حکومت نے وفاق کی فنڈنگ سے چلنے والے 335 صوبائی منصوبوں کی ری سٹرکچرنگ یا کیپنگ سے قبل وزرائے اعلیٰ کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ رواں مالی سال کے دوران تقریباً 150 ارب روپے کی گنجائش پیدا کی جاسکے۔ اس کا مقصد وفاق کے اخراجات کو کم کرنا ہے تاکہ آئی ایم ایف کے 3 ارب ڈالر کے جاری پروگرام کے فائنل جائزے کو کامیابی سے مکمل کیا جا سکے۔ وفاقی حکومت کے اجلاس میں وزرائے اعلیٰ، صوبائی وزرائے خزانہ اور چیف سیکرٹریز اور خزانہ اور منصوبہ بندی کے وزرا کو بلایا گیا تھا؛ تاہم دو صوبائی وزرائے اعلیٰ کی عدم دستیابی کے باعث اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی زیرِ صدارت پیر کو ایک بار پھر اجلاس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ موجودہ مالی سال میں وفاق نے صوبائی منصوبوں کے لیے 315 ارب روپے مختص کیے‘ جو 950 ارب روپے کے فیڈرل پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کا تقریباً ایک تہائی ہے۔ وفاق 135 سے زائد منصوبوں کے لیے رواں مالی سال فنڈنگ کرنے کے موڈ میں نہیں۔ ان پروجیکٹس پر اب تک کوئی پیشرفت نہیں دیکھی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق اس سے وفاقی حکومت کو 115 ارب روپے کی مالی گنجائش حاصل ہو گی۔ اسی طرح ایسے 50 منصوبے‘ جن پر ترقیاتی کام 20 فیصد سے کم ہوا ہے‘ ان کا معاملہ اٹھایا جا سکتا ہے تاکہ انہیں صوبائی ترقیاتی منصوبوں میں منتقل کیا جا سکے جس سے 30 ارب روپے کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز اچیومنٹ پلان (ایس اے پی) کے تحت صوبوں میں چلنے والی سکیموں میں 30 ارب روپے کی کمی کی جا سکتی ہے۔ چوتھے نمبر پر ایسے صوبائی منصوبے ہیں جن پر 80 فیصد سے زیادہ پیشرفت ہو چکی ہے‘ وہ رواں مالی سال کے اندر مکمل ہو جائیں گے۔ پانچویں اور آخری کیٹیگری میں تقریباً 150 ایسے منصوبے ہیں جن پر 20 فیصد سے 80 فیصد تک کام مکمل ہوا ہے۔ وفاقی حکومت صوبوں کو مشورہ دے سکتی ہے کہ ایسے منصوبوں کا تنقیدی جائزہ لیا جائے اور فنڈنگ کے حوالے سے تفصیلات مرکز اور صوبوں کے ساتھ شیئر کی جائیں۔ ملک میں جاری ترقیاتی سکیموں سے ایسا گمان ہونے لگا ہے کہ جیسے بنیادی انسانی مسائل حل ہو چکے ہیں اور اگلا مرحلہ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ہے۔ پاکستان میں سیاسی بنیادوں پر ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی روایت پرانی ہے۔ پہلے سے بنائی گئی سڑکوں کو غیر ضروری طور پر دوبارہ تعمیر کرنا معمول کی بات ہے۔ آئی ایم ایف کو بھی اس پر اعتراض ہے۔ سری لنکا ڈیفالٹ سے پہلے ایسی ہی صورتحال سے دوچار تھا۔ ملک میں تیل اور گیس خریدنے کے لیے ڈالرز نہیں تھے اور سری لنکن حکومت بلند وبالا عمارتیں تعمیر کر رہی تھی تا کہ عوام پر ترقیاتی منصوبوں کی دھاک بٹھائی جا سکے۔ لاہور کے ایک مخصوص علاقے میں جتنی لاگت سے اورنج لائن ٹرین بنائی گئی‘ اتنے بجٹ میں کینسر کے 35 ہسپتال بنائے جا سکتے تھے یعنی پنجاب کے ہر ضلع میں ایک مفت کینسر ہسپتال بن سکتا تھا۔
پاکستان میں ایک طرف عام آدمی کو صحت کی بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں‘ مہنگائی کا طوفان برپا ہے اور دوسری طرف ترقیاتی کاموں کے لیے کھربوں روپے کے بجٹ مختص کیے جا چکے۔ سبزیوں، دالوں اور چاول کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں 14 دسمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران قلیل مدتی مہنگائی سالانہ بنیادوں پر بڑھ کر 43.16 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ قلیل مدتی مہنگائی مسلسل پانچویں ہفتے 41 فیصد سے زائد رہی، جس کی بڑی وجہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں گزشتہ برس کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے، اس کے سبب صارفین کی قوتِ خرید شدید متاثر ہوئی ہے۔ سالانہ بنیادوں پر جن اشیا کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ ہوا ان میں گیس‘ گندم کا آٹا‘ چاول‘ چینی‘ گڑ‘ دالیں اور سبزیاں شامل ہیں۔ قلیل مدتی یا ہفتہ وار مہنگائی کی پیمائش حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) کے ذریعے کی جاتی ہے، جو 311.58 فیصد رہا جبکہ یہ اس سے گزشتہ ہفتے 311.78 فیصد تھا۔ ملک کے 17 شہروں کی 50 مارکیٹوں سے 51 ضروری اشیا کی قیمتوں کا جائزہ لینے پر یہ انڈیکس مرتب کیا جاتا ہے۔ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح رواں برس مئی کے آغاز میں ریکارڈ 48.35 فیصد تک پہنچ گئی تھی لیکن پھر اگست کے آخر میں 24.4 فیصد تک کم ہوگئی؛تاہم 16 نومبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران یہ شرح دوبارہ 40 فیصد کی حد عبور کرگئی تھی۔ آنے والے دنوں میں مہنگائی کی شرح کیا ہو گی اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
حکومت نے پٹرول کی فی لٹر قیمت میں 14 روپے کمی کا اعلان کیا ہے، ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 13 روپے 50 پیسے جبکہ لائٹ ڈیزل کی فی لٹر قیمت میں 11.29 روپے کی کمی کی گئی ہے۔ مٹی کے تیل کی فی لٹر میں بھی 10.14 روپے کی کمی گئی ہے۔ گزشتہ 15 روز کے دوران عالمی سطح پر ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں تقریباً 5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بھی معمولی اضافہ ہوا ہے جس کے سبب مقامی سطح پر صارفین کے لیے پٹرولیم قیمتوں میں معقول کمی کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ڈیزل تقریباً 4 ڈالر فی بیرل سستا ہوکر 99.50 ڈالر سے 95.50 ڈالر پر آگیا جبکہ پٹرول کی قیمت 86.5 ڈالر سے کم ہو کر 81.7 ڈالر فی بیرل پر آ گئی۔ دوسری جانب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 284 روپے پر آگئی جو یکم دسمبر کو 285.5 پر تھی۔ اس عرصے کے دوران خام تیل کی قیمت 79 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 73 ڈالر پہ آگئی۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ مالی سال 2024ء میں پٹرولیم لیوی کی مد میں 869 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن اب توقع کی جا رہی ہے کہ جون کے آخر تک یہ ٹارگٹ 950 ارب روپے سے زائد تک بڑھا لیا جائے گا۔ اس سے قبل 31نومبر کو نگران حکومت نے ڈیزل کی قیمت میں 7 روپے کمی کی تھی لیکن پٹرول کی قیمت میں کوئی کمی نہیں کی گئی تھی۔ اگر بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں یونہی کم ہوتی رہیں تو آنے والے دنوں میں مہنگائی کی شرح میں کمی آ سکتی ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کے مطابق پاکستانی معیشت کی بحالی زیادہ اعتماد نہ ہونے کے سبب اب بھی محدود ہے جبکہ بلند شرحِ مہنگائی کے سبب بیشتر آبادی کی قوتِ خرید شدید متاثر ہوئی ہے۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کی بیرونی کرنسی کی طویل مدتی ڈیفالٹ ریٹنگ کو ''ٹرپل سی‘‘ پر برقرار رکھتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ عام انتخابات شیڈول کے مطابق ہوں گے اور پی ڈی ایم حکومت کی طرز پر مخلوط حکومت کا قیام عمل میں آ سکتا ہے۔ سٹاف لیول حالیہ معاہدے کو آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے بہ آسانی منظوری ملنے کا امکان ہے۔ پروگرام کا کامیاب جائزہ مسلسل مالی استحکام اور توانائی کی قیمتوں میں اصلاحات کی عکاسی کرتا ہے۔ سٹینڈ بائی معاہدے کے تحت پاکستان نے بہت سے پالیسی وعدے کیے؛ تاہم نگران حکومت نے مزید اقدامات بھی کیے جن میں گیس اور بجلی کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ اور بلیک مارکیٹ کے خلاف کریک ڈاؤن وغیرہ شامل ہیں۔ ان اقدامات نے شرح تبادلہ کے درمیان فرق کو کم کرنے اور بینکاری نظام میں مزید زرمبادلہ لانے میں مدد کی ہے۔ جون میں حکومت نے رواں مالی سال کے لیے اپنے مجوزہ بجٹ میں ترمیم کی تھی تاکہ فروری میں اضافی ٹیکس اقدامات اور سبسڈی اصلاحات کے بعد نئے محصولاتی اقدامات اور اخراجات میں کمی کی جا سکے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ اصلاحات کو نافذ کرنے یا انہیں تبدیل کرنے میں ناکام رہنے کا ایک ریکارڈ رہا ہے۔ اس وقت ماضی کے مقابلے میں کم فنانسنگ آپشنز موجود ہیں، لہٰذا کسی بھی نئے آئی ایم ایف پروگرام کے لیے ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر سٹرکچرل اصلاحات کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ انٹرنیشنل ایجنسیز کی ریٹنگ کا کافی حد تک دارومدار ملکی سیاسی صورتحال پر ہوتا ہے۔ گو کہ سپریم کورٹ نے انتخابات 8 فروری کو بہرصورت کرانے کے لیے اہم فیصلہ دیا ہے لیکن جب تک انتخابات ہو نہیں جاتے‘ تب تک افواہوں کا بازار بند نہیں ہو سکتا۔ انتخابات کے بعد معاشی صورتحال میں ٹھہرائو اور بہتری کی امید ہے۔