نیپرا‘ پی آئی اے اور کرنسی پالیسی کے معاشی اثرات

نگران وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل اور نگران حکومت نے مل کر بہترین اقدامات کیے ہیں‘ ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلئے اقدامات کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں کمی ہوئی اور سرمایہ کاروں میں اعتماد بڑھا۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ تجارتی خسارہ کم اور سٹاک ایکسچینج کے انڈیکس میں نمایاں اضافہ ہوا‘ معاشی اشاریوں میں بہتری آ رہی ہے‘ ملکی برآمدات میں 27 فیصد اضافہ ہوا ہے اورسٹیٹ بینک کو لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنے کے احکامات دے دیے ہیں۔
بہتر ہوتا کہ نگران وزیر خزانہ ملک میں مہنگائی بڑھنے کے ذمہ داروں کا تعین بھی کر دیتیں۔ اس وقت ملک میں مہنگائی کا طوفان تھمتا نظر نہیں آ رہا۔ ڈالر کی قیمت کم ہو رہی ہے لیکن بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب نیپرا نے الیکشن سے قبل بجلی 4 روپے 57 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں یہ اضافہ دسمبر کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے۔ بجلی صارفین کو فروری کے بلوں میں اضافی ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔ نیپرا رپورٹ کے مطابق ایک سال میں میرٹ آرڈر کی خلاف ورزی سے 20 ارب 26 کروڑ روپے جبکہ گیس اور ایل این جی کی قلت کی وجہ سے مہنگے پلانٹس چلانے سے 164 ارب روپے کا اضافی بوجھ صارفین پر پڑا۔ بجلی کی غیر معمولی قیمتوں نے عام آدمی کو پہلے ہی بری طرح متاثر کیا ہوا ہے‘ ایسے میں پاور سیکٹر میں منصوبہ بندی کے فقدان کا بوجھ صارفین پر ڈالنا مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ہے۔ 31 جنوری کو نیپرا نے دسمبر کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی مہنگی کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔کہا جا رہا ہے کہ اگر بجلی کی ترسیل کا نظام بہتر نہ کیا گیا تو ماہانہ ایڈجسٹمنٹ بڑھ سکتی ہے‘ یعنی آنے والے دنوں میں بجلی مزید مہنگی ہونے کا اندیشہ ہے۔ سرکار کا کام صرف اضافی بوجھ عوام کو منتقل کرنا نہیں بلکہ اس مشکل صورتحال میں عوام کی بہتری کے لیے قابلِ عمل حل پیش کرنے کی ضرورت بھی ہے۔
نیپرا نے پاور سیکٹر کی سٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ 2023ء جاری کر دی ہے جس میں بجلی کی پیداوار‘ ترسیل اور تقسیم میں نااہلی اور ایندھن کی فراہمی کو توانائی کے شعبے کے بڑے مسائل قرار دے دیا گیا ہے۔ بجلی کمپنیوں میں 781 ارب روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود صورتحال بہتر نہیں ہوسکی۔ پاور سیکٹر میں وسط اور طویل مدتی منصوبہ بندی کا فقدان ہے اور ان اداروں میں مقررہ مدت گزرنے کے باوجود پرانے اور خراب کارکردگی والے پلانٹس چلائے جا رہے ہیں۔ گزشتہ سال ملک کے مختلف بڑے شہروں میں 12 گھنٹے سے زائد لوڈشیڈنگ کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق بجلی کی طلب و پیداوار میں فرق بڑھنے سے سرمایہ کاری میں کمی کے سنگین خطرات ہیں‘پاکستان کا پاور سیکٹر گردشی قرضے‘ درآمدی فیول‘ ترسیلی خرابیوں اور ناقص گورننس میں جکڑا ہوا ہے‘ بجلی کی غیر معمولی قیمتوں نے عام آدمی کو بُری طرح متاثر کیا ہے جبکہ بڑھتی قیمتوں سے گھریلو صارفین‘ کمرشل اور زرعی سمیت تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں۔
نگران حکومت نے امریکہ میں پی آئی اے کے ملکیتی روزویلٹ ہوٹل کی مشترکہ ڈویلپمنٹ کے حوالے سے ایک کنسورشیم کے ساتھ مالیاتی مشاورتی خدمات کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ روزویلٹ ہوٹل پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن انویسٹمنٹ لمیٹڈ (پی آئی اے آئی ایل) کی زیرملکیت ملٹی ملین پراپرٹی ہے۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پی آئی اے کی نجکاری کا عمل تکمیل کے قریب ہے۔ نگران حکومت کے مطابق نجکاری کا 98 فیصد تک کام مکمل ہو چکا ہے‘ بقیہ دو فیصد کی منظوری کابینہ سے لی جائے گی۔ ایئر لائن کے قرضوں کو ایک علیحدہ ادارے کو دینے کے بعد خریداروں کو مکمل انتظامی کنٹرول کے ساتھ 51 فیصد حصص کی پیشکش بھی کی جاسکتی ہے۔ گزشتہ سال جون میں آئی ایم ایف کے ساتھ تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ معاہدے میں مسلسل خسارے میں چلنے والے چند سرکاری اداروں کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا تھا‘ جن میں پی آئی اے سرفہرست ہے۔ حکومت کے جاری نجکاری پروگرام میں روزویلٹ ہوٹل کو ترجیح حاصل رہی ہے۔ رئیل اسٹیٹ کی فہرست میں چار ادارے تھے‘ ذرائع کے مطابق لاہور میں سروسز انٹرنیشنل ہوٹل اور وفاقی حکومت کے زیرانتظام پراپرٹیز کی فروخت کے لیے لین دین مکمل کر لیا گیا ہے‘ اب صرف جناح کنونشن سنٹر اور روزویلٹ ہوٹل باقی بچے ہیں۔
ان حالات میں اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستانی اشیا کی برآمدات میں مسلسل پانچویں مہینے اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جنوری میں یہ 17 مہینے کی بلند سطح پر پہنچ گئیں جو برآمدات کی بحالی کا عندیہ ہے۔ جنوری میں برآمدات 27 فیصد بڑھ کر 2 ارب 78 کروڑ ڈالر رہیں جو گزشتہ برس کے اسی مہینے کے دوران 2 ارب 19 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں۔ رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ کے دوران ملک کی برآمدات 12 فیصد اضافے کے بعد 17 ارب 76 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں‘ جو گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران 15 ارب 83 کروڑ ڈالر تھیں۔ جنوری میں برآمدات میں اضافے سے پتا چلتا ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو عالمی منڈیوں سے آرڈر ملنا شروع ہو چکے ہیں۔ وزارتِ تجارت نے اب تک توانائی کی مسابقتی قیمتوں کا تعین‘ ورکنگ کیپٹل سپورٹ‘ بروقت ریفنڈز اور مارکیٹ تک رسائی میں اضافے کے لیے سٹریٹیجک فریم ورک کا اعلان نہیں کیا؛ تاہم آئی ایم ایف نے حوصلہ افزا رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان کی برآمدات مالی سال 2024ء کے دوران 30 ارب 84 کروڑ ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ مالی سال 2028ء تک یہ بتدریج بڑھ کر 39 ارب 46 کروڑ ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ رواں مالی سال کے ابتدائی سات ماہ (جون تا جنوری) کے دوران درآمدی بل 16 فیصد تنزلی کے بعد 30 ارب ڈالر تک آ گیا‘ جو گزشتہ برس کے اسی عرصے میں 35 کروڑ 83 لاکھ ڈالر تھا۔
ملک میں نئے کرنسی نوٹ لانے کی خبریں بھی گزشتہ ہفتہ گرم رہیں۔ کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کے کئی فوائد ہیں‘ اس سے کالا دھن رکھنے والوں کی نشاندہی تو شاید ممکن نہ ہو سکے لیکن کاروباری سرگرمی بڑھ سکتی ہیں۔ جن کے پاس وائٹ منی ہے‘ وہ تو بینک سے جا کر تبدیل کرا لیں گے لیکن جن کے پاس مبینہ طور پر بلیک منی ہے‘ ان کیلئے بینک سے کرنسی تبدیل کرانا مشکل ہو گا‘اور ممکنہ طور پر یہ پیسہ کاروبار‘ پراپرٹی اور انڈسٹری میں لگایا جا سکتا ہے۔ اس وقت جعلی نوٹ بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔ کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری کے بقول پہلے ہمارے کاؤنٹرز پر جعلی کرنسی کا سالوں میں ایک آدھ کیس آتا تھا مگر اب ہر ہفتے میں ایک کیس سامنے آ جاتا ہے۔ جعلی کرنسی کی روک تھام سے معیشت بحال ہونے میں بھی مدد مل سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ نئے نوٹ پلاسٹک کرنسی میں نکالے جائیں۔ اس سے ایک طرف ان کی نقل بنانا مشکل ہو گا اور دوسرا‘ ان کی لائف بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے سٹیٹ بینک کو اگلے کئی سال تک پرانے کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس حوالے سے پاکستان کا بھارت سے موازنہ کئی اعتبار سے درست ہے ‘لیکن بھارتی کرنسی کی ڈی مونیٹائزیشن سے پاکستان کا کوئی موازنہ نہیں کیونکہ یہاں نوٹ بند نہیں ہو رہے‘ صرف تبدیل ہو رہے ہیں۔ ڈی مونیٹائزیشن اُس صورت میں بہتر ہوتی ہے جب ملک دشمن قوتوں‘ بیرونی ایجنٹوں یا بعض اندرونی عناصر کی طرف سے بڑے پیمانے پر جعلی نوٹ پھیلائے گئے ہوں۔ پاکستان میں کئی عشرے قبل اُس وقت کا سب سے بڑا (سو روپے کا) کرنسی نوٹ واپس لینے کا اقدام کیا جا چکا ہے۔ سٹیٹ بینک کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ اس وقت ملک میں اندازاً کتنی مالیت کے جعلی کرنسی نوٹ زیر گردش ہیں اور عوام کو کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں