11جنوری 2024ء کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی سٹاف لیول معاہدے پر منظوری درکار ہے۔ ایسے موقع پر پی ٹی آئی کی قیادت نے آئی ایم ایف سے قرض پروگرام اور مستقبل میں حکومت کی تبدیلی کی صورت میں اس پر عملدرآمد سے متعلق اپنی حمایت واپس لینے کا عندیہ دیا ہے۔ بیرسٹر گوہر خان کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے وفد نے آئی ایم ایف کے نمائندوں سے ملاقات کر کے شفاف انتخابات سے متعلق اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کی آئی ایم ایف پروگرام کیلئے تعاون کی یقین دہانی صاف اور شفاف انتخابات سے مشروط تھی جو تاحال دکھائی نہیں دے رہے لہٰذا وہ آئی ایم ایف پروگرام کیلئے اپنی حمایت واپس لے رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے جیل میں قید اپنے بانی چیئرمین کا بیان بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام خطرے میں ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس موقع پر پی ٹی آئی کی جانب سے اس طرح کا ردعمل آنا چاہیے تھا اور کیا پی ٹی آئی کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام میں رکاوٹ پڑ سکتی ہے؟ آئی ایم ایف اہلکار سیاسی پارٹیوں‘ ایکسچینج کمپنیوں اور ایسوسی ایشنز سے ملتے رہتے ہیں‘ ممکن ہے کہ وہ اسی طرح بینکوں کے مالکان سے بھی ملتے ہوں اور سٹاک ایکسچینج والوں سے بھی۔ یہ معمول کا عمل ہے۔ اس سے اصل پروگرام کو زیادہ فرق نہیں پڑنا چاہیے بشرطیکہ حکومت نے آئی ایم ایف کے معاشی اہداف حاصل کر لیے ہوں۔ ماضی میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد شوکت ترین کی پنجاب کے وزیر خزانہ محسن لغاری اور خیبر پختونخوا کے وزیرِ خزانہ تیمور جھگڑا کیساتھ گفتگو سامنے آ چکی ہے جس میں آئی ایم ایف کے معاہدے سے پیچھے ہٹنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن کیا ہوا؟ پروگرام کو تو فرق نہیں پڑا اُلٹا تحریک انصاف کو نقصان ہوا۔ کسی سیاسی جماعت کو آئی ایم ایف سے مل کر ملک کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے‘ یہ معاشی خود کشی کے مترادف ہے۔ پی ٹی آئی قیادت کو سوچنا ہو گا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے منفی بیان سے آئی ایم ایف پروگرام تاخیر کا شکار یا ملتوی ہوتا ہے تو اس سے ملک کا نقصان ہو گا۔
امریکی وزارتِ خارجہ نے پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے جو بیان دیا ہے‘ وہ بہت اہم ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں لیکن انتخابات کرانے کے طریقہ کار یا امیدواروں سے متعلق کوئی حکم صادر نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں جمہوریت کی حمایت کیلئے پُرعزم ہیں لیکن یہ حکم نہیں دے سکتے کہ وہاں انتخابات کیسے کرائے جائیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں انتخابات جیسے بھی ہوں‘ بس ہو جائیں۔ گو کہ عوامی سطح پر انتخابات میں دلچسپی نہیں نظر آ رہی لیکن تاحال انتخابات کے حوالے سے مثبت خبریں آ رہی ہیں۔ آئی ایم ایف کا یہ پروگرام عارضی ہے‘ اصل پروگرام نئی حکومت کے ساتھ طے ہو گا۔ پی ٹی آئی کو اس طرح کے پیغامات دینے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اگر آئی ایم ایف پروگرام طے نہیں ہو گا تو ملک کو معاشی نقصان ہو گا۔ آئی ایم ایف برسراقتدار حکومت کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے۔ جب دیگر ممالک میں بھی آئی ایم ایف قرض دیتا ہے تو سٹیک ہولڈرز سے ملتا ہے لیکن انہیں اصل یقین دہانی حکومتِ وقت سے درکار ہوتی ہے۔ 11جنوری کو آئی ایم ایف بورڈ کا جو اجلاس ہے‘ اس پر پی ٹی آئی کے بیانات سے فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ آئی ایم ایف سٹیک ہولڈرز کے مؤقف سنتا ضرور ہے لیکن ان کے خدشات کو ایک دوسرے تک پہنچانے یا ان میں اتفاق پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ دراصل وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ لانگ ٹرم میں ملک کو کس طرح چلایا جا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی دلچسپی اس میں ہوتی ہے کہ کونسی پارٹی یا حکومت پروگرام پر عمل درآمد کرے گی۔ اگر ملک میں الیکشن ہونے والے ہوں اور پروگرام Negotiate ہو رہا ہو‘ تب ممکن ہے کہ آئی ایم ایف تمام پارٹیوں سے ملاقات کرے لیکن یہ پروگرام پچھلے سال فائنل ہو چکا ہے۔ شاید آئی ایم ایف کو اب سیاسی پارٹیوں سے ملاقاتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کو پاکستان کی جانب سے تمام رپورٹس پندرہ دن پہلے بھجوا دی گئی تھیں۔ بورڈ اجلاس نے فیصلہ انہی رپورٹس کی بنا پر کرنا ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی وجہ محسوس نہیں ہوتی جس کیلئے آئی ایم ایف عمران خان سے جیل میں ملنے کی خواہش ظاہر کرے۔ یہ پی ٹی آئی کی خواہش ہو سکتی ہے لیکن آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں۔یہاں اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ ملک میں انتخابات صاف اور شفاف ہوں۔اگر غیر شفاف انتخابات ہوئے تو ملک نئے معاشی مسائل میں دھنس سکتا ہے۔
ان افسردہ حالات میں ایک اچھی خبر بھی آئی ہے۔ نگران وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کے مطابق ان کی وزارت پاکستان کو ایک Tech Destination بنانے کیلئے پے پال کے ذریعے ترسیلاتِ زر کو چینلائز کرنے سمیت اگلے ہفتے کئی ڈیجیٹل اقدامات شروع کرنے جا رہی ہے۔ پے پال پاکستان نہیں آ رہا لیکن ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت ترسیلاتِ زر کو تیسرے فریق کے ذریعے پے پال سے چینلائز کیے جانے کا منصوبہ ہے۔ اس سلسلے میں باقاعدہ افتتاحی تقریب 11جنوری کو ہوگی۔ آن لائن دنیا میں پے پال کو رقوم کے لین دین کے حوالے سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ یہ ایک طرح سے کسی صارف کا ذاتی بین الاقوامی بینک اکاؤنٹ ہوتا ہے۔ پے پال دنیا بھر کے 200سے زائد ممالک میں رقوم بھیجنے اور وصول کرنے کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے قریباً 10کروڑ سے زیادہ افراد معاوضے اور رقوم حاصل کرنے کیلئے یہ سروس استعمال کرتے ہیں۔ اس سروس کو قریباً دو دہائیوں سے آن لائن رقوم کی ترسیل کا اہم طریقہ مانا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں آن لائن شاپنگ مالز اس سروس کے گاہک ہیں۔ پے پال اپنے گاہکوں سے رقم کی ترسیل کا بہت معمولی معاوضہ لیتا ہے۔ پاکستان میں اس شعبے کی باضابطہ برآمدات فی الحال 2.6ارب ڈالر ہیں لیکن اصل اعداد و شمار 5ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں کیونکہ انڈسٹری کی مالیات کا بڑا حصہ ملک سے باہر ہے۔ ملک سے باہر موجود ان مالیات سے انڈسٹری اپنے بین الاقوامی ملازمین کی تنخواہیں ادا کرتی ہے اور گوگل‘ ایمازون‘ لنکڈ ان وغیرہ جیسے پلیٹ فارمز پر کلاؤڈ ہوسٹنگ‘ مارکیٹنگ اور سیلز کے ماہانہ اخراجات اٹھائے جاتے ہیں۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل اور سٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر ایک اہم پالیسی پر بھی کام کیا جا رہا ہے جس سے آئی ٹی کمپنیوں کو اپنی برآمدی آمدنی کا 50 فیصد پاکستان میں رکھنے اور اس رقم سے اپنے بین الاقوامی اخراجات بغیر کسی پابندی کے پورے کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اطلاعات ہیں کہ آئی ٹی کمپنیاں اپنے ڈالر واپس گھر لانے لگی ہیں اور ایکسپورٹ ریونیو میں ایک ماہ میں 13فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔
فری لانسنگ کے ذریعے آمدن بڑھانے کیلئے پاکستان کو مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اپنا الگ فری لانسنگ پلیٹ فارم بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت فری لانسرز اور آئی ٹی ماہرین سے مشاورت کرے تا کہ قابلِ عمل اور دیر پا پالیسیاں بنائی جا سکیں۔ پاکستان میں فری لانسنگ کو انڈسٹری کا درجہ دیا جانا چاہیے۔ فری لانسرز کو اگر کسی مسئلے کا سامنا ہوتا ہے تو ان کے پاس کوئی حکومتی پلیٹ فارم ایسا نہیں جہاں جا کر وہ اپنے مسائل بتا سکیں۔ فری لانسرز ساری عمر فری لانسنگ نہیں کر سکتے‘ انہیں سٹارٹ اَپس کی ضرورت ہے۔ یہ ڈالرز کمانے کا دیرپا اور مضبوط ذریعہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سٹارٹ اَپس کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ مالی معاملات ہیں۔ پچھلے چند ماہ میں نئے سٹارٹ اَپس شروع ہونے کے بجائے بہت سے سٹارٹ اَپس بند ہوئے ہیں۔ حکومت فری لانسرز کو سستے قرض دے کر سٹارٹ اَپس میں اضافہ کر سکتی ہے۔ پاکستان کے سپیشل ٹیکنالوجی زون میں 100فیصد ڈالرز ملک میں رکھنے اور باہر بھیجنے کی اجازت ہے۔ اگر اس ضمن میں رکاوٹیں ڈالنے کے بجائے سہولتیں فراہم کی جائیں اور آئی ٹی انڈسٹری کو 10 سال کیلئے کھلا چھوڑ دیا جائے تو اس سے دس‘ پندرہ ارب ڈالرز سالانہ پاکستان لانا باآسانی ممکن ہو سکے گا۔