آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں جاری ہیں۔ حسب سابق اس بجٹ کے عوام دوست ہونے کے امکانات بھی کم ہی ہیں۔ پاکستان رواں مالی سال کے ٹیکس اہداف حاصل نہیں کر پایا۔ ابھی تک دس ماہ کا خسارہ تقریباً 830 ارب روپے ہے۔ اپریل میں بھی تقریباً 118 ارب روپے کا خسارہ ہے‘ جس پر آئی ایم ایف کو تحفظات ہیں۔ اگلے مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس اہداف تقریباً 1500 ارب روپے سے بڑھ سکتے ہیں۔ چیئرمین ایف بی آر نے پہلے ہی عندیہ دے دیا ہے کہ بجٹ میں ریلیف ملنے کے امکانات کم ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے اور کون قصوروار ہے‘ اس حوالے سے عوامی سطح پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایف بی آر افسران ٹیکس اہداف حاصل نہیں کر پا رہے اس کے باوجود ان کی تنخواہوں میں 140 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے‘ جبکہ چھوٹے ملازمین کے الائونسز بند کیے جا رہے ہیں۔ اگر افسران کا احتساب نہ کیا گیا تو ماضی کی طرح مستقبل میں بھی آسان طریقوں سے ٹیکس حاصل کرنے کی روایت برقرار رکھی جا سکتی ہے۔ سیلز ٹیکس بڑھا کر یا پٹرولیم لیوی میں اضافہ کر کے ٹیکس اہداف حاصل کرنے کی کوشش جاری رہ سکتی ہے۔ پہلے ہی پٹرولیم لیوی 18 روپے سے بڑھا کر تقریباً 78 روپے کی جا چکی ہے۔ نئے بجٹ میں آئی ایم ایف سے اس میں مزید اضافے کا وعدہ کیا جا سکتا ہے۔ صدرِ پاکستان نے ٹیکس آرڈیننس میں تبدیلی کے ذریعے ایف بی آر کے اختیارات بڑھا دیے ہیں جو فوراً قابلِ عمل ہیں۔ ایف بی آر افسران اپنی ناکامی عدالتوں میں زیر التوا کیسز پر ڈال رہے ہیں۔ صدرِ پاکستان نے اس حوالے سے انہیں اختیار دیا ہے کہ وہ عام آدمی کے اکاؤنٹ سے براہ راست ٹیکس آرڈر کے برابر فنڈز نکلوا سکتے ہیں۔ ملک بھر کی چیمبرز آف کامرس اس پر سراپا احتجاج ہیں۔ اس طریقے سے بلیک میلنگ بڑھنے کا اندیشہ زیادہ ہے اور ایک ماہ میں ٹیکس اہداف حاصل ہونا بھی مشکل دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کوئی آرڈیننس لانا ہے تو ایسا بجٹ کے بعد بھی کیا جا سکتا تھا۔ ٹیکس فائلرز کے اکاؤنٹس سے رقم نکلوانے کے ایف بی آر اختیار کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ کاروباری برادری چند دنوں میں عدالتوں سے رجوع کر سکتی ہے‘ جس سے بزنس کمیونٹی کا حکومت پر سے اعتماد مزید کم ہو سکتا ہے۔
ملک بھر کے چیمبرز آف کامرس کی جانب سے بجٹ کے لیے کئی تجاویز بھیجی گئی ہیں اور کچھ کی جانب سے تجاویز تیار کی جا رہی ہیں۔ سرکار کو موصول ہونے والی تجاویز میں اکثر ریلیف کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تجاویز اور ریلیف میں فرق ہوتا ہے۔ کیمیکل سیکٹر نے ود ہولڈنگ ٹیکس میں ریلیف مانگا ہے‘ ٹیکسٹائل سیکٹر درآمدات پر ٹیکس ریلیف کا تقاضا کر رہا ہے اور کنسٹرکشن سیکٹر بھی ٹیکس ریلیف حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے‘ زیادہ بہتر یہ ہے کہ سرکار کے سامنے منصوبہ رکھا جائے کہ ٹیکس اکٹھا کیسے ہو سکتا ہے۔ پاکستان کا بڑا معاشی مسئلہ کیش اکانومی ہے۔ تقریباً 78 فیصد ٹرانزیکشنز کیش میں ہیں۔ ملکی جی ڈی پی کا تقریباً 40 فیصد کیش اکانومی ہے۔ جی ڈی پی میں ٹیکس تناسب تقریباً 9 فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ کیش اکانومی کا سائز چھوٹا کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ بجٹ میں اس حوالے سے مناسب حکمت عملی پیش کیے جانے کی ضرورت ہے۔ دکانداروں اور تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کئی سالوں سے دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن کامیابی ملتی دکھائی نہیں دے رہی۔ رواں مالی سال کے دس ماہ میں تاجر برادری نے تنخواہ دار طبقے کی نسبت تقریباً 1420 فیصد کم ٹیکس ادا کیا ہے۔ پچھلے دس ماہ میں تنخواہ دار طبقے نے تقریباً 390 ارب روپے ٹیکس ادا کیا اور تاجر برداری نے صرف 26 ارب روپے کے قریب۔ ترقی یافتہ ممالک میں تاجر تنخواہ دار طبقے کی نسبت زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ وہ ٹیکس خودکار نظام کے تحت وصول ہوتا ہے کیونکہ تمام ترقی یافتہ ممالک تقریباً کیش لیس اکانومی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ اس لیے زیادہ ٹیکس دے رہا ہے کیونکہ یہاں کیش لیس ٹرانزیکشنز بہت کم ہیں۔ تنخواہ دار طبقے کو انعام کے طور پر ریلیف دیے جانے کی ضرورت ہے۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ ایک منصوبہ بندی کے تحت ڈالا جا رہا ہے۔ سرکار نے کم سے کم تنخواہ 37 ہزار روپے مقرر کر رکھی ہے لیکن اس پر عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ نجی اداروں سے گلہ کیا جاتا تھا کہ وہ اپنے ملازمین کو سرکار کی جانب سے طے کردہ کم ازکم تنخواہ نہیں دیتے اور اس حوالے سے چیک اینڈ بیلنس کو مضبوط کرنے کے دعوے سامنے آتے رہے ہیں لیکن حالات شاید اس سے بھی زیادہ خراب ہو چکے ہیں۔ پارلیمنٹری کمیٹی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ سرکاری اداروں میں بھی سرکاری ملازمین کو 37 ہزار تنخواہ دینے کے قانون پر عمل نہیں ہو رہا ۔ اس سے زیادہ حیران کن بات کیا ہو گی کہ تنخواہ سے متعلق قانون بنانے والی پارلیمنٹ کی کینٹین کے کئی ملازمین بھی کم از کم اجرت سے محروم ہیں۔ تعلیم اور سپورٹس سمیت کئی سرکاری ادارے اس قانون پر عمل درآمد نہیں کر رہے بلکہ کچھ اداروں میں تو 12 سے 15 ہزار تنخواہ بھی دی جا رہی ہے۔ وزیرخزانہ اگر معاملے کا نوٹس لیں تو تنخواہ دار طبقے کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس نو مئی کو ہو رہا ہے جس میں پاکستان کو دو ارب 30 کروڑ ڈالرز دینے سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے پاکستان کے قرض پروگرام کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے کہا ہے مگرآئی ایم ایف کسی ایک ملک کے مطالبے کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتا بلکہ ملک کے ساتھ طے شدہ معاہدے اور کارکردگی کی بنیاد پر معاملات کو آگے بڑھاتا ہے۔ اسی بنیاد پر آئی ایم ایف نے بھارت کی درخواست پر معذرت کر لی ہے۔ امید ہے کہ پاکستان کو اگلی قسط جلد جاری ہو جائے گی۔ بھارت نے نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ ورلڈ بینک کو بھی پاکستان کے قرضوں کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے کہا ہے۔ ورلڈ بینک کی طرف سے ابھی تک جواب نہیں آیا۔
بہرکیف آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس 9 مئی کو رہا ہے جس میں7 ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلیٹی پروگرام کے پہلے جائزے اور 1.3 ارب ڈالر کے ماحولیاتی تحفظ پر مبنی قرض پروگرام کے تحت نئے معاہدے پر غور کیا جائے گا۔ اس اجلاس میں پاکستان سے متعلق کیا فیصلہ ہوتا ہے اس کا انحصار بجٹ پر ہے۔ ممکن ہے کہ بجٹ تجاویز آئی ایم ایف کو بھجوا دی جائیں اور مطالبات پر بروقت عمل کر لیا جائے۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ ڈالر کو آزاد چھوڑا جائے۔ اس وقت کرنسی ایکسچینج ریٹ میں ڈالر تگڑا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔شاید آئی ایم ایف کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ ڈالر کو کنٹرول نہیں کیا جا رہا۔ ترقیاتی بجٹ اور چین کے قرضوں پر بھی آئی ایم ایف معترض رہا ہے۔ سرکار اس معاملے کو کیسے حل کرتی ہے یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ادھر حکومت پنجاب نے آٹھ ارب ڈالرز کی لاگت سے لاہور تا راولپنڈی بلٹ ٹرین کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ رقم تقریباً پاکستان کے سرکاری فارن کرنسی ذخائر کے برابر ہے۔ پنجاب حکومت یہ منصوبہ اپنے وسائل سے پورا نہیں کر سکتی‘ اس کے لیے ممکنہ طور پر چین سے قرض لینا پڑے گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پنجاب کو بلٹ ٹرین کی ضرورت ہے؟ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے خرچ کا منصوبہ بنایا جائے۔ اگر اس طرح کے منصوبے شروع کیے جاتے رہے تو آئی ایم ایف سے قرض ملنے میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔