پاک بھارت جنگ اور آئی ایم ایف کے معاشی اثرات

جب کسی ملک میں جنگ شروع ہو جائے تو ملکی مستقبل کے بارے میں شکوک وشبہات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر جنگ میں شکست ہو جائے تو معیشت بُری طرح متاثر ہوتی ہے اور اگر فتح مل جائے تو معاشی ترقی کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔ دشمن کے خلاف پاکستان کی واضح فتح نے بھارتی معیشت کو بڑا دھچکا دیا ہے۔ ایک ہی دن میں تقریباً 85 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور آنے والے دنوں میں اس نقصان میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ عالمی سرمایہ کار اپنے اثاثے ایسے ملک میں نہیں رکھنا چاہتے جہاں مخالف فوج ملک میں داخل ہو کر صرف پچاس منٹ کی کارروائی میں ملک کو اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچا دے۔ ماضی میں متحدہ عرب امارات نے مقبوضہ کشمیر میں بھاری سرمایہ کاری کی تھی۔ مودی سرکار دنیا میں یہ تاثر دے رہی تھی کہ مسئلہ کشمیر ختم ہو چکا ہے اس لیے کشمیر میں سرمایہ کاری کریں‘ لیکن پاکستان کی فتح کے بعد امریکی صدر نے کشمیر کا مسئلہ دوبارہ اجاگر کر دیا ہے۔ ان حالات میں کشمیر کے نام پر مزید سرمایہ کاری حاصل کرنا بھارت کے لیے بہت مشکل ہو گا۔ اس کے برعکس پاکستان کی فتح ملک کے لیے ترقی کے نئے دروازے کھول سکتی ہے۔ اندرونی وبیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھ سکتا ہے کہ ان کا سرمایہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ پاکستان سے سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے کے رجحان میں کمی آ سکتی ہے۔ پاکستان اور چین کے اتحاد میں مزید مضبوطی عالمی سطح پر پاکستان کو مزید مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ سی پیک سمیت کئی منصوبوں میں دیگر ممالک کی دلچسپی بڑھ سکتی ہے۔ پاکستانی جے ایف 17 اور چینی جے 10 سی کی ڈیمانڈ بڑھ سکتی ہے۔ اس فتح کا معاشی فائدہ پاکستان کے دوست ممالک کو بھی ہو سکتا ہے۔ چین اور ترکیہ نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا اور اپنا اسلحہ اور ٹیکنالوجی پاکستان کو دی۔ اطلاعات آ رہی ہیں کہ ترکیہ کے ڈرونز کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے اور مختلف ممالک اپنا اسلحہ کم قیمت پر پاکستان کو دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ ان کی بھی مارکیٹنگ ہو سکے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ جب کفار پوری دنیا میں مسلمانوں پر بم برسا رہے ہوں اور ایک مسلم ملک کفار پر بموں کی بارش کر کے اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا دے اور فاتح قرار پائے تو پوری دنیا خصوصی طور پر مسلم ممالک کی توجہ حاصل ہو سکتی ہے۔ مسلم ممالک پاکستان کو مزید مضبوط کرنے کے لیے بہتر آفر کے ساتھ سامنے آ سکتے ہیں۔ پیسہ ہمیشہ جیتے ہوئے گھوڑے پر ہی لگایا جاتا ہے۔ مضبوط دفاعی حکمت عملی کے ساتھ پاکستان نے مضبوط معاشی حکمت عملی بھی اپنائی ہے۔ بھارت نے آئی ایم ایف سے پاکستان کا قرض پروگرام ریویو کرنے کے لیے دباؤ ڈالا لیکن آئی ایم ایف نے بھارت کو انکار کیا اور معمول کی قسط کے ساتھ آر ایس ایف کے تحت اضافی ایک ارب 30 کروڑ ڈالرز کی بھی منظوری دی ہے۔ گو کہ آئی ایم ایف نے نئے سال کے لیے انتہائی سخت شرائط رکھ دی ہیں لیکن امید ہے کہ پاکستان یہ ہدف حاصل کر سکتا ہے۔ بھارت کا آئی ایم ایف میں شیئر صرف 2.7 فیصد ہے۔ اس شیئر کے ساتھ آئی ایم ایف پر اثر انداز ہونا ایک خواب ہو سکتا ہے‘ حقیقی دنیا میں ایسا کرنا مشکل ہے۔
جب کسی ملکی میں جنگی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو بڑا چیلنج یہ بھی ہوتا ہے کہ سرمائے کو کس طرح محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ عمومی طور پر سونے اور مضبوط کرنسی میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پاکستان میں جب حالات کشیدہ ہوئے تو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ شاید سونے کی ڈیمانڈ بڑھ سکتی ہے اور پاکستانی روپیہ کمزور ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پاکستان میں سونے کی قیمت کا تعین مقامی مارکیٹ کے بجائے زیادہ تر انٹرنیشنل مارکیٹ کرتی ہے۔ امریکہ اور چین کی جنگ سونے کی قیمت پر بڑا اثر ڈال سکتی ہے لیکن پاکستان اور انڈیا کی جنگ سونے کی قیمت کو زیادہ متاثر نہیں کر سکتی۔ سونے کے بڑے خریدار جرمنی‘ چین اور بھارت ہیں۔ پاکستان میں قوتِ خرید کم ہونے کی وجہ سے عوامی سطح پر سونے کی طلب کم ہوتی جا رہی ہے۔ تقریباً 70 فیصد کاریگر یہ کام چھوڑ چکے ہیں۔ عوام میں سونا ذخیرہ کرنے کا رجحان بھی کم ہے کیونکہ یہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ لیکن سٹاک ایکسچینج گولڈ سیکٹر میں اچھی ٹریڈنگ ہو رہی ہے۔ پچھلے ماہ پیپر گولڈ میں تقریباً 90 ارب روپے کی ٹریڈنگ ہوئی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پیپر گولڈ میں آپ معمولی رقم سے بھی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں لیکن پاکستان میں کالے دھن کو محفوظ کرنے اور جنگی حالات سے فائدہ اٹھانے والے بڑے مافیاز موجود ہیں۔ شاید حکومت کے بروقت ایکشن ان مافیاز کے راستے میں رکاوٹ ثابت ہوئے ہیں۔ حکومت نے 60 دنوں کیلئے سونے کی درآمد اور برآمد پر پابندی عائد کر دی اور زیرو ریٹ بھی ختم کر دیا۔ پاکستان سوئٹزرلینڈ سے سونا درآمد کرتا ہے لیکن پاکستانی سونا دبئی کے راستے بھارت بھیجا جاتا ہے۔ انڈیا گولڈ کی خریداری بڑھا کر پاکستانی ڈالر ذخائر پر حملہ آور ہو سکتا تھا۔ عارضی پابندی لگانے سے سونے کی قیمت بڑھنے سے روکنے کا منصوبہ کامیاب دکھائی دیا۔ سونے کے علاوہ ڈالر ریٹ بڑھنے کا خدشہ تھا۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت تقریباً دو سال سے مستحکم ہے۔ اس میں زیادہ اضافہ یا کمی نہیں ہوئی۔ آخری بڑی ہلچل نگران حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہوئی تھی۔ حکومت کی تبدیلی ایک بڑی وجہ تھی اور ڈالر مافیا نے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔ پاک بھارت کشیدگی کے بعد ڈالر کی قیمت کا نہ بڑھنا یہ تاثر پیدا کرتا ہے کہ عوام کو پاک فوج کی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد ہے۔ عوام کو یقین ہے کہ دشمن پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ سٹیٹ بینک کی کڑی نگرانی کے باعث بھی ڈالر کی قدر نہیں بڑھ رہی۔ سٹیٹ بینک نے بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں سے کہا تھاکہ وہ ڈالر پر خصوصی نظر رکھیں اور سخت کنٹرولز کے بعد ڈالرز مہیا کریں۔ اس چیک اینڈ بیلنس کے بہترین نتائج سامنے آئے ہیں۔ جب دو ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو خوبیوں اور خامیوں کا درست اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں ڈالرز لانے کا سب سے بڑا ذریعہ ترسیلاتِ زر ہیں جو سالانہ تقریباً 36 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ سب سے زیادہ ترسیلات عرب ممالک سے وصول ہوتی ہیں لیکن عرب ممالک سے پاکستان آنے والی ترسیلات میں سے تقریباً 90 فیصد انڈین ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے آتی ہیں۔ تمام بڑی ایکسچینج کمپنیوں کے مالک یا تو انڈین ہیں یا ایکسچینج کمپنیوں کے بڑے عہدوں پر انڈین بیٹھے ہیں۔ بدقسمتی سے گلف ممالک میں پاکستان کی ایک بھی بڑی ایکسچینج کمپنی نہیں ہے۔ اس کی وجہ پاکستان کے سخت قوانین اور این او سیز کے مسائل ہیں۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کمپنیاں پاکستان کی ترسیلاتِ زر پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔کشیدگی پاکستان اور بھارت میں ہے جبکہ یہ کمپنیاں بیرونی ممالک میں اُن ملکوں کے قوانین کے مطابق چلنے کی پابند ہیں۔ اگر بھارتی کمپنیاں فارن کرنسی پاکستان بھیجنے میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کریں تو سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس کا بھی بہترین انتظام کر رکھا ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ذریعے بآسانی پیسہ پاکستان بھیج سکتے ہیں۔ یورپی کمپنیوں سے بھی پیسہ بآسانی پاکستان بھیجا جا سکتا ہے‘ لیکن یہ ناکافی محسوس ہوتی ہیں۔ اگر انڈیا کے مقابلے میں بڑی پاکستانی ایکسچینج کمپنیاں بھی گلف ممالک میں موجود ہوں تو پاکستان کا زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ سٹیٹ بینک انڈین ایکسچینج کمپنیوں کو ایک ڈالر کے پیچھے 15 سے 20 روپے فائدہ دیتا ہے۔ اگر یہ نفع حکومت مقامی ایکسچینج کمپنیوں کو دے تو شاید وہ تین گنا سے بھی زیادہ ڈالر پاکستان لا سکتی ہیں۔ اس وقت ایکسچینج کمپنیاں ماہانہ 50 کروڑ ڈالرز حکومت کو دے رہی ہیں۔ اگر بیرونِ ممالک میں ایکسچینج کھولنے میں رکاوٹیں دور کر دی جائیں تو ملک کو ڈیڑھ ارب ڈالر ماہانہ دیا جا سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں