پاکستانی معیشت اور بھارت سے تجارتی تعلقات

ملکی معیشت بتدریج بہتری کی جانب گامزن ہے۔سعودی کمپنی آرامکو دنیا کے سب سے بڑے سنگل ہائیڈرو کاربن نیٹ ورک کی مالک ہے۔ اس کمپنی کی جانب سے پاکستان میں 10کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب آرامکو کہیں سرمایہ کاری کرتی ہے تو دنیا نوٹس لیتی ہے۔ موبائل سروس مہیا کرنے والی دنیا کی 18ویں بڑی کمپنی پاکستان میں 10کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے جا رہی ہے۔ شنگھائی الیکٹرک گروپ کمپنی بجلی کی پیداوار اور بجلی کے سامان کی تیاری میں ماہر ہے‘ اس کمپنی نے تھرکول پاور پراجیکٹ میں دو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے‘ جس سے امید ہے کہ یہ پراجیکٹ پانچ روپے فی یونٹ کے حساب سے سستی بجلی پیدا کر سکتا ہے جس سے سالانہ پانچ سو ملین ڈالرز کی بچت ہو سکتی ہے۔ وافی انرجی سعودی عرب کی مشہور کمپنی ہے۔ اس کا کام فیول سٹیشنز مینج کرنا ہے۔ اس کمپنی نے شیل پاکستان کے اکثریتی شیئرز خرید لیے ہیں۔ اکتوبر میں پاکستان سٹاک مارکیٹ دنیا کی بہترین مارکیٹ کے طور پر سامنے آئی۔ جولائی سے اکتوبر کے دورانیے میں ایف بی آر نے اہداف سے زیادہ ٹیکس اکٹھے کیے ہیں۔ رواں برس کپاس کی پیداوار پچھلے سال کی نسبت 74فیصد زیادہ رہی ہے۔ ڈالر ریٹ میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تقریباً 65 روپے تک کم ہو گئی ہیں۔ سٹیٹ بینک نے نومبر میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہونے کا اعلان کیا ہے جو کہ معاشی استحکام کی طرف ایک اشارہ ہو سکتا ہے اور اس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کو ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو معاشی و سیاسی استحکام کی ضمانت دے سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معیشت کے حوالے سے اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ سٹاک ایکسچینج میں بہتری خوش آئند ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سٹے بازوں نے مصنوعی طریقے سے مارکیٹ بڑھائی ہے‘ جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ کمپنیوں نے اصل میں منافع کمایا ہے‘ اس لیے ان کے شیئرز کی ویلیو بھی بڑھی ہے۔ مارکیٹ بڑھنے کے بعد تھوڑا سا گرنا بھی نارمل ہے‘ لیکن یہ اچھی خبریں کب تک آتی رہیں گی اس کا انحصار موجودہ پالیسیوں کے تسلسل پر ہے۔ عام انتخابات ہونے والے ہیں لیکن نئی حکومت کا معاشی منشور کیا ہوگا‘ اس بارے میں کچھ واضح نہیں ہے۔ ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے معاشی منشور پر کھل کر بات نہیں کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ معاشی پالیسیوں کو جاری رکھنا ہی جیتنے والی پارٹی کا معاشی منشور ہو گا۔ اگر موجودہ پالیسیاں جاری رہتی ہیں تو معاشی اشاریوں میں مزید بہتری آسکتی ہے۔ ہماری معاشی ترقی ڈالر ریٹ کے گرد گھومتی ہے۔ بہت سے اور بھی فیکٹرز ہیں لیکن ڈالر کو مرکزی اور بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ موجودہ حکومت نے نہ صرف منی ایکسچینجر پر چیک اینڈ بیلنس مضبوط کیا ہے بلکہ اس حوالے سے بینکوں پر بھی چیک رکھا ہوا ہے۔ اس وقت ڈالر ریٹ میں اتار چڑھاؤ کرنے کی صلاحیت صرف بینکوں کے پاس ہے۔ اب بینکوں کو منی ایکسچینجز بھی کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ مستقبل میں ڈالر کنٹرول میں رہتا ہے یا نہیں‘ اس کا انحصار بینکوں پر نظر رکھنے پر ہے۔ زیادہ امکانات یہی ہیں کہ ڈالر ریٹ کنٹرول میں ہی رہے گا۔ یہ پہلو بھی مدنظر رہے کہ ملکی اثاثے بیچ کر ڈالرز ملک میں لانے کی منصوبہ بندی بھی ہو رہی ہے۔ اس پر آئی ایم ایف کو بھی اعتراض ہے۔ ملک کے معاشی اشاریے اس وقت بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتے ہیں جب قومی اخراجات بالخصوص سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے شاہانہ اخراجات میں کمی آئے گی۔تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو ملٹی نیشنل کمپنیاں بہت پریشان ہیں۔ وہ اپنا منافع بیرون ملک نہیں بھجوا پا رہیں۔ چینی آئی پی پیز نے پاکستان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کی لیکن پھر ان کیساتھ کیا ہوا‘ یہ فکرانگیز ہے۔ اس وقت ایک ارب ڈالر چینی آئی پی پیز کو ادا کرنے ہیں۔ وہ مسلسل دباؤ بڑھا رہے ہیں لیکن ہم ادائیگی کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ انٹرنیشنل کورٹس تک معاملہ پہنچ جائے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے معاملات ہیں جو پریشان کن ہیں۔ حکومت کو سب سے بڑی فکر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی کرنی چاہیے۔ سالانہ تقریباً 25ارب ڈالرز قرض کی ادائیگی کرنا اصل چیلنج ہے۔
مالی سال 2018ء سے نومبر 2023ء تک کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیرملکی سرمایہ کاری فنانسنگ اور مینوفیکچرنگ جیسے چند شعبوں تک محدود رہی جبکہ کوئلے سے چلنے والے توانائی کے منصوبوں میں سب سے زیادہ ایف ڈی آئی موصول ہوئی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں کے باوجود لگتا ہے کہ پاکستان کوئلے سے چلنے والے بجلی کے منصوبے بند نہیں کر سکے گا جن میں سے زیادہ تر میں چین نے فنڈنگ کی ہے۔ رواں برس مارچ میں پی ڈی ایم کی حکومت نے تھرپارکر میں کوئلے سے چلنے والے دو منصوبوں کا افتتاح کیا تھا۔ ان دونوں منصوبوں سے سالانہ 11ارب 24کروڑ یونٹ سستی بجلی پیدا ہو سکتی ہے جبکہ ان میں براہِ راست تین ارب 53کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔ تھر میں کوئلے سے چلنے والے منصوبوں سے بجلی کی پیداوار تین ہزار 300 میگا واٹ تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ مالی سال 2018ء سے 2023ء تک پاور سیکٹر میں تین ارب 89 کروڑ ڈالر کی فنڈنگ موصول ہوئی جبکہ رواں مالی سال کے ابتدائی پانچ ماہ کے دوران یہ فنڈنگ 26کروڑ 39لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی ہے جس کے بعد کل سرمایہ کاری چار ارب 15کروڑ ڈالر ہو چکی ہے۔ بجلی کے شعبے میں موصول ہونے والی فنڈنگ میں کوئلے سے چلنے والے منصوبوں میں دو ارب 82 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی‘ باقی سرمایہ کاری تھرمل اور ہائیڈل پاور منصوبوں میں کی گئی۔ زیادہ تر منصوبوں میں سرمایہ کاری چین نے سی پیک کے تحت کی۔ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ تھر میں کوئلے کے 25ٹریلین ڈالر کے ذخائر ہیں‘ ملک کو غیرملکی قرضوں سے چھٹکارا دلانے کیلئے یہ انتہائی اہم خزانہ ہے۔ ملک پر تقریباً 128ارب ڈالر کا غیرملکی قرضہ ہے اور اسے ہر سال قرضوں اور سود کی ادائیگی کیلئے بڑی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ حکومت کو رواں مالی سال قرضوں اور سود کی ادائیگی کیلئے 24 ارب 50 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے۔
اُدھر نگران حکومت نے بھارت میں ٹریڈ افسر تعینات نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بھارت میں ٹریڈ افسر تعیناتی کے سابقہ حکومتی پلان پر عملدرآمد روک دیا گیا ہے۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف نے نئی دہلی میں ٹریڈ افسر تعینات کرنے کی منظوری دی تھی۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں ٹریڈ افسران کیلئے مشتہر 40آسامیوں میں نئی دہلی شامل تھا۔ نئی دہلی کے سوا باقی مشتہر 39آسامیوں پر ٹریڈ افسران تعینات کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ سابق وزیراعظم نے بھارت میں گریڈ 20کی ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ منسٹر کی آسامی ختم کردی تھی جبکہ نئی دہلی میں گریڈ 19کی ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ قونصلر آسامی کی منظوری دی تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اگست 2019ء میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے یکطرفہ اقدام کے بعد پڑوسی ملک سے دوطرفہ تجارت معطل کردی تھی۔ بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 370کو منسوخ کر دیا تھا جس کے بعد سات اگست کو قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس میں بھارت سے دوطرفہ تجارت کو معطل کرنے اور سفارتی تعلقات کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ عام انتخابات کے بعد نئی حکومت ان چیلنجز سے کیسے نمٹنے گی‘ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ میاں نواز شریف نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کیساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ ان کے ادوار میں بھارتی وزرائے اعظم پاکستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ اگر میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن جاتے ہیں تو بھارت کیساتھ تجارتی تعلقات کو کس طرح نارمل کیا جا سکے گا‘ اس بارے کوئی دعویٰ کرنا ابھی ممکن نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں