پاک‘ افغان تجارت اور زرعی اجناس

طورخم افغان بارڈر گزشتہ چند روز سے ہر قسم کی دوطرفہ تجارت کے لیے بند ہے۔ پاکستان کے شمال مغربی ضلع خیبر اور افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے مابین واقع طورخم بارڈر دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان سفر کرنے والوں اور تجارت کے لیے انتہائی اہم کراسنگ ہے لیکن سرحد پار کرنے والی کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے لیے دستاویز کے ضابطوں کے تازہ ترین ایشو کی وجہ سے یہ کراسنگ جمعہ کی رات سے تجارت کے لیے مکمل بند ہے۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن اور ملک میں داخل ہونے والے افغانوں کے لیے دستاویزات کی شرائط کو سخت کرنے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان متعدد گزر گاہیں عارضی طور پر بند ہوتی رہی ہیں۔ فی الحال سرحد کے دونوں طرف پیدل نقل و حرکت جاری ہے لیکن کمرشل گاڑیوں کا داخلہ بند ہے۔ پاکستانی بارڈر حکام نے طورخم پر تجارت کو ڈرائیوروں کے ویزوں سے مشروط کیا ہے جبکہ اس ایشو پر دونوں ملکوں کے بارڈر حکام کی متعدد ملاقاتیں اب تک بے نتیجہ رہی ہیں۔ پاسپورٹ اور دوسری دستاویزات کے بغیر بارڈر کراس کرکے آنے والوں پر سختی کیے جانے کے بعد سے بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں بھی باہمی تجارت متاثر ہوئی ہے اور سرحد پر ٹرک ڈرائیوروں اور دیگر عملے نے دھرنا دے رکھا ہے۔ اس وقت سرحد کے دونوں اطراف گزشتہ چار‘ پانچ دنوں سے پھلوں اور سبزیوں سے بھری ہزاروں گاڑیاں کھڑی ہیں۔ بارڈر بندش کے باعث گاڑیوں میں موجود پھل اور سبزیاں خراب ہونے لگے ہیں جبکہ ٹرانسپورٹروں کی جانب سے دونوں اطراف سے بارڈر کھولنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرحد لگ بھگ 2600 کلومیٹر (1615 میل) طویل ہے اور اس سرحد سے جڑے دوطرفہ تنازعات گاہے گاہے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کی وجہ بنتے رہے ہیں۔ اس سے قبل پاک افغان سرحدی شہر چمن میں امیگریشن قوانین کے خلاف جاری احتجاجی دھرنا شدت اختیار کر گیا تھا اور مظاہرین نے تجارتی سامان اور مہاجرین کو افغانستان لے جانے والے سینکڑوں ٹرکوں کو ڈرائیوروں سمیت ''قبضے‘‘ میں لے لیا تھا۔ یہ مسئلہ نیا نہیں ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اسے مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی کاوشیں کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔ پاک افغان سرحد کے دونوں طرف رہنے والے لوگ مشترکہ مذہبی و ثقافتی اقدار اور بڑی حد تک آپس کی رشتہ داریوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ برسہا برس سے دونوں اطراف سے آزادانہ نقل و حرکت ہوتی چلی آ رہی ہے اور پاسپورٹ اور دوسری سفری دستاویزات کبھی آڑے نہیں آئیں۔ 2017ء میں پاکستان نے سمگلنگ اور دہشت گردی کے سد باب کیلئے 50 کروڑ ڈالر خرچ کر کے سرحد پر سکیورٹی باڑ لگائی لیکن افغان حکومت نے اسے متنازع بنانے کی کوشش کر دی۔ 2021ء میں امریکی فوج کے انخلا کے بعد کابل میں طالبان حکومت قائم ہوئی تو کالعدم ٹی ٹی پی کیلئے افغانستان ایک محفوظ ٹھکانہ بن گیا اور اس کے پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں بھی تیزی آئی۔ نئی بارڈر کراسنگ پالیسی کے نفاذ کے بعد بلوچستان کے شہر چمن میں پاکستانی حکام نے پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر دونوں جانب سے کسی کو بھی پاک افغان سرحد عبور کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا جس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں لیکن بلوچستان میں سرگرم ملک دشمن عناصر کی شہ پرصورتحال خراب ہوئی۔ پاکستان کے سکیورٹی ادارے امن و استحکام کو سبوتاژ کرنے کی تمام کوششیں ناکام بنانے کیلئے پُرعزم ہیں اور ان کی یہ کارروائیاں غیر قانونی تجارت پر بھی اثر انداز ہوئی ہیں۔ افغان حکومت کو دونوں ملکوں کے مفاد میں باہمی تجارت کے فروغ اور امن قائم کرنے کی کوششوں میں تعاون کرنا چاہئے۔ طورخم ٹرانسپورٹ یونین کا مطالبہ ہے کہ پاسپورٹ اور ویزا شرائط ختم کر کے دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کے اقدامات کیے جائیں۔ اگر ڈرائیوروں کو مشکلات سے بچانے کیلئے ملٹی پل ویزہ سسٹم کا اجرا کیا جائے تو اس مشکل کو آسانی میں بدلا جا سکتا ہے یا پھر بارڈر ہی پر دونوں جانب کے ویزہ کی سہولت دی جائے تو ایک مناسب حل نکل سکتا ہے۔
پاکستان افغان تجارت دونوں ممالک کے لیے سودمند رہی ہے‘ اس تجارت کا حجم 1 ارب 80 کروڑ ڈالر سے زائد ہے۔ پچھلے 40 برسوں سے پاکستان میں مقیم اکثر افغان باشندے اس تجارت سے وابستہ ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے مختلف شعبوں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق افغان تاجر ٹرانسپورٹ میں سب سے آگے ہیں۔ ان کی گاڑیاں کراچی سے پشاور اور کابل تک چلتی ہیں جن میں گڈز ٹرانسپورٹس سرفہرست ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں پراپرٹی میں بھی افغان شہریوں نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جبکہ گارمنٹس بھی افغان تاجروں کا پسندیدہ کاروبار ہے؛ تاہم یہ زیادہ تر خیبر پختونخوا اور کابل تک محدود ہے۔ اس کے علاوہ دو طرفہ غذائی اجناس کی تجارت کا حجم بھی خاصا زیادہ ہے۔ جب کسی ملک کے شہریوں کا سٹیک بڑھ جائے تو ان سے جڑے مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں جنہیں بروقت حل کرنا ضروری ہوتا ہے، بصورتِ دیگر حالات مزید کشیدہ ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ امید ہے کہ دونوں اطراف کے حکام سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور دیرپا اور پُرامن حل پر جلد ہی اتفاق ہو جائے گا۔
پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اس لیے تقریباً پوری دنیا میں پاکستانی غذائی اجناس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں غذائی اجناس کی برآمدات 64 فیصد بڑھ گئی ہیں۔ جولائی تا دسمبر 2023ء کے دوران غذائی اجناس کی برآمدات میں ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا جس کے بعد یہ حجم 3 ارب 84 کروڑ 70 لاکھ ڈالر پر پہنچ گیا۔ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران غذائی اجناس کی برآمدات 2 ارب 34 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تھیں۔ جولائی تا دسمبر 2023ء مکئی کی برآمدات میں 208 فیصد اضافہ ہوا۔ ایتھائل الکوحل کی برآمدات میں 497 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح چاول کی برآمدات میں 96 فیصد اور گوشت کی برآمدات میں 23 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ پھلوں اورسبزیوں کی برآمدات میں 15 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ مسالا جات اور بیکری مصنوعات کی برآمدات بالترتیب 10 فیصد اور ایک فیصد بڑھیں۔ ان برآمدات میں بڑا حصہ افغانستان جانے والی برآمدات کا ہے جو زمینی سرحدوں کے ذریعے بھیجی جاتی ہیں۔
اس وقت ملک میں پیاز کی قیمتوں کے حوالے سے تشویش بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے پیاز کی کم از کم برآمدی قیمت 750 ڈالر سے بڑھ کر 1200 ڈالر فی ٹن ہونے کے باوجود مقامی مارکیٹ میں پیاز کی قیمتیں کم نہیں ہو سکی ہیں۔ لوگ اب بھی 220 روپے سے 240 روپے فی کلو میں پیاز خرید رہے ہیں۔ برآمد کے لیے اعلیٰ معیار کا پیاز ہول سیل مارکیٹ میں 250 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔ جب بھارت نے 8 دسمبر کو پیاز کی برآمد پر پابندی لگائی تو کراچی میں پیاز کی قیمت 150 سے 180 روپے فی کلو کے درمیان تھی۔ بھارتی پیاز کی درآمد پر انحصار کی وجہ سے مختلف ممالک میں پیاز کی مانگ اور قیمت میں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں بہت سے برآمد کنندگان نے پیاز کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی تاکہ بھارت کی پابندی کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔ پاکستانی پیاز مہنگا ہونے کے باوجود بیرونی ممالک میں اچھی قیمت پر فروخت ہو رہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ کچھ تاجر مقامی مانگ کو پورا کرنے کے لیے افغانستان اور ایران سے پیاز درآمد کر رہے ہیں جس سے زرمبادلہ کے محدود ذخائر پر اضافی دباؤ پڑ رہا ہے۔ اس صورتحال سے فی الوقت برآمد کنندگان ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ صارفین پاکستانی پیاز کے مقابلے میں کم معیار اور کم ذائقے والے درآمدی پیاز کی زیادہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔ طورخم بارڈر پر آمدو رفت بند ہونے کی وجہ سے بھی پیاز کی درآمد میں رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں