2023ء مکمل ہونے کو ہے۔یہ سال کچھ اچھی اور کچھ بری خبروں کے ساتھ اختتام پذیر ہو رہا ہے۔اگر اس سال کا عبوری جائزہ لیا جائے تو 2023 ء پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے کافی مہنگا ثابت ہوا۔ پاکستانی عوام ملکی تاریخ کا سب سے مہنگا پٹرول اورڈیزل خریدنے پر مجبور ہوئے۔ اس سال پٹرولیم مصنوعات فی لٹر 116 روپے 58 پیسے تک مہنگی ہوئیں۔ آئی ایم ایف شرائط کے تحت لیوی میں اضافے اور عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں بڑھنا پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات بنیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت ملکی تاریخ میں پہلی بار پٹرول اور ڈیزل پر فی لٹر 60 روپے لیوی عائد کی گئی، اس سال پٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں فی لٹر 30 روپے تک اضافہ کیا گیا۔دوسری جانب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بھی کمی آتی رہی جس کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی رہیں۔
اس سال ڈیزل پر 30 روپے اور پٹرول پر فی لٹر لیوی میں 10 روپے کا اضافہ کیا گیا۔ اس وقت ڈیزل اورپٹرول‘ دونوں پر فی لٹر 60 روپے لیوی عائد ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں نگران حکومتوں کے دور میں 16 ستمبر کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پرجاپہنچی تھیں جب فی لیٹر پٹرول 331 روپے اور فی لٹر ڈیزل 329 روپے سے زائد کا ہو گیا تھا؛ تاہم یکم اکتوبر سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا رجحان شروع ہوا جس کے نتیجے میں حالیہ 3 ماہ میں فی لیٹر پٹرول 64 روپے اور ڈیزل لگ بھگ 53 روپے سستاہوچکا ہے۔ واضح رہے کہ اس سال کے آغاز پر فی لٹر پٹرول 214 روپے 80 پیسے اور فی لٹر ڈیزل 227 روپے 80 پیسے کا تھا جبکہ اس وقت پٹرول کی قیمت267 روپے 34 پیسے اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی فی لٹر قیمت 276 روپے 19 پیسے ہے۔ 2023ء کے آغاز پر ایک ڈالر 226 روپے کا تھا جو 22 دسمبر کو 282 روپے 53 پیسے کا تھا؛ تاہم اسی سال ایک ڈالر 300 روپے کی حد بھی کراس کر گیا تھا۔
اگر سرمایہ کاری میں منافع کے حوالے سے بات کی جائے تو 2023ء میں سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری دیگر تمام شعبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ منافع بخش ثابت ہوئی۔ رواں برس سٹاک ایکسچینج کے سرمایہ کاروں نے 53 فیصد منافع کمایا۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے تحت چلنے والی سکیم ''نیا پاکستان سرٹیفکیٹ‘‘ میں سرمایہ کاری کرنے والوں نے 33 فیصد منافع کمایا۔تیسرا سب سے بڑا منافع بخش شعبہ ریئل اسٹیٹ رہا۔2023ء میں ڈالر میں سرمایہ کاری کرنے والوں نے 25 فیصد کی شرح سے منافع کمایا کیونکہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 226 روپے سے بڑھ کر 283 روپے تک چلی گئی۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں 21 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 236 روپے سے بڑھ کر 285 روپے تک پہنچ گیا۔ 2023ء میں ایک اور انتہائی منافع بخش شعبہ ٹریثرری بلز رہا، حکومت کو مہنگائی سے نمٹنے کے لیے سخت مانیٹری پالیسی کے تحت شرحِ سود کو 22 فیصد کی بلند ترین سطح تک بڑھانا پڑا، نتیجتاً ٹریثرری بلز میں سرمایہ کاروں نے 2023ء میں 23 فیصد منافع کمایا۔سونے نے گزشتہ چند برس کے دوران مقامی سرمایہ کاروں کو اوسط سے زیادہ منافع فراہم کیا اور 2023ء میں اس کی قیمت ایک لاکھ 57 ہزار 836 روپے فی 10 گرام سے بڑھ کر ایک لاکھ 86 ہزار 900 روپے ہو گئی جوسالانہ 18 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت اسی مدت کے دوران تقریباً 13 فیصد بڑھ کر ایک ہزار 826 ڈالر فی اونس سے 2 ہزار 65 ڈالر ہوگئی۔
پاکستان کی مشرقِ وسطیٰ کے لیے برآمدات رواں مالی سال کے ابتدائی5 ماہ کے دوران 28.98 فیصد اضافے کے ساتھ ایک ارب 25 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران 97 کروڑ 45 لاکھ ڈالر تھیں۔پاکستانی مصنوعات کی طلب میں اضافہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور کویت میں دیکھا گیاہے۔ اسی مدت کے دوران قطر کے لیے برآمدات میں تنزلی ہوئی ہے۔ حکومت نے حال ہی میں خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ کیا ہے، جس کے سبب پاکستان کی اس خطے کے لیے برآمدات میں مزید سہولت میسر آئے گی۔ مالی سال 2023ء کے دوران پاکستان کی مشرقِ وسطیٰ کے لیے کل برآمدات 12.62 فیصد سکڑ کر 2 ارب 33 کروڑ ڈالر رہیں، جو گزشتہ سال 2 ارب 66 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں۔ مالی سال 2023ء میں پاکستان نے درآمدات میں 7.24 فیصد کمی کا مشاہدہ کیا اور یہ 17 ارب 48 کروڑ ڈالر رہی تھیں۔
پاکستان کی سعودی عرب کے لیے برآمدات جولائی تا نومبر کے دوران 50 فیصد بڑھ کر 27 کروڑ 56 لاکھ ڈالر ہو گئیں۔ متحدہ عرب امارات کے بعد پاکستان کے لیے سعودی عرب دوسری بڑی برآمدی منڈی ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران برآمدت 13.1 فیصد اضافے کے بعد 50 کروڑ 34 لاکھ ڈالر رہی تھیں، جو گزشتہ سے پیوستہ برس 42 کروڑ 4 لاکھ ڈالر تھیں۔متحدہ عرب امارات کے مقابلے میں مارکیٹ تک رسائی میں توسیع نہ ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کی برآمدات پچھلی دہائی میں کافی حد تک رکی رہیں۔سعودی عرب کو سب سے زیادہ چاول، گوشت، خیمے اور ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں۔اسی طرح مالی سال 2024ء کے ابتدائی 5 ماہ کے دوران پاکستان کی متحدہ عرب امارات کے لیے برآمدات 33 فیصد نمایاں اضافے کے بعد 81 کروڑ 79 لاکھ ڈالر رہیں جو گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران 61 کروڑ 48 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں؛ تاہم مالی سال 2023ء کے دوران متحدہ عرب امارات کے لیے پاکستان کی برآمدات میں 20.23 فیصد سکڑائو دیکھا گیا تھا اور یہ ایک ارب 47 کروڑ ڈالر رہی تھیں۔ مالی سال 2022ء میں یہ برآمدات ایک ارب 84 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں پاکستانی گوشت کی ڈیمانڈ زیادہ ہے۔ خلیجی تعاون کونسل کی مارکیٹ گوشت کی برآمدات کے حوالے سے اہم حیثیت رکھتی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب دو اہم منڈیاں ہیں جہاں فروزن مصنوعات کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے اور اکثر پاکستانی تاجروں کا حجم دونوں منڈیوں میں مسلسل بڑھ رہا ہے۔ عرب امارات پاکستان کے لیے ایک اہم تجارتی منڈی ہے اور مقامی کمپنیاں اسے سالانہ تقریباً 144 ملین ڈالر کا گوشت برآمد کرتی ہیں۔پاکستان گوشت پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے مطابق پاکستان کی ایک اہم منڈی خلیج تعاون کونسل کے ممالک ہیں جنہیں گوشت برآمد کرنے کے لیے کوششیں تیز کی جا رہی ہیں جس سے برآمد کنندگان کو مدد مل رہی ہے۔ ایک بڑے ایکسپورٹر کے مطابق ان کی کمپنی کو متحدہ عرب امارات سے 2000 میٹرک ٹن فروزن‘ ہڈیوں والے گوشت کا آرڈر موصول ہوا ہے اور انہیں فروزن اور تازہ ویکیوم پیکڈ ''red and white offal‘‘برآمد کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس پروڈکٹ کے شامل ہونے سے مارکیٹ پہ مثبت اثر پڑے گا۔ عرب امارات کے حکام نے پاکستانی گوشت کی کمپنیوں سے اپنے پیکیجنگ کے معیار کو بہتر بنانے کا کہا ہے تاکہ ان کی مصنوعات کی شیلف لائف بہتر ہو۔ ان احکامات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور بڑی کامیابی بھی ملی ہے۔ سعودی عرب میں بغیر ہڈیوں کے فروزن گوشت مارکیٹ کا شیئر بڑھ رہا ہے اور اس حوالے سے نئے آرڈرز میں ایک بار پھر اضافہ ہو رہا ہے۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان سے گوشت اور گوشت کی مصنوعات کی برآمدات 25 فیصد سے زائد اضافے کے ساتھ 42.7 کروڑڈالر تک پہنچ گئیں جبکہ رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ کے دوران یہ برآمدات گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 20 فیصد اضافے سے 113 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ امید کی جارہی ہے کہ حکومت اس شعبے پر مزید توجہ دے گی اور آنے والے دنوں میں مشرقِ وسطیٰ کو برآمدات میں مزید اضافہ ممکن ہو سکے گا۔