.7فیصد بڑھی‘ جس کی اہم وجہ گیس کی قیمتوں میں 194فیصد تک اضافہ تھا۔ حالیہ اعداد و شمار کے بعد جولائی تا نومبر کے دوران اوسط سالانہ مہنگائی کی شرح 28.62 فیصد تک جا پہنچی ہے جبکہ سٹیٹ بینک نے رواں مالی سال اس کی شرح 20سے 22فیصد رہنے کی پیش گوئی کی تھی جبکہ آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کے دوران اوسط مہنگائی 25.9فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی ہے جو گزشتہ مالی سال میں 29.6فیصد رہی تھی۔ وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں زیادہ سے زیادہ مہنگائی کا تخمینہ 21فیصد لگایا تھا۔ کنزیومر پرائس انڈیکس کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 2022ء کے وسط سے روز افزوں ہے جب پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر سخت اقدامات کرنا شروع کیے تھے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس کو 12بڑے گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ زور جلد خراب ہونے والی اشیائے خورو نوش اور رہائش‘ پانی‘ بجلی‘ گیس اور ایندھن پر دیا جاتا ہے۔ ان گروپس میں شامل ضروریات میں 30فیصد سے زیادہ کا سالانہ اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ گو کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں لیکن اس کا اثر پاکستانی معیشت پر پڑتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر کسی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں تو اس کا براہِ راست اثر پاکستانی عوام پر پڑے گا اور مہنگائی کا ایک اور سونامی عوام کا مقدر ٹھہرے گا۔ ملک کے معاشی مسائل میں بیرونی عوامل کا عمل دخل ضرور ہے لیکن ملک کے اندرونی معاملات نے بھی بہت زیادہ معاشی نقصان پہنچایا ہے۔
گزشتہ دو برس کے دوران بینکوں کو غیرملکی زرِمبادلہ کے لین دین سے حاصل ہونے والے منافع پر عائد کردہ 40فیصد ٹیکس (ونڈ فال ٹیکس) کا اطلاق معطل کردیا گیا ہے۔ اس ٹیکس کو عدالت کی جانب سے معطل کیا گیا ہے۔ عدالتوں میں دو ہزار 330ارب روپے کے ٹیکس کیسز کئی برسوں سے زیرالتوا ہیں۔ سب سے زیادہ 1463ارب کے 63ہزار سے زائد کیسز ٹیکس ٹربیونلز میں زیر التوا ہیں۔ دوسرے نمبر پر 294ارب کے 5428کیسز لاہور ہائیکورٹ جبکہ تیسرے نمبر پر 245ارب کے 1017کیسز اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا ہیں۔ 222ارب کے 2659 کیسز سندھ ہائیکورٹ‘ آٹھ ارب کے 397کیسز پشاور ہائیکورٹ‘ تین ارب کے 11کیسز بلوچستان ہائیکورٹ جبکہ 96ارب کے 3182 کیسز سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ ایک طرف گلہ کیا جاتا ہے کہ ایف بی آر موثر طریقے سے کام نہیں کرتا اور جب ایف بی آر ٹیکسز لگاتا ہے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہو جاتی ہیں۔ بینک کئی برسوں سے غیرملکی زرِمبادلہ پر اربوں روپے کا منافع کما چکے ہیں جس پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا۔ مارکیٹ میں حالات خراب کرکے بینکوں کے ڈالر کمانے کا اعتراف سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی کر چکے ہیں اور ان کی طرف سے بینکوں کو سخت سزا دینے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا‘ جو وفا نہ ہو سکا۔ اگر ایف بی آر نے ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے بینکوں کے منافع پر ٹیکس لگا دیا ہے تو اس فیصلے کی معطلی سے عوام کو یہ پیغام جا سکتا ہے کہ مشکل فیصلے صرف انہی پر لاگو ہوتے ہیں‘ اشرافیہ پر نہیں۔ سرکاری اداروں کے افسران بھی ایسے احکامات جاری کرنے سے گریز نہیں کرتے جن سے ملک اور قوم کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ان اداروں میں بھی انصاف اور میرٹ کو بالائے طاق رکھے جانے کی روایت پرانی ہے۔ کسی دباؤ یا سفارش کی بنا پر پورا نظام ادھیڑ دینا معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز بھی اسی طرح کے مسائل کا شکار ہیں۔ اربوں روپے کی کرپشن کرنے والوں سے درگزر کیا جا رہا ہے اور بے قصوروں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ سٹیٹ انٹرپرائزز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے صدور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں جنہیں ایک نوٹس کے ذریعے صدارت سے ہٹا دیا جاتا ہے‘ جس سے عوامی فلاح اور خدمت کے کام رک جاتے ہیں۔ اربوں روپے کا نقصان بھی ہوتا ہے۔ یہی صورتحال واپڈا‘ واسا‘ سوئی ناردن‘ سوئی سدرن اور دیگر اداروں کی بھی ہے‘ جہاں غیرضروری احکامات جاری کر کے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور عوام کو بھی مسائل کا شکار کر دیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب آج کل کافی متحرک ہیں اور جہاں ضرورت ہو وفاقی اداروں سے بھی بات کرتے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ سرکاری اداروں میں ہونے والی ناانصافی کو ختم کرنے اور نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کریں۔ وزیراعظم صاحب بھی ان معاملات کی طرف توجہ دیں۔ اس سے نہ صرف سرکار کو فائدہ ہو گا بلکہ عوامی سطح پر بھی خوشحالی آ سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں