بجٹ میں تبدیلی کے امکانات اور معاشی اثرات

مالی سال 2024-25ء کا وفاقی بجٹ پیش ہونے کے بعد سے عوامی نمائندے اس کوشش میں ہیں کہ وزیراعظم سے ٹیکس ریلیف حاصل کیا جائے لیکن ابھی تک مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بجٹ بنانے سے پہلے یہ ذہن بنا لیا گیا تھا کہ اسے تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ سرکار اسے آئی ایم ایف کا دباؤ کہہ رہی ہے جبکہ عوام اور ان کے نمائندے اسے حکومت کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز نے وزیراعظم اور وزیرخزانہ سے رئیل اسٹیٹ پر ٹیکسز کو کم کرنے کی درخواست کی ہے لیکن اب تک کی اطلاعات کے مطابق شنوائی نہیں ہوئی۔ رئیل اسٹیٹ پر کیپٹل گین ٹیکس اور پلاٹ کی ٹرانزیکشن پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی جیسے نئے ٹیکسز نے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والوں کے ساتھ ساتھ عام آدمی کو بھی پریشان کر دیا ہے۔ فائلرز کے لیے 15 فیصد اور نان فائلرز کے لیے 45 فیصد تک کیپٹل گین ٹیکس لگایا گیا ہے‘ جبکہ صوبوں کو سی وی ٹی ٹیکس اور سٹامپ ڈیوٹی ٹیکس بھی ادا کرنا ہوں گے۔ 7E کا ٹیکس اس کے علاوہ ہے۔ نان فائلرز کے لیے ریٹ تین گنا ہیں۔ یعنی دس سال قبل اگر کوئی پلاٹ 24 لاکھ میں خریدا گیا اور آج اس کی قیمت پونے دو کروڑ ہے‘ اور بیچنے والا نان فائلر ہے تو اسے اس پلاٹ کو بیچنے پر تقریباً اسی لاکھ روپے ٹیکس سرکار کو دینا پڑ سکتا ہے۔ سرکار کا مؤقف ہے کہ اس نے یہ ٹیکس اس لیے لگایا تاکہ نان فائلرز کو فائلر بنایا جا سکے‘ مگر یوں لگتا ہے کہ سرکار نے نان فائلرز کو فائلر بنانے کے لیے بندوق کے بجائے توپ کا فائر کر دیا ہے۔ یا یوں سمجھ لیں کہ جو کام ایک گولی سے ہو سکتا تھا‘ اس کے لیے میجر سرجری کی جا رہی ہے۔ ممکن ہے حکومت کو مطلوبہ نتائج حاصل ہو جائیں لیکن اس سرجری میں عوام کا نقصان بہت زیادہ ہو جائے گا۔ پیچیدہ ٹیکسز بھی بڑا مسئلہ ہیں۔ ابھی صورتحال یہ ہے کہ نئے بجٹ کے بعد ٹیکس ماہرین بھی کنفیوز ہیں کہ کیا کیپٹل گین ٹیکس نئے مالی سال کی پراپرٹیز پر لگے گا یا پرانی پراپرٹیز پر بھی یہ لاگو ہو گا۔ علاوہ ازیں کیا ایڈوانس ٹیکس پراپرٹی بیچتے وقت کیپٹل گین ٹیکس میں سے ایڈجسٹ کیا جا سکے گا یا ریٹرن فائل کرتے وقت ایڈجسٹ ہو گا؟ ابھی تک اس صورتحال کو واضح نہیں کیا گیا۔ ان حالات میں رئیل اسٹیٹ کی ٹرانزیکشن کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
مالی سال 2023-24 ء میں چھ سال پرانی پراپرٹی بیچنے پر کوئی کیپٹل گین ٹیکس نہیں تھا مگر نئے بجٹ میں وقت کی حد ہی ختم کر دی گئی ہے۔ اس سے عام آدمی‘ جو رہنے کے لیے گھر خرید رہا ہے یا نیا بنانے کے لیے پرانا گھر بیچ رہا ہے‘ اس پر ناقابل تلافی بوجھ پڑے گا؛ چنانچہ اس ٹیکس سکیم سے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والوں سے زیادہ عام آدمی متاثر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری طرف رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والے خود کو مجرم سمجھنے لگے ہیں۔ پاکستان میں عوامی سطح پر پلاٹس‘ گھروں اور فلیٹس میں سرمایہ کاری کرنے کا رجحان زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکار انڈسٹری لگانے کے لیے مناسب ماحول پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اب اگر کسی کے پاس کچھ بچت ہے تو وہ اسے کہاں محفوظ کرے‘ سرکار اس بارے بھی رہنمائی فرما دے۔ ملک میں کاروبار کرنے والوں کو حکومت کی جانب سے سہولتیں دی جاتی ہیں لیکن ہماری سرکار سرمایہ کاری کی مشکیں کسنے پر تلی ہوئی ہے۔ ایک ہزار گز کے پلاٹ پر کمرشل تعمیر کرنے پر تقریباً آٹھ سو ملین مقامی انڈسٹری کو منتقل ہوتا ہے اور تقریباً 45 سے زیادہ صنعتیں ایکٹو ہوتی ہیں۔ بیرونِ ملک سے پاکستانی جو زرمبادلہ بھیجتے ہیں اس کا بھی تقریباً 70 فیصد رئیل اسٹیٹ میں لگایا جاتا ہے۔ اگر ٹیکسوں کی بھرمار ہو گی اور حکومت نے ٹیکس ریٹس اور مدت پر نظر ثانی نہ کی تو یہ زرمبادلہ دبئی یا کہیں اور منتقل ہوسکتا ہے۔ کچھ دن قبل دبئی میں پاکستانیوں کی جو 12 ارب ڈالر کی جائیدادوں کا انکشاف ہوا تھا‘ وہ ڈیٹا 2022ء تک کا ہے اور اس میں وہ لوگ بھی شامل نہیں ہیں‘ جو ابھی قسطیں ادا کر رہے ہیں اور تین چار سال بعد قسطیں مکمل ہو کر جائیدادیں ان کے خریداروں کے نام منتقل ہوں گی۔ اگر 2024ء کا ڈیٹا نکلوایا جائے تو ممکن ہے کہ دبئی میں پاکستانی پراپرٹیز 12 کے بجائے 24 ارب ڈالر کی ہوں۔
آج کے دور میں سرمایہ کاری کا کوئی ملک اور رشتہ نہیں ہوتا۔ جہاں سے منافع ملے گا سرمایہ وہیں منتقل ہونا شروع ہو جائے گا۔ مگر ہماری سرکار اس معاملے کو سمجھنے اور مسائل کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھاؤ کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا ہے کہ وہ پراپرٹیز کی ایف بی آر ویلیو کو مزید بڑھائیں گے۔ ایف بی آر ویلیو کو مارکیٹ ویلیو کا تقریباً 90 فیصد تک بڑھائیں گے تاکہ مزید 70 ارب روپے ٹیکسز اکٹھے کیے جا سکیں۔ عوامی سطح پر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ سرکار ٹیکس لینے کے تو نئے طریقے نکال رہی ہے لیکن یہ بتانا مناسب نہیں سمجھتی کہ وہ اس ٹیکس کے بدلے عوام کو کیا دے رہی ہے؟ سکولوں کی فیس‘ ہسپتالوں کے بل اور بجلی‘ گیس سمیت ضرورت کی ہر چیز عوام اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں۔ سرکار اگر بدلے میں سہولتیں بھی فراہم کرے تو ٹیکس ادا کرنے سے عوام کو انکار نہیں۔ میرے خیال میں کیپٹل گین ٹیکس کے نئے قوانین سے سرکار کو شاید مطلوبہ ٹیکس ریونیو بھی نہیں مل سکے گا۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کچھ نہیں ہے۔ یہ تقریباً دو فیصد ہے جو 20 فیصد ہونا چاہیے۔ رئیل اسٹیٹ قوانین کی ری سٹرکچرنگ ہونی چاہیے۔ پراپرٹی کا کوئی بھی کاروبار ایس ای سی پی میں رجسٹریشن کے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ 2003ء میں رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ متعارف کرایا گیا تھا‘ جس کے تحت کوئی بھی ڈویلپر اس وقت تک رئیل اسٹیٹ کا کاروبار نہیں کر سکتا جب تک وہ ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ نہ ہو۔ دبئی اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں سرکار اور ڈویلپر کا ایسکرو کے تحت اکٹھا اکاؤنٹ کھلتا ہے جس سے عوام کا اعتماد بڑھتا ہے۔ ہر ٹرانزیکشن رجسٹرڈ ہوتی ہے۔ اس سے ٹیکس ریٹ کم ہو جاتا ہے اور ٹیکس زیادہ اکٹھا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے دبئی طرز کا سسٹم لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔
یہی صورتحال برآمد کنندگان کے ساتھ ہے۔ برآمدکنندگان کا وفد وزیراعظم سے ملا اور گزارش کی کہ ایک فیصد فکسڈ ٹیکس رجیم کو بڑھا کر 1.5 فیصد کر دیا جائے لیکن منافع پر 29 فیصد ٹیکس نہ لگایا جائے۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے بھی برآمدکنندگان کے حق میں ٹویٹ کیا اور انہیں ایف بی آر کے رحم و کرم پر نہ چھوڑنے کی بات کی ہے۔ اس کے بعد امید تھی کہ وزیراعظم اسمبلی میں برآمدکنندگان کے حوالے سے مثبت اعلان کریں گے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا اور اسمبلی سیشن میں اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ سرکار کا کہنا ہے کہ اس سے وہ 175 ارب روپے کے ٹیکسز اکٹھا کر سکیں گے۔ ممکن ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہو جائیں لیکن بہت سی ایکسپورٹ کمپنیاں شاید بند ہو جائیں۔ برآمدکنندگان پہلے ہی گلہ کرتے ہیں کہ ڈالر ریٹ بڑھ نہیں رہا لیکن خام مال اور دیگر اشیا مہنگی ہوتی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پرفارم نہیں کر پا رہے۔ جب بھارت‘ بنگلہ دیش اور چین کم ریٹ پر مال بنا کر دینے کو تیار ہیں تو پاکستان کو آرڈر کس طرح مل سکتا ہے؟ ٹیکسز کا بوجھ بڑھا کر اس انڈسٹری کو مزید دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں