سعودی آئل کمپنی آرامکو نے تقریباً 10 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ تقریباً ایک دہائی قبل قائم ہونے والی نجی کمپنی گیس اینڈ آئل پاکستان لمیٹڈ میں 40 فیصد حصص حاصل کرکے پاکستان کی ریٹیل مارکیٹ میں باضابطہ طور پر قدم رکھ دیا ہے۔ دنیا کی معروف انرجی اور کیمیکل کمپنیوں میں شامل آرامکو نے شیئرز کے حصول کے لیے حتمی معاہدوں پر دستخط کر دیے ہیں؛ اگرچہ دونوں کمپنیوں نے معاہدے کی مالیت ظاہر نہیں کی؛ تاہم ذرائع کے مطابق ٹرانزیکشن کی مالیت تقریباً 10 کروڑ ڈالر ہے۔ معاہدہ ریگولیٹری منظوری سمیت کچھ دیگر رسمی شرائط کے ساتھ مشروط ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ یہ ڈیل آرامکو کی پاکستانی فیول ریٹیل مارکیٹ میں پہلی انٹری ہے، کمپنی عالمی سطح پر اپنے کاروبار کو آگے بڑھانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ یہ خبر حوصلہ افزا ہے۔ آرامکو نے ماضی میں گوادر آئل ریفائنری میں سرمایہ کاری سمیت کئی معاہدے کیے لیکن وہ کسی نہ کسی وجہ سے تاخیر کا شکار رہے۔ آرامکو سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل کمپنی ہے اور گزشتہ سال اس نے 161 ارب ڈالر سے زائد منافع کمایا جو 2021ء کے مقابلے میں 46.5 فیصد زیادہ تھا۔ سعودی عرب کی حکومت اس کمپنی کے تقریباً 95 فیصد حصص کی مالک ہے، اس اعتبار سے اسے سعودی حکومتی کمپنی بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کمپنی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نہ صرف تیل، گیس اور کیمیکلز کی پیداوار کو بڑھانے پر توجہ دے رہی ہے بلکہ نئی کم کاربن ٹیکنالوجی میں بھی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ میں نے ایک گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کا سرمایہ کاری کے طریقوں پر اتفاق ہوگیا ہے‘ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کی توثیق کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے‘ پاکستان اس اقدام کا 19 سال سے منتظر تھا۔ گزشتہ 15 سال میں خلیج تعاون کونسل کی جانب سے یہ کسی بھی ملک کے ساتھ پہلا تجارتی اور سرمایہ کاری معاہدہ ہوگا۔ قبل ازیں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان میں پچاس ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کریں گے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ایک اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ کونسل سعودی عرب، قطر اور عرب امارات سے سو ارب ڈالرز سرمایہ کاری لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ موجودہ معاہدہ پاکستانی سٹاک مارکیٹ اور دیگر بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے مزید دروازے کھول سکتا ہے۔ اس وقت آئل سیکٹر میں بڑی بیرونی سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور آئندہ چند دنوں میں سرمایہ کاری کے حوالے سے مزید مثبت خبریں آ سکتی ہیں۔
چین کی ویڈیو شیئرنگ ایپ ''ٹک ٹاک‘‘ انڈونیشیا کے سب سے بڑے پلیٹ فارم ''ٹوکو پیڈیا‘‘ میں سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی کل لاگت 1.5ارب ڈالر ہو گی۔ اس کے علاوہ انڈونیشیا کے ای کامرس یونٹ ''گو ٹو‘‘ کا بیشتر حصہ خریدنے کے لیے 840 ملین ڈالر خرچ کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ چین اس وقت آن لائن بزنس میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ چین نے کسی بڑے آن لائن سٹارٹ اَپ کو خریدا ہو‘ چین پاکستان میں بھی آن لائن شاپنگ کے ایک کامیاب سٹارٹ اَپ میں سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ اس سٹارٹ اَپ کی بنیاد 2012ء میں رکھی گئی تھی اور تب سے یہ آن لائن شاپنگ کا ایک مقبول فورم ہے۔ آج یہ سٹارٹ اَپ بنگلہ دیش، میانمار، سری لنکا اور نیپال میں بھی کام کر رہا ہے۔ ان پانچ جنوبی ایشیائی ممالک کی کل آبادی تقریباً 46 کروڑ ہے اور ان میں سے 60 فیصد 35 سال سے کم عمر ہیں۔ ای کامرس کی چینی کمپنی 'علی بابا‘ پاکستان کی وزارت برائے کامرس کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کر چکی ہے اور وہ مزید سٹارٹ اَپس میں سرمایہ کاری کا ارداہ رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں آن لائن شاپنگ کے زیادہ تر سٹارٹ اَپس کامیاب نہیں ہو سکے۔ پچھلے سال کافی سٹارٹ اَپس بند بھی ہوئے ہیں۔ نگران حکومت نئے سٹارٹ اَپس کے لیے قرض دینے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ صرف حکومتی قرض مسئلے کا حل نہیں‘ جب تک نجی سرمایہ کار مارکیٹ میں نہیں آئیں گے‘ نئے، بہتر اور بڑے سٹارٹ اَپس کا شروع ہونا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں آن لائن گروسری خریدنے کے جو سٹارٹ اَپس شروع کیے گئے تھے ان میں سے زیادہ تر کے لیے بیرونِ ملک اداروں سے امداد لی جاتی تھی۔ جب اداروں نے فنڈنگ بند کی تو وہ منصوبے چند ماہ بھی نہ چل سکے۔ ایک آن لائن گروسری سٹارٹ اَپ نے بند ہونے کے ڈیڑھ سال بعد بھی ملازمین کی تنخواہیں ادا نہیں کی ہیں اور اس کے خلاف مختلف کیسز بھی چل رہے ہیں۔
پاکستان نے چین سے سی پیک کے پروجیکٹس کی فنڈنگ میں اضافہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ بیجنگ اس وقت معاشی بحران کے پیش نظر کچھ محتاط دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے وقت میں جب چین نے رواں برس اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کی دسویں سالگرہ منائی ہے‘ اس منصوبے کے تحت سب سے اہم سرمایہ کاری میں سے ایک سی پیک میں سرمایہ کاری رکی ہوئی نظر آتی ہے۔ دونوں ملکوں میں 2015ء میں ہوئے معاہدے کے تحت سی پیک کے ذریعہ ریل اور سڑک رابطوں کی ترقی کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس بنیادی ڈھانچے کے فروغ کا مقصد چینی اشیا کو سنکیانگ سے پاکستان کے پہاڑی سرحدوں سے گزرتے ہوئے کراچی سے 630 کلو میٹر مغرب میں واقع گوادر بندرگاہ پہنچا کر بحیرہ عرب میں بھیجنا ہے۔ سی پیک میں پاکستان میں توانائی کے انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے بھی اربو ں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا؛ تاہم چین نے حال ہی میں سی پیک کے متعدد منصوبوں کے لیے فنڈ فراہم کرنے کی درخواست پر ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ سی پیک کی سست رفتاری کو اقتصادی اور سکیورٹی‘ دونوں عوامل سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ بگڑتے معاشی بحران اور چین کی حالیہ سست رفتار ترقی نے نئے منصوبوں کے امکانات کم کیے ہیں۔ پاکستان نے امید ظاہر کی ہے کہ بنیادی ڈھانچے کے شعبے کا یہ تاریخی منصوبہ ملک کی معیشت کے لیے ''شاہراہِ زندگی‘‘ کا کام کرے گا۔
چین بی آر آئی سرمایہ کاری پروجیکٹ کے منصوبوں کو لاحق سکیورٹی خطرات کے حوالے سے کافی فکر مند ہے۔ کچھ عرصہ قبل عسکریت پسندوں کی جانب سے چینی انجینئرز کوبلوچستان میں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی مگر پاکستانی فوج نے اس حملے کو ناکام بنا دیا۔ 2021ء میں شمالی علاقہ جات میں ایک بس پر ہوئے حملے میں نو چینی ورکرز مارے گئے تھے۔ 2022ء میں کراچی میں ایک خاتون خودکش بمبار نے چینی اساتذہ کو نشانہ بنایا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی خدشات ضرور ہیں لیکن ایسا نہیں کہ ان پر قابو نہ پایا جا سکے۔ پاکستان چین کے سکیورٹی خدشات کو دور کررہا ہے جبکہ دوسری طرف دہشت گردی کی نئی لہر بالخصوص ٹی ٹی پی سے بھی نمٹا جا رہا ہے۔ دوسری جانب چینی معیشت تیزی سے بحال ہو رہی ہے۔ متعدد بین الاقوامی تنظیموں اور مالیاتی اداروں نے رواں سال چین کی اقتصادی نمو کی پیش گوئیوں میں اضافہ کیا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے اس سال چین کی اقتصادی ترقی کی پیش گوئی کو بڑھا کر 5.4 فیصد کر دیا ہے۔ جے پی مورگن چیز، گولڈ مین ساکس، ڈوئچے بینک اور اے این زیڈ بینک سمیت کئی دیگر مالیاتی اداروں نے رواں سال چین کی اقتصادی ترقی کی پیش گوئیوں کو بڑھایا ہے۔ بلاشبہ چین عالمی اقتصادی ترقی کا سب سے بڑا انجن ہے اور یہ عالمی ترقی میں لگ بھگ ایک تہائی حصہ ڈال رہا اہے۔ امید ہے کہ چینی معیشت کی بحالی سے سی پیک کی سست روی کا تاثر بھی دور ہو گا۔