بنگلہ دیش پہلی بار یورپی یونین کو نِٹ ویئر (Knitwear) یعنی گارمنٹس برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ بنگلہ دیش نے جنوری تا ستمبر 2023ء کے دوران یورپی یونین کو نٹ ویئر کی برآمدات میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ اس کامیابی کا سہرا یورپی یونین بلاک کی Everything But Arms (EBA) سکیم کے تحت دستیاب ڈیوٹی سہولت کے سر سجایا گیا ہے۔نو ماہ کے عرصے میں یورپی یونین نے بنگلہ دیش سے 9 ارب ڈالر کے نٹ ویئرز درآمد کیے، جو چین سے ہونے والی 8.96 ارب ڈالر درآمدات کے مقابلے میں بھی زیادہ ہیں۔ وزن کے لحاظ سے بھی بنگلہ دیش پہلے نمبر پر ہے جس نے یورپی یونین ممالک کو چین کے 442 ملین کلوگرام کے مقابلے میں 571 ملین کلوگرام نٹ ویئرز برآمد کیے۔یورپی یونین کے ممالک میں بنگلہ دیش کی اس شاندار کارکردگی کی ایک وجہ ہائی ویلیو ایڈڈ اشیا خاص طور پر ایکٹو ویئر میں حالیہ سرمایہ کاری ہے۔بنگلہ دیش نے گزشتہ چند سال میں ٹیکسٹائل شعبے میں پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ ترقی ہے۔ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان کی برآمدات میں تقریباً 12 فیصد کمی واقع ہوئی اور یہ 28 ارب ڈالر بھی نہ ہوسکیں۔ اسی دوران بنگلہ دیش اپنی برآمدات کو چھ فیصد بڑھا کر 55 ارب ڈالر تک پہنچانے میں کامیاب رہا۔اگرچہ بنگلہ دیش بھی اس وقت سخت معاشی حالات کا شکار ہے لیکن وہ دنیا میں کساد بازاری کی لہر کے باوجود اپنی برآمدات بڑھانے میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی برآمدات بنگلہ دیش کے مقابلے میں زیادہ ہونے کے بجائے کم کیوں ہورہی ہیں؟ اگر بنگلہ دیش کی برآمدات کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پچھلے سال بنگلہ دیش نے 55 ارب 55 کروڑ ڈالر کی اشیا برآمد کیں جوطے شدہ ہدف سے کم تھیں۔ اس سے قبل بنگلہ دیش نے 52 ارب ڈالر سے زائد کی اشیا برآمد کی تھیں جس کے بعد زیادہ نمو کا تخمینہ لگایا گیا تھا مگر اُس کے مقابلے میں برآمدات کی شرح 6.67 فیصد ہی زائد رہی۔ بنگلہ دیش کی برآمدات کا حجم 55 ارب ڈالر سے زائد کرنے میں سب سے اہم کردار ریڈی میڈ گارمنٹس کا رہا جن کی برآمدات 46 ارب ڈالر سے زائد تھیں۔ یہ کُل برآمدات کا لگ بھگ 84 فیصد بنتا ہے۔ ریڈی میڈ گارمنٹس کی برآمدات میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 10 فیصد سے بھی زائد کا اضافہ ہوا۔
پاکستان کی برآمدات مالی سال 2023ء میں 27 ارب 74 کروڑ ڈالر رہیں۔ یعنی بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدات تقریباً نصف رہیں۔ یہی نہیں‘ پچھلے سال سے موازنہ کرنے پر پاکستان کی برآمدات میں چار ارب ڈالر کی کمی دیکھی گئی ہے۔ بنگلہ دیش کی طرح پاکستان کی برآمدات میں بھی بڑا حصہ ٹیکسٹائل کا رہا لیکن یہاں کہانی اُلٹ ہے۔ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل صنعت نے اس سال 10 فیصد زیادہ برآمدات کی ہیں وہیں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد میں ایک سال کے دوران 15 فیصد کمی واقع ہوئی۔پاکستان سے دنیا بھر کو ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات کا کُل حجم 16 ارب 51 کروڑ ڈالر رہا جو گزشتہ سال 19 ارب ڈالر سے زائد تھا۔ گزشتہ10 سال کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں ایک جمود نظر آتا ہے؛ تاہم مالی سال 2021-22ء کے دوران‘ کافی عرصے کے بعد اس شعبے نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا مگر اس کارکردگی کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں ناکامی ہوئی۔ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل صنعت کا جائزہ لیا جائے تو اعدا د و شمار بتاتے ہیں کہ پچھلے 20 برس میں اس ملک کی ٹیکسٹائل کی صنعت چند ایک سال کو چھوڑ کر‘ مسلسل ترقی کرتی رہی اور کُل برآمدات میں اپنے حصے کو بڑھاتی چلی گئی۔بنگلہ دیش کی معیشت پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ بہتر بنیادوں پر استوار ہوچکی ہے۔ بنگلہ دیشی ٹیکسٹائل برآمد کنندگان نے بین الاقوامی منڈی میں بہتر روابط استوار کرلیے ہیں‘ اسی لیے وہ بہتر طور پر اس صنعت کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔اگرچہ بنگلہ دیش نے حالیہ مہینوں میں معاشی بحران کی وجہ سے اپنی درآمدات کو محدود کر دیا تھا اور اپنی کرنسی کی قدر میں بھی کمی کی لیکن اس کی برآمدات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی برآمدات گزشتہ سال کم رہنے کی ایک بنیادی وجہ درآمدات پر پابندی تھی اور اس سال جہاں پاکستان کی برآمدات (12 فیصد) کم رہیں تو وہیں درآمدات میں بھی بڑی (30 فیصد) کمی دیکھی گئی۔برآمدات میں کمی کی وجہ پاکستان کو درپیش ادائیگیوں کے توازن کے مسائل تھے جس کے باعث حکومت نے درآمدات پر پابندی عائد کررکھی تھی۔برآمدی مال تیار کرنے کے لیے پاکستانی صنعتوں میں بہت سی درآمدی اشیا کی ضرورت پڑتی ہے، مثلاً ٹیکسٹائل سیکٹر کی بات کی جائے تو اس میں ڈائیز، کیمیکلز اور مشینری وغیرہ درآمد کی جاتی ہے، جب یہ اشیا باہر سے منگوانا مشکل ہوگئیں تو اس کا اثر لازمی طور پر برآمدات میں کمی کی صورت میں نکلنا تھا۔ بنگلہ دیش ٹیکسٹائل ایکسپورٹس میں چین کے بعد‘ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا برآمدکنندہ بن چکا ہے۔ اس سیکٹر میں بنگلہ دیش کے پاس خواتین کی صورت میں بہت بڑی افرادی قوت موجود ہے اور گزشتہ 15 سے 20 برس میں ٹیکسٹائل شعبے میں انقلابی تبدیلی دیکھی گئی ہے لیکن دوسری جانب پاکستان میں یہ شعبہ اپنی منڈیاں کھوتا جارہا ہے۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل کا شعبہ اس لیے پیچھے رہتاہے کیونکہ فیکٹریوں اور صنعتوں کو چلانے کے لیے یہاں توانائی کی کمی اور قیمتوں کا مسئلہ رہتا ہے۔ اگر توانائی کی دستیابی بہتر ہو توانتہائی مہنگی ہونے کی وجہ سے پیداواری لاگت میں بے تحاشا اضافہ ہوجاتا ہے۔امن و امان کی صورتِ حال اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے بھی صنعتوں کو جم کر کام کرنے کا موقع نہیں ملتا۔انہی وجوہات کی بنا پر پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات بنگلہ دیش سے کافی پیچھے رہ گئی ہیں۔
اگر ترسیلاتِ زر کی بات کی جائے تو پاکستان کو سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر سعودی عرب سے وصول ہوتی ہیں۔ 2023ء کی پہلی ششماہی میں سعودی عرب سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر میں 13 فیصد کمی پاکستان میں مجموعی ترسیلاتِ زر میں کمی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ورلڈ بینک کے مطابق سعودی عرب میں میگا منصوبوں کے سبب غیر ملکی مزدوروں میں نمایاں اضافے کے باوجود 2023ء کی پہلی ششماہی میں سعودی عرب سے ترسیلاتِ زر کے انخلا میں 13 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔اس تنزلی کی وجہ کورونا وبا کے بعد ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ سعودی عرب کی نئی پالیسی ہے جس کے تحت بیرونِ ملک سے آئے مزدوروں کو اپنے اہلِ خانہ کو ساتھ لانے کی اجازت دی گئی ہے۔ نتیجتاً یہ اپنے ممالک کو کم ترسیلاتِ زر بھیجیں گے۔اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان اور شمالی افریقہ کے ممالک پر ترسیلاتِ زر کے حوالے سے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ترسیلاتِ زر میں اضافے کے حوالے سے کئی مرتبہ تجاویز دے چکا ہوں‘ ان میں سرفہرست بینکنگ چینلز کے ذریعے رقم بھجوانے پر خصوصی مراعات اور بہتر ریٹ کی فراہمی ہے۔
آج کل ملک میں اداروں کی نجکاری کا معاملہ زیر بحث ہے اور مختلف آپشنز زیرِ غور ہیں۔ نگران حکومت نے نجکاری پروگرام کی فہرست میں اداروں کی تعداد 27 سے کم کر کے 26 کر دی ہے۔توانائی شعبے کے سب سے زیادہ‘ 14 ادارے نجکاری کی فہرست میں شامل ہیں۔ فنانس اور رئیل اسٹیٹ سے متعلق چار‘ چار اداروں ،انڈسٹریل سیکٹر کے تین اداروں کے علاوہ پی آئی اے بھی نجکاری کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ بلوکی، حویلی بہادر، گدو اور نندی پور پاور پلانٹس کے علاوہ تمام 10 بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ پاکستان سٹیل ملز نجکاری پروگرام کی فہرست سے خارج کر دی گئی ہے۔سٹیل ملز اس وقت بند پڑی ہے لیکن سالانہ 30 ارب روپے کا بوجھ قومی خزانے پر پڑ رہا ہے۔سٹیل مل 110 ارب روپے کی مقروض ہے جس پر 18 ارب روپے سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ سالانہ ڈھائی ارب روپے تنخواہوں اور پنشنز کے اخراجات ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ اسے نجکاری فہرست سے نکالا گیا ہو۔ ماضی میں بھی سٹیل مل کو کئی مرتبہ نجکاری کی لسٹ میں ڈالا اور پھر نکالا جا چکا ہے۔ کبھی خریدار نہیں ملتا اور کبھی 'قومی مفاد‘ آڑے آ جاتا ہے۔