آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کیلئے مقررہ 30 ارب 53 کروڑ 40 لاکھ ڈالر ترسیلاتِ زر کا ہدف حاصل نہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے ترسیلاتِ زر تحریک انصاف حکومت کے آخری مالی سال کے مقابلے میں کم رہنے کا تخمینہ لگایا ہے۔ ترسیلاتِ زر کا تخمینہ 29 ارب 47 کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے اور اگلے مالی سال یہ حجم31 ارب 17 کروڑ ڈالر پر پہنچنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے آخری مالی سال (2021-22ء) میں ترسیلاتِ زر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح (31 ارب 28 کروڑ ڈالر) پر پہنچ گئی تھیں، تاہم پی ڈی ایم حکومت کے پہلے مالی سال میں ترسیلاتِ زرمیں تقریباً 4 ارب ڈالرز کمی ہوئی اور یہ 27 ارب 33 کروڑ ڈالر پر آگئیں۔ آئی ایم ایف کے تخمینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ چار برس کے دوران بھی ترسیلاتِ زر میں اضافے کی رفتار سست رہ سکتی ہے۔ تخمینہ ہے کہ اگلے چار برس میں ترسیلاتِ زر میں تقریباً سات ارب ڈالرز کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ مالی سال 2027-28ء تک ترسیلاتِ زر رواں مالی سال کے 29 ارب 47 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 36 ارب 23 کروڑ ڈالر ہو سکتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اوسطاً سالانہ ترسیلاتِ زر میں دو ارب ڈالر سے بھی کم اضافہ ہو گا حالانکہ پی ٹی آئی کے چار مالی برسوں میں ترسیلاتِ زر میں ساڑھے 9 ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ ہوا ۔ اس کی ایک بڑی وجہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کا حکومت پر اعتماد ہو سکتی ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی اکثریت خود کو تحریک انصاف سے جڑا محسوس کرتی ہے‘ علاوہ ازیں تحریک انصاف کے دور میں تین ایمنسٹی سکیمیں بھی جاری کی گئی تھیں جن کی وجہ سے کاروبار کے مواقع بڑھ گئے تھے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں نے رئیل اسٹیٹ اور روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں دل کھول کر سرمایہ کاری کی تھی۔ شاید آئندہ حکومت اس طرح کے اقدامات نہ کر سکے کیونکہ اب حکومت کو نئے آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے وہ ترسیلاتِ زر کو بہتر بنانے کیلئے بڑے فیصلے نہیں کر سکے گی۔ پی ڈی ایم حکومت نے ترسیلاتِ زر بڑھانے کیلئے بیرونِ ملک سے بھیجے جانیوالی فیملی ریمیٹنس ایک لاکھ ڈالر تک ٹیکس سے مستثنا قرار دی تھیں لیکن آئی ایم ایف کے دبائو پر یہ فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔ ہر سیاسی حکومت کسی نہ کسی شکل میں ایمنسٹی دیتی ہے جس سے بزنس ایکٹوٹی بڑھ جاتی ہے۔ ترسیلاتِ زر سے متعلق مذکورہ بالا رپورٹ آئی ایم ایف کے تخمینوں پر مشتمل ہے مگر یہ تخمینے درست ثابت ہوتے ہیں یا نہیں‘ اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
آئی ایم ایف نے مالی سال 2024ء کیلئے پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار میں سست روی کی پیش گوئی کرتے ہوئے شرحِ نمو کا تخمینہ کم کر کے دو فیصد کر دیا ہے۔ جنوری کیلئے آؤٹ لُک میں کہا گیا کہ اکتوبر میں 2.5 فیصد کا تخمینہ لگایا گیا تھا لیکن اس میں 0.5 فیصد کی کمی کی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے شرحِ نمو کے حوالے سے کی گئی حالیہ پیش گوئی موجودہ مالی سال کیلئے حکومت کے جی ڈی پی گروتھ کے 3.5 فیصد ہدف سے کم ہے۔ دریں اثنا آئی ایم ایف نے امریکہ اور چین سمیت دنیا کی بڑی ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی منڈیوں کی معیشتوں کی نمو میں غیر متوقع لچک کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی 2024ء کی عالمی نمو کی پیش گوئی بڑھا کر 3.1 فیصد کر دی ہے۔ یہ اعداد و شمار اکتوبر کی پیش گوئی سے 0.2 فیصد زیادہ ہیں۔ اِس وقت عالمی معیشت غیر معمولی لچک کا مظاہرہ کر رہی ہے، افراطِ زر میں مسلسل کمی اور معاشی پھیلائو میں اضافہ ہو رہا ہے؛ تاہم معیشت میں توسیع کا عمل اب بھی سست روی کا شکار ہے۔ جی سیون کی ترقی یافتہ معیشتوں کی بات کی جائے تو آئی ایم ایف کے مطابق یورپی ممالک میں شرحِ نمو کمزور رہنے کا خدشہ ہے جو مختلف چیلنجوں کی عکاسی کرتی ہے جبکہ جاپان اور کینیڈا میں شرحِ نمو بہتر رہنے کا امکان ہے۔ آئی ایم ایف نے مجموعی افراطِ زر کی شرح 2024ء میں 5.8 فیصد پر برقرار رہنے کی پیشگوئی کی ہے لیکن امیر اور غریب ممالک میں اس شرح میں بہت بڑا فرق ہے۔ ترقی یافتہ معیشتوں میں افراطِ زر 2024ء میں 2.6 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے جو اکتوبر کے مقابلے میں 0.4 فیصد کم ہے جبکہ ابھرتی اور ترقی پذیر معیشتوں میں سالانہ افراطِ زر کی شرح 0.3 فیصد اضافے سے 8.1 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ اس اضافے کی بنیادی وجہ ارجنٹائن میں پریشان کن حالات کو قرار دیا جا سکتا ہے جہاں اقتصادی بحران کے سبب کنزیومر پرائس میں گزشتہ سال 200 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔
نگران حکومت نے انتخابات سے قبل‘ آج (دو فروری کو) خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کمیٹی کا اجلاس طلب کیا ہے۔ اس اجلاس میں آرمی چیف، نگران وزرائے اعلیٰ، چاروں چیف سیکرٹریز، گورنر سٹیٹ بینک، چیئرمین واپڈا، چیئرمین نادرا اور ایف بی آر حکام شریک ہوں گے، اجلاس میں شرکت کیلئے 56 شرکا کو دعوت نامے بھجوا دیے گئے ہیں جن کو اجلاس کا 24 نکاتی ایجنڈا بھی فراہم کیا گیا ہے۔ اجلاس میں 24 محکموں‘ اداروں اور وزراتوں سمیت ایف بی آر کی تشکیلِ نو پر تفصیلی بریفنگ دی جائے گی۔ متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ سرمایہ کاری معاہدوں پر پیش رفت رپورٹ کے علاوہ بجلی چوری‘ توانائی کے متبادل ذرائع کے معاہدوں اور ڈِسکوز مینجمنٹ بورڈ سے متعلق بریفنگ بھی دی جائے گی۔ سرکلر ڈیٹ اور آر ایل این جی پاور پلانٹس کی نجکاری اور ایران‘ پاکستان گیس پائپ لائن پروجیکٹ بھی اس میں زیر بحث آئے گا۔ اس کے علاوہ نئے گھریلو صارفین کیلئے نئی ایل این جی سپلائی پالیسی، ریکوڈک پروجیکٹ، جیالوجیکل سروے آف پاکستان کی آڈٹ رپورٹ، انشورنس سیکٹر، ای روزگار، پاکستان سٹارٹ آف فنڈ، نیشنل سپیس پالیسی اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی ڈی سی عمارتوں کی آؤٹ سورسنگ سے متعلق اہم امور پر فیصلہ سازی بھی کی جا سکتی ہے۔ نگران وزیر نجکاری فواد حسن فواد پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق رپورٹ پیش کریں گے جبکہ ریلوے سیکٹر میں روسی اور اماراتی حکومتوں کے تعاون اور پورٹ قاسم اتھارٹی سے متعلق معاملات پر بھی رپورٹ پیش کی جائے گی۔ ممکنہ طور پر یہ نگران دور میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا آخری اجلاس ہو گا۔ البتہ کونسل نگران حکومت کے بعد بھی قائم رہے گی اور اِنہی پالیسیوں کو نئی حکومت کے ساتھ مل کر آگے بڑھایا جائے گا۔ اس ادارے کے ذریعے بننے والی پالیسیاں ایسی پالیسیاں ہوں گی جنہیں حکومت بدلنے پر تبدیل نہیں کیا جا سکے گا۔ پی ڈی ایم حکومت میں کونسل نے جو فیصلے کیے تھے، نگران حکومت نے انہی فیصلوں کو آگے بڑھایا۔ یہ تسلسل برقرار رہے گا جو وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔
سٹیٹ بینک نے تمام مالیت کے کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مبینہ طور پر یہ فیصلہ جعلی کرنسی نوٹوں کی وجہ سے کیا گیا ہے لیکن کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کے اثرات بہت گہرے ہو سکتے ہیں‘ لہٰذا کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کی پالیسی بہت اہم ہو گی۔ اگر شناختی کارڈ کے بغیر پرانے نوٹ تبدیل کرنے کی سہولت دی گئی تو کالے دھن کی نشاندہی مشکل ہو سکتی ہے۔ اگر مخصوص رقم سے زیادہ کرنسی نوٹ تبدیل کرانے پر شناختی کارڈ کی شرط عائد کی گئی اور سورس آف انکم بھی پوچھا گیا تو عوامی مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن اس سے کالے دھن کی نشاندہی ہو سکتی ہے۔ ذمہ داران کا کہنا ہے کہ وہ بھارت سرکار کی طرح فوراً پرانے نوٹ ختم نہیں کریں گے۔ واضح رہے کہ بھارت میں پرانے کرنسی نوٹ ختم کرنے کے فیصلے نے وقتی طور پر حکومت کو خاصا نقصان پہنچایا لیکن لانگ ٹرم میں یہ فیصلہ مفید رہا۔ بھارت میں کیش لیس اکانومی یا کرنسی کے ڈیجیٹل استعمال بڑھانے میں اس فیصلے کا اہم کردار ہے۔ ہمارے یہاں بھی اس موقع سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور کھربوں روپوں کی غیر قانونی دولت کو سسٹم میں لایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب مؤثر حکمت عملی اپنائی جائے۔