ایران کے اسرائیل پر براہِ راست حملوں سے نئی عالمی جنگ کا شدید خدشہ پیدا ہو گیا ہے اور یہ صورتحال اسرائیل کے جنگی جرائم کے باعث پیدا ہوئی ہے۔ بلاشبہ اس کا عالمی معیشت پر گہرا منفی اثر پڑے گا؛ تاہم اس کی تمام تر ذمہ داری امریکہ‘ اسرائیل اور ان کے حمایتیوں پر ہے جو کئی مہینوں سے جاری اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں نہ صرف ناکام رہے بلکہ اعلانیہ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایران کے اسرائیل پر حملوں کے بعد سعودی سٹاک مارکیٹ انڈیکس میں تقریباً 1.1 فیصد‘ قطر سٹاک مارکیٹ میں تقریباً 1.5 فیصد‘اردن سٹاک مارکیٹ میں 5 فیصد اور کویت سٹاک مارکیٹ میں ایک فیصد گراوٹ دیکھی گئی۔ سوال یہ ہے کہ اس جنگ سے کچھ مثبت بھی برآمد ہو گا؟ کیا غزہ میں جنگ بندی ہو سکے گی اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے مطالبات مانے جا ئیں گے؟ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ لیکن عالمی معیشت پر اس کے منفی اثرات چند روز قبل ہی پڑنا شروع ہو گئے تھے۔ جب بھی کوئی غیر معمولی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو مارکیٹ اپنا ردعمل ضرور دیتی ہے۔ جنگ بندی مذاکرات میں تعطل نے مشرقِ وسطیٰ کے راستے سامان کی سپلائی کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کو نئے سرے سے ابھارا اور امریکی خام تیل کی انوینٹریز (inventories) میں توقع سے کہیں زیادہ اضافہ ہوا۔ برینٹ کروڈ فیوچر 25 سینٹ بڑھ کر 89.67 ڈالر فی بیرل ہو گیا جبکہ یو ایس ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کروڈ فیوچر 24 سینٹ بڑھ کر 85.47 ڈالر ہو گیا۔ اس ہفتے کے آغاز میں جاری ہونے والے معاشی اعداد و شمار کے بعد سرمایہ کاروں کی توجہ کارپوریٹ آمدنی پر مرکوز تھی‘ جس نے اس امکان کو بڑی حد تک ختم کر دیا کہ امریکی فیڈرل ریزرو جون میں شرحِ سود میں کمی کر سکتا ہے۔ معاشی رپورٹس نے مضبوط امریکی معیشت ظاہر کی‘ جس سے امید پیدا ہوئی کہ کمپنیوں کی آمدنی اچھی رہے گی لیکن اب حقائق مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ مارکیٹوں نے سال کے آغاز میں امریکی فیڈرل ریزور کی جانب سے رواں سال چھ بار شرحِ سود میں کمی کی توقع ظاہر کی لیکن اب صرف دو بار کمی کی جا سکتی ہے۔ جے پی مورگن چیس‘ ویلز فارگو اور سٹی گروپ نے پہلی سہ ماہی کیلئے توقع سے بہتر آمدنی رپورٹ کی لیکن جے پی مورگن چیس کے حصص‘ جس میں رواں برس بڑا اضافہ ہوا‘ نیویارک میں تجارت شروع ہونے کے بعد چار فیصد سے زائد گر گئے۔ ویلز فارگو اور سٹی گروپ کے حصص میں معمولی اضافہ ہوا لیکن وال سٹریٹ کے اہم انڈیکس ابتدائی ٹریڈنگ کے دوران ہی گر گئے۔
ایران اسرائیل تنازع کی وجہ سے دنیا تیسری عالمی جنگ کی خدشے کا شکار ہو چکی ہے اور اگر تنائو یونہی برقرار رہا تو عالمی معاشی بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے اور ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کی نسبت زیادہ مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ تیل اور گیس کی سپلائی میں رکاوٹ کمفرٹ لائف اور انڈسٹری کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔ یوکرین‘ روس جنگ نے یورپ ہی کو سب سے زیادہ متاثر کیا تھا۔ اُس وقت ایرانی تیل پر سے پابندیاں ہٹائے جانے اور اس پر انحصار بڑھانے کی بات ہو رہی تھی۔ موجودہ حالات میں سارا انحصار سعودی عرب کے تیل پر ہو گا جس سے پوری دنیا کی ضروریات پوری نہیں کی جا سکتیں۔ نیز سب سے بڑا مسئلہ سپلائی لائن کا ہے۔ یمن کئی مرتبہ اس علاقے میں اسرائیل اور اتحادیوں کے جہازوں کو نشانہ بنا چکا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ جب تک عالمی معیشت کو شدید دھچکا نہیں لگے گا شاید اسرائیل اور امریکہ غزہ کے معاملے کو حل کرنے کی طرف نہیں بڑھیں گے۔ خبروں کے مطابق اب تک اسرائیل کو تقریباً 56 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ بجٹ میں مسلسل کٹوتیاں کی جا رہی ہیں اور غیر ملکی قرضوں کے حجم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اندرونِ ملک بھی حکومت کے خلاف غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور تقریباً 68 فیصد سے زائد اسرائیلی نیتن یاہو کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔
ملکی معیشت کی بات کریں تو ایف بی آر نے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے اقدامات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے نان فائلرز کی حتمی فہرستیں مرتب کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ اقدام آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت کیا جا رہا ہے‘ جن میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جون 2024ء تک 15 سے 20 لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لائے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ نان فائلرز کی حتمی فہرست مرتب کرنے کے بعد ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکس نیٹ کی توسیع کے لیے ڈسٹرکٹ ٹیکس کے 145 نئے دفاتر بھی قائم کیے گئے ہیں جبکہ ریوینو بورڈ کو نان فائلرز کے بجلی اور گیس کے کنکشنز منقطع اور موبائل سم بلاک کرنے کا اختیار بھی مل گیا ہے۔ گزشتہ ماہ ایف بی آر نے آئی ایم ایف کے وفد کو ادارے میں اصلاحات سے آگاہ کیا تھا جبکہ حکومت نے وفد کے سامنے دعویٰ کیا کہ ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھا کر محصولات کو بڑھایا جا رہا ہے۔ یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے‘ اس کا اندازہ چند ماہ میں ہو جائے گا۔ ٹیکس نیٹ کو ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے وسیع کرنے کا بھی منصوبہ ہے اور تقریباً 31 لاکھ ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ قبل ازیں ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے تاجر دوست سکیم شروع کی گئی اور تاجروں کو 30 اپریل تک رجسٹریشن کرانے کی مہلت دی گئی‘ رجسٹریشن نہ کرانے کی صورت میں جرمانہ ہو سکتا ہے۔ ایف بی آرکو اس سکیم سے سالانہ تقریباً 500 ارب روپے کے اضافی ٹیکس کی توقع ہے۔ تاجردوست سکیم کا اطلاق تاجروں اور دکانداروں پر ہو گااور ان کا کم از کم ایڈوانس ٹیکس 1200 روپے ہو گا۔ ماہانہ ایڈوانس انکم ٹیکس کی پہلی وصولی 15 جولائی سے شروع ہو گی جس کے بعد ہر ماہ کی 15 تاریخ کو وصولی ہو گی۔ پورے سال کا ٹیکس یکمشت ادا کرنے اور 2023ء کے گوشوارے جمع کرانے والوں کو 25 فیصد رعایت ملے گی۔ چھوٹے تاجروں‘ دکانداروں‘ ہول سیلرز اور ریٹیلرز کے علاوہ مینوفیکچررز کم ریٹیلرز‘ امپورٹر کم ریٹیلرز پر بھی اس سکیم کا اطلاق ہو گا۔ اہداف کے حصول کے حوالے سے ایف بی آر کی کارکردگی پچھلے کئی کوارٹرز سے بہتر نظر آ رہی ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے علاوہ مارچ کے مہینے کا ٹیکس ہدف بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔ رواں مالی سال جولائی تا مارچ ایف بی آر نے 6 ہزار 710 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا جبکہ ٹیکس ہدف 6 ہزار 607 ارب روپے تھا۔
اگرچہ ملک اس وقت شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے؛ تاہم ان حالات میں بھی قرضوں کی ادائیگی بروقت کی جا رہی ہے جو حوصلہ افزا ہے۔ سٹیٹ بینک نے ایک ارب ڈالر کے یورو بانڈز کی ادائیگی کر دی ہے۔ 2024ء میں پاکستان کے ڈالر کے مالیت والے بانڈز میں 84 فیصد اضافہ ہوا۔ اس وقت آئی ایم ایف سے 6 سے 8 ارب ڈالر کے قرض پیکیج کے حصول کے لیے بھی بات چیت ہو رہی ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے زیادہ ریونیو‘ کم مالیاتی خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے متعدد اصلاحات تجویز کی ہیں۔ اس وقت پاکستان آئی ایم ایف کا چوتھا سب سے مقروض ملک ہے اور واجب الادا رقم کا حجم 7 ارب 72 کروڑ ڈالر ہے۔ نئے معاہدے پر دستخط کی صورت میں یہ 24واں بیل آؤٹ پیکیج ہو گا۔ آئی ایم ایف سے معاملات آگے بڑھانے کے لیے وزیر خزانہ امریکہ روانہ ہو گئے ہیں جبکہ جلد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سربراہان کے علاوہ دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے اعلیٰ عہدیداران اور چین‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور دیگر دوست ممالک کے وزرائے خزانہ سے بھی ملاقاتوں کی توقع ہے۔