جنگ کے معاشی نقصانات

پاکستان سے جنگ ہارنے کے بعد بھارتی سرکار نے اپنا دفاعی بجٹ مزید بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ تقریباً 50 ہزار کروڑ روپے (بھارتی) کا اضافہ ہے جو پانچ ارب 85 کروڑ ڈالر بنتے ہیں۔ اس کا اعلان آنے والے ضمنی بجٹ میں متوقع ہے جو بھارتی پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران پیش کیا جائے گا۔
کسی بھی ملک کیلئے دفاعی بجٹ بڑھانا اسی وقت فائدہ مند ہو سکتا ہے جب اس کا درست استعمال بھی کیا جائے۔ کسی فوج کیلئے صرف ہتھیاروں کی خریداری ہی اہمیت نہیں رکھتی اس کی تربیت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر فوج کی معیاری تربیت نہ کی جائے تو صرف ہتھیاروں کی کوئی اہمیت نہیں۔ بھارتی سرکار نے شکست کے اثرات کم کرنے کیلئے دفاعی بجٹ بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ اگر جنگی سازو سامان کے حساب سے موازنہ کیا جائے تو بھارت کے پاس پہلے ہی پاکستان سے زیادہ جدید جہاز‘ ڈیفنس سسٹم اور دس گنا زیادہ دفاعی بجٹ ہے‘ اس کے باوجود اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان کا سالانہ دفاعی بجٹ تقریباً 7 ارب 50 کروڑ ڈالر ہے جبکہ بھارت کا دفاعی بجٹ 86 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ صرف رافیل پروگرام پر تقریباً 16 ارب ڈالر خرچ کئے گئے ۔ پاکستان نیوی کا بجٹ تقریباً 900 ملین ڈالر ہے جبکہ انڈین نیوی کے صرف آئی این ایس وکرانت کا بجٹ تقریباً تین ارب 10 کروڑ ڈالر ہے۔ پاکستان تقریباً ایک ارب 70 کروڑ ڈالرز نئے ہتھیاروں کی خرید پر خرچ کرتا ہے جبکہ بھارت تقریباً 22 ارب ڈالرز ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کرتا ہے۔ اگر ایئر فورس کا موازنہ کریں تو مالی اعتبار سے اس میں بھی بہت فرق ہے۔ پاکستان نے 36 جے 10سی تقریباً 40 ملین ڈالر فی جہاز کے حساب سے خریدے تھے جبکہ بھارت نے 36 رافیل طیارے تقریباً 280 ملین ڈالر فی جہاز کے حساب سے خریدے ہیں۔ پاکستان سے شکست کے بعد عوامی اور سٹرٹیجک سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کر رہی ہے کہ پاکستان میں دفاعی سامان خریداری کا معیار اور چیک اینڈ بیلنس بھارت سے بہتر ہے۔
کم بجٹ میں بہترین سامان خریدنے کیلئے مہارت کے اعلیٰ معیار کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ وہ اس شعبے میں بھی بھارت سے بہتر ہے۔ اسی طرح پاکستان ایک سپاہی پر تقریباً 11ہزار 363 ڈالرز خرچ کرتا ہے جبکہ بھارت ایک سپاہی پر تقریباً 57 ہزار 333 ڈالرز خرچ کرتا ہے۔ اس طرح بھارت ایک فوجی پر پاکستان کی نسبت تقریباً پانچ سو فیصد زیادہ بجٹ خرچ کرتا ہے۔ پاکستان کا سالانہ ملٹری پنشن بجٹ تقریباً دو ارب ڈالر ہے جبکہ بھارت کا ڈیفنس پنشن بجٹ تقریباً 17 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کے پاس تقریباً چودہ سو ٹینک ہیں جبکہ بھارت نے صرف ایک مخصوص کوالٹی کے 17 سو ٹینک آرڈر کیے ہیں۔ 2012ء میں بھارت کے آرمی چیف نے وزیراعظم منموہن سنگھ کو ایک خط لکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ انڈین ایئر فورس تقریباً سات فیصد بیکار ہو چکی ہے۔ آرمی کے پاس لڑنے کیلئے ہتھیار بھی مکمل نہیں ہیں۔ 2012ء سے آج تک بھارت ڈیفنس بجٹ تقریباً 748 ارب ڈالرز بڑھا چکا ہے‘ دنیا کے جدید ترین طیارے اور جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹم حاصل کر چکا ہے لیکن اتنے بڑے بجٹ سے صرف 87 گھنٹوں کی جنگ نہیں لڑ سکتا۔ اس سے یہ تاثر تقویت اختیار کر جاتا ہے کہ بھارت دفاعی بجٹ میں مزید اضافہ کر کے بھی جنگ نہیں جیت سکتا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں کہ دفاعی طاقت بڑھانے میں بجٹ اہمیت نہیں رکھتا۔ بجٹ کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ اس لیے پاکستان اپنا دفاعی بجٹ بڑھا سکتا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے فوج پر تنقید کی جاتی رہی ہے کہ بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ ہو جاتا ہے۔ فوج نے خود فیصلہ کیا اور مرحلہ وار اپنا بجٹ کم کیا لیکن شاید آنے والے بجٹ میں دفاعی رقوم بڑھانا ناگزیر ہو جائے۔ اگر بھارت امن کا ماحول قائم رکھے تو پاکستان کو اپنے دفاعی بجٹ میں اضافے کی ضرورت نہیں۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق مالی سال 2026ء میں دفاعی بجٹ میں 18 فیصد تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان چین سے ففتھ جنریشن طیارے لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں ہے۔ آئی ایم ایف نے مزید گیارہ شرائط عائد کر دی ہیں۔ آئی ایم ایف کو مطمئن رکھنا اور دفاعی بجٹ میں اضافے کو بھی ساتھ لے کر چلنا مشکل ہو سکتا ہے۔ لیکن امید ہے کہ پاکستان اسے بہتر انداز میں لے کر چل سکتا ہے۔ ماضی میں بھی مشکل فیصلے بروقت کئے گئے‘ جن کے بہتر نتائج سامنے آئے۔ آج جے 10سی کی دنیا میں دھوم ہے۔ پاکستان نے جب چین سے ان طیاروں کا معاہدہ کیا تھا تو معاشی حالات بہت پیچیدہ اورکمزور تھے۔ نہ چاہتے ہوئے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کیا گیا۔ جنوری 2022ء میں سٹیٹ بینک سے متعلق قانون اسمبلی میں تبدیل کیا گیا۔ آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوا اور فروری 2022ء میں ایک ارب ڈالر کی قسط ملی۔ قسط ملنے کے چار ہفتوں کے بعد چھ جے 10 سی طیارے پاکستان پہنچ گئے۔ 9 اپریل کو تحریک عدم اعتماد کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہو گئی۔ اگست 2022ء میں آئی ایم ایف کے اجلاس میں مزید 1.1 ارب ڈالرز پاکستان کو دیے گئے۔ جس کے چند دن بعد جے 10 سی کے مزید چھ طیارے خریدے گئے۔ اس وقت اس معاملے پر تنقید بھی کی گئی کہ جو ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے وہ جنگی طیارے کیوں خرید رہا ہے؟ لیکن آج کے ماحول میں واضح ہو گیا ہے کہ جدید طیارے خریدنے پر اعتراض مناسب نہیں تھا۔ پاکستانی معیشت اس وقت بہتری کی جانب گامزن ہے‘ ڈیفالٹ کا خطرہ بھی نہیں ہے اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک ایک طرح سے جنگ کی حالت میں ہے۔ بھارت نے جنگ بندی کی درخواست کر کے جنگ تو رکوا لی ہے لیکن وہ کس وقت پاکستان پر دوبارہ حملہ کر دے‘ اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ معیشت ہو یا جنگ‘ دونوں میں بروقت فیصلوں ہی کے نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہ پچھلے پچاس سالوں میں 87 گھنٹوں میں لڑی گئی مہنگی ترین جنگ تھی جس میں ایک گھنٹے میں تقریباً ایک ارب ڈالر خرچ ہوا ۔ 87 گھنٹوں کا مطلب ہے 87 ارب ڈالر اس جنگ کی نذر ہو گئے‘ جس میں تقریباً 80 فیصد خرچ بھارت کا ہوا۔ بھارت کا یومیہ نقصان تقریباً 16 ارب ڈالرز ہوا اور پاکستان کا یومیہ نقصان تقریباً 4ارب ڈالر ہوا۔ چار دنوں میں تقریباً 15 ارب ڈالرز نقصان ہوا۔ یہ رقم پاکستان کے کُل ڈالر ذخائر کے برابر ہے۔ اگر یہ جنگ ایک ماہ تک جاری رہتی تو بھارت کا تقریباً 500 ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا تھا اور پاکستان کا نقصان تقریباً 120 ارب ڈالر سے زیادہ۔ یہ رقم پاکستان کے غیر ملکی قرض کے برابر ہے۔ پاکستان کا کُل قرض تقریباً 135 ارب ڈالر ہے۔ گو کہ بھارت بڑی معیشت ہے لیکن اس کیلئے بھی یہ نقصان بہت بڑا ہے اس لیے وہ جلد نئی جنگ شروع کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان بھارت سے لمبی جنگ کا قائل دکھائی نہیں دیتا۔ وجہ شاید یہ ہے کہ بھارت کا بجٹ زیادہ ہے‘ وہ زیادہ دنوں تک جنگ لڑ سکتا ہے لیکن پاکستان کو کم وقت میں ہی حالات کو اپنے حق میں کرنا ہے‘ اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی ضروری ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے لیے اضافی بجٹ ناگزیر ہے۔ گو کہ پاکستان کا نقصان کم ہوا ہے لیکن جنگ میں جو اسلحہ اور گولہ بارود استعمال ہوا اس کی دوبارہ خریداری کیلئے بھی بجٹ میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور ترقیاتی بجٹ پر سمجھوتا کیا جا سکتا ہے‘ لیکن تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کمی نہیں کی جانی چاہیے۔ پاکستان اور بھارت میں دنیا کے 27 فیصد غریب لوگ آباد ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ غریب افراد بھارت میں ہیں۔ ان حالات میں مزید جنگ کی خواہش بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں