آئی ایم ایف معاہدہ‘ معیشت پر اثرات؟؟

وزیر خزانہ آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ وہ پُر امید ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے قرض پروگرام کے خدوخال مئی میں طے پا جائیں گے۔ریٹنگ ایجنسیوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے تاکہ عالمی قرض مارکیٹ کے پاس جانے کے لیے بنیادی کام کیا جاسکے۔ پاکستان حالیہ مہینوں میں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں کامیاب رہا ہے اور جون کے اختتام تک یہ ذخائر 10 ارب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔پاکستان کا موجودہ تین ارب ڈالر کا آئی ایم ایف قرض پروگرام اپریل کے آخر میں ختم ہو رہا ہے اور حکومت طویل اور بڑے قرض پروگرام کی خواہاں ہے تاکہ اقتصادی استحکام کے ساتھ ہی ضروری سٹرکچرل اصلاحات کی جاسکیں۔وزیر خزانہ نے عالمی مالیاتی ادارے اور عالمی بینک کے ساتھ سپرنگ اجلاس کے دوران ادارے کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے ملاقات کی تھی۔ وزیر خزانہ مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں لیکن حقائق کچھ مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے 29 اپریل تک اجلاس کا شیڈول جاری کردیا ہے جس میں پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں کیا گیا جبکہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف لیول معاہدہ گزشتہ ماہ 20 مارچ کو طے پایا تھا۔ آئی ایم ایف نے اس پر زور دیا تھا کہ پاکستانی معیشت کو بحال کرنے کے لیے اصلاحات کو ترجیح دینا نئے قرض پیکیج کے حصول سے زیادہ اہم ہے۔آئی ایم ایف کے عہدیدار کا یہ تبصرہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے حالیہ اعلان کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ ایک اہم اور توسیع شدہ قرض پیکیج کے حصول پر عمل پیرا ہے۔اس کے علاوہ وزیر خزانہ اقوام متحدہ سے بھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسے آئی ایم ایف کی جانب سے موسمیاتی معاونت کے اہل ممالک کی فہرست سے خارج کردیا گیا ہے۔دوسری جانب آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو چھ ایسے ملکوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جنہیں اس سال شدید تنازعات کا سامنا ہے۔اس فہرست میں پاکستان کے علاوہ عراق‘ شام‘ صومالیہ‘ سوڈان اوریمن شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق تنازعات اور سخت میکرو اکنامک پالیسیوں کی شرائط کی وجہ سے ان ملکوں کی معاشی حالت پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو اگلے تین سالوں میں ہر سال 25 ارب ڈالر کا انتظام کرنا ہے تاکہ بیرونی ادائیگیاں کی جاسکیں۔یہ فنڈز قرضے کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاری سے بھی ارنیج کرنا ہوں گے‘مگر اس وقت ملک کے منفی تشخص کی وجہ سے یہ مشکل ہو رہا ہے اور یہ صورتحال ملک کے برآمدی آرڈرز اور علاقائی تجارت پر بھی منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا 24واں تین سالہ مجوزہ پیکیج اگر منظور ہو جاتا ہے تو اس کا حجم 6 سے 8 ارب ڈالر کے درمیان ہو سکتا ہے جو ملک کا اب تک کا سب سے بڑا قرض ہوگا‘ لیکن یہ معاملہ جلد حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اصلاحات کے نام پر ملک میں مہنگائی بلند ترین سطح پر ہے۔ اگرچہ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کیلئے روپے کی قدر میں زیادہ کمی کی ضرورت نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف ان کے موقف کو مانتا ہے یا نہیں۔ پاکستان نے جنوری 2023ء میں کرنسی کی قیمت میں واضح کمی کی تھی۔ عمومی طور پر قرض لینے والے ممالک پر آئی ایم ایف کا سب سے بڑا دباؤ یہی ہوتا ہے کہ کرنسی کی قدر میں کمی کی جائے۔ ممکن ہے کہ حکومت کرنسی کی قدر میں زیادہ کمی نہ کرے لیکن پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب بجلی‘ گیس کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ ہے۔چینی قرضوں کے حوالے سے بھی آئی ایم ایف کو تشویش ہے‘یہ اس وقت پاکستان کے بیرونی قرضوں کے 30 فیصد سے زائد ہیں۔ وزیر خزانہ نے واشنگٹن میں چینی ہم منصب سے بھی ملاقات کی‘ جس میں مالی سال 2025-26ء کے دوران پاکستان کے پانڈا بانڈ کو لانچ کرنے کے حوالے سے بات ہوئی۔علاوہ ازیں سی پیک سمیت دیگر منصوبوں پر بھی بات ہوئی۔ چین کے ساتھ پاکستان کا تعلق شاید مغربی طاقتوں کو زیادہ پسند نہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کے باوجود گردشی قرضوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے‘ حکومتی اخراجات میں کمی نہیں ہو رہی۔ اگلے پیکیج کو حتمی شکل دینے سے پہلے خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری سمیت کچھ اصلاحات کرنے پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب روس نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ وہ چاول کی درآمدات پر دوبارہ پابندی عائد کر دے گا۔بلاشبہ پاکستان چاول کی برآمدات میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا میں پاکستانی چاول کی مانگ بڑھ رہی اور برآمدات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں مالی سال چاول کی برآمدات میں تقریباً 86 فیصد اضافہ ہوا۔ جولائی سے فروری کے عرصے میں‘ پاکستان نے تقریباً اڑھائی ارب کے لگ بھگ چار ملین ٹن سے زائد چاول برآمد کیے۔ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں برآمد کیے جانے والے ڈھائی ملین ٹن چاول کی مالیت ایک ارب تیس کروڑ ڈالر تھی‘ جس کا مطلب ہے کہ اس سال برآمدات کی مقدار اور مالیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ باسمتی چاول کی برآمدات میں اگرچہ مجموعی برآمدات کے مقابلے میں کم اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جولائی سے فروری کے دوران پاکستان نے تقریباً 540 ملین ڈالر مالیت کے باسمتی چاول برآمد کیے ہیں۔ گزشتہ سال کے اس عرصے میں تقریباً 386 ملین ڈالر مالیت کے چاول برآمد کیے گئے تھے‘ جس کا مطلب ہے کہ اس سال باسمتی چاول کی برآمدات میں تقریباً38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اعدادوشمار حوصلہ افزا ہیں‘ لیکن روس کی جانب سے تنبیہ کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔ روس کی Federal Service for Veterinary and Phytosanitary Surveillance (FSVPS)نے پاکستان سے درآمد شدہ چاول کی کھیپ پر بین الاقوامی اور روسی Phytosanitary معیار کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ چاول کی کھیپ میں ایک کیڑے Megaselia scalaris (Loew)کی موجودگی کی نشاندہی کی گئی ہے۔FSVPS نے روس میں پاکستانی سفارتخانے کے نمائندے اور تجارتی نمائندے سے اس معاملے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ماسکو میں پاکستانی سفارتخانے کے تجارتی ونگ نے روسی اتھارٹی کے خط کا انگریزی ترجمہ وزارتِ تحفظ خوراک کے پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ اور دیگر متعلقہ اداروں کو بھجوا دیا ہے۔سفارتخانے کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ بالا صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ درخواست کی جاتی ہے کہ فوری طور پر تحقیقات کی جائیں اور تحقیقات کے نتائج کوFSVPS کے ساتھ شیئر کیا جائے تاکہ مستقبل میں ممکنہ پابندی سے بچا جا سکے۔ روس نے 2019ء میں ایسی بنیادوں پر پابندی عائد کی تھی جو تقریبا ًدو سال تک برقرار رہی‘ تاہم دونوں ممالک کے حکام کے مذاکرات کے ایک سلسلے کے بعد اس پابندی کو اٹھا لیا گیا۔ دسمبر 2006ء میں بھی روس نے فوڈ سیفٹی کے معیار پر پورا نہ اترنے پر پاکستان سے چاول کی درآمد روک دی تھی۔اس سے پہلے متحدہ عرب امارت نے کم معیار کا گوشت سپلائی کرنے پر پاکستانی گوشت پر پابندی لگانے کا عندیہ دیا تھا۔ اگر کچھ پاکستانی پروڈکٹس کی مارکیٹ اچھی ہے تو حکومت کو ان مصنوعات کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے بہتر سپروائزری کی ضرورت ہے۔ ایکسپورٹ کیلئے خصوصی پروٹوکولز بنانا اور ان پر عملدرآمد کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں