پاکستان میں مالی سال کا آغاز جولائی سے ہوتا ہے اور ہر سال جون کے مہینے میں سالانہ بجٹ پیش کرنا ایک قانونی تقاضا ہے۔ مگرنقطہ نظر سے اس کی زیادہ اہمیت دکھائی نہیں دیتی کیونکہ جو بجٹ پیش کیا جاتا ہے اس میں چند دنوں بعد ہی تبدیلیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ عوام کا مسئلہ مہنگائی ہے۔ ملک میں ہر پندرہ دن بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تبدیل کی جاتی ہیں‘ عوام کی اکثریت کیلئے شاید یہی قیمتیں بجٹ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ماضی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی سالانہ بجٹ میں طے کی جاتی تھیں اور بعد میں انہیں تبدیل نہیں کیا جاتا تھا۔ اس سے عوام اور کاروباری طبقے کو سالانہ فنانشل پالیسی بنانے میں آسانی رہتی تھی۔ اب بھی اگر ہر پندرہ دن بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تبدیل کرنے کے بجائے سالانہ بنیادوں پر قیمتیں طے کی جائیں اور بچت یا خسارے کا حساب سالانہ بنیادوں پر کر لیا جائے تو عوامی اضطراب میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ حکومت کی سب سے بڑی مالی ادائیگی پٹرولیم مصنوعات کی مد میں ہوتی ہے۔ اس حوالے سے پالیسی بنانے میں وقت لگ سکتا ہے‘ تاہم اس کے فائدے زیادہ اور نقصانات کم ہیں۔ رواں مالی سال کے بجٹ میں پٹرول‘ ہائی سپیڈ ڈیزل اور فرنس آئل پر ڈھائی روپے فی لیٹر کی شرح سے کاربن لیوی عائد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیاہے جو کہ اگلے سال سے بڑھ کر پانچ روپے ہو جائے گی۔ اس کا مقصد ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا بتایا جا رہا ہے مگر اس طرح کی تجاویز مضحکہ خیز دکھائی دیتی ہیں کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے ان کے استعمال میں کمی نہیں آتی۔تین سال میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 150سے بڑھا کر 275تک کر دی گئیں‘ پھر بھی پٹرولیم مصنوعات کا استعمال کم نہیں ہوا کیونکہ انرجی کیلئے پٹرولیم مصنوعات کا مؤثر متبادل مہیا نہیں کیا جا سکا۔ دوسری جانب حکومت کی اپنی پالیسیاں ہی ایک دوسرے سے متصادم محسوس ہو رہی ہیں۔ ایک طرف ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کیلئے پٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی لگائی جا رہی ہے اور دوسری طرف ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں پر ٹیکسز بڑھا دیے گئے ہیں۔ 1800سی سی تک کی ہائبرڈ گاڑیوں کی درآمد پر سیلز ٹیکس 18 فیصد کر دیا گیا‘ جو پہلے آٹھ فیصد تک تھا۔ الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر بھی ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔ اس وقت ملک میں الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی ایک بڑی کمپنی اپنے قدم جما رہی ہے اور بھاری سرمایہ کاری کا منصوبہ لے کر آئی ہے۔ الیکٹرک چارجنگ سٹیشنز لگانے کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ ایسے میں ٹیکس بڑھانے سے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ پہلے ہی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا فقدان ہے‘ اس بجٹ میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے حوالے سے بھی کوئی بہتر پالیسی پیش نہیں کی گئی۔ چین پاکستان کا سب سے بڑا سٹرٹیجک پارٹنر ہے اور پاکستان میں سب سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری بھی چین ہی نے کر رکھی ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرنے والی ایسی پالیسیوں سے کیا حاصل کرنا مقصود ہے؟ اگر سرکار کا خیال ہے کہ اس سے ٹیکس آمدن میں اضافہ ہوگا تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے ٹیکس اضافے کے امکانات بہت کم ہیں‘ بلکہ آمدن میں کمی کے خدشات زیادہ ہیں۔ الیکٹرک اور ہائبرڈ کے علاوہ جو چھوٹی گاڑیاں کم پٹرول خرچ کرتی ہیں ان پر بھی اضافی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ 850 سی سی سے کم گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 12فیصد سے بڑھا کر 18فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس طرح چھوٹی گاڑیوں کی قیمت میں تقریباً دو لاکھ روپے تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ صارفین کو جو بچت کم پٹرول کی مد میں ہو سکتی تھی‘ وہ سرکار ایک ہی جھٹکے میں عوام کی جیبوں سے نکال رہی ہے۔ ایسے حالات میں عوام کم پٹرول خرچ کرنے والی مہنگی گاڑیاں کیوں خریدیں گے؟
بجٹ میں نان فائلرز کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نان فائلرز گاڑی‘ مکان اور انویسٹمنٹ شیئرز وغیرہ نہیں خرید سکے گا۔ پچھلے بجٹ میں بھی یہ پابندی عائد کی گئی تھی لیکن فائلرز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا۔ نان فائلرز کے بینک سے کیش نکلوانے پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد سے بڑھا کر ایک فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس طرح نان فائلرز سے اربوں روپے ٹیکس جمع کیا جا رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جو لوگ اربوں روپے نان فائلر ٹیکس ادا کر رہے ہیں‘ ان کی اصل ٹیکس آمدن کیا ہو گی؟ سرکار کے پاس بینکوں کے ذریعے نان فائلرز کا ڈیٹا موجود ہوتا ہے۔ نان فائلرز کو نوٹیفکیشن جاری کر کے ایک محدود عرصہ کے بعد ان کے اکائونٹس بلاک کیے جائیں تو فائلرز کی تعداد بڑھائی جا سکتی ہے‘ اکانومی کو ڈاکیومینٹڈ بنانے میں مدد مل سکتی ہے اور زیادہ ریونیو اکٹھا ہو سکتا ہے۔ پچھلے سال نان فائلر کی اصطلاح ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا مگر یہ ابھی تک ختم نہیں کی جا سکی ہے۔ اسے مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت نے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے۔ چھ لاکھ روپے سے بارہ لاکھ روپے تک سالانہ تنخواہ پانے والوں کیلئے ٹیکس کی شرح پانچ فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کی گئی ہے۔ 12 لاکھ سالانہ آمدنی والے تنخواہ دار پر ٹیکس 30ہزار سے کم کر کے چھ ہزار کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ 22لاکھ روپے تک سالانہ تنخواہ لیتے ہیں اُن کیلئے کم سے کم ٹیکس کی شرح 15 فیصد کے بجائے 11 فیصد کی گئی ہے۔ 22لاکھ روپے سے 32لاکھ روپے تک سالانہ تنخواہ لینے والوں کیلئے ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے کم کر کے 23 فیصد کی جا رہی ہے۔ یہ ریلیف خوش آئند ہے مگر دوسری طرف بینکوں کی سیونگز پر ٹیکس 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دیا گیا ہے۔ کاروباری افراد کے پاس سرمایہ لگانے کے کئی آپشنز ہو سکتے ہیں مگر بینکوں میں زیادہ تر سیونگز تنخواہ دار طبقے ہی کی ہوتی ہیں کیونکہ ان کے پاس سیونگز کا اس سے بہتر آپشن شاید نہیں ہوتا۔ اس طرح ایک ہاتھ سے پیسہ دے کر دوسرے ہاتھ سے نکالا جا رہا ہے۔
شرح سود کم کرنے کا فائدہ عوام تک پہنچانے کیلئے حکومت رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو مہمیز دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ عوام کیلئے دس مرلے تک کے پلاٹ خریدنے اور گھروں کی تعمیر کیلئے قرض دینے کا پلان ہے۔ اس سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کچھ بہتری آنے کی امید ہے‘ لیکن کیپٹل گین ٹیکس کی شرح بڑھانا خرید وفروخت میں کمی لانے کے مترادف ہے۔ پراپرٹی کی خرید وفروخت پر سات فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کی گئی ہے مگر اس سے زیادہ فرق پڑنے کی امید نہیں کیونکہ اس پر پہلے ہی عدالت کا حکم امتناہی موجود ہے اور یہ ٹیکس نہیں لیا جا رہا۔ جائیداد کی خریداری پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے مختلف سلیبز میں کمی کی گئی ہے۔ چار فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد‘ 3.5 فیصد سے کم کر کے دو فیصد اور تین فیصد سے کم کر کے 1.5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ یہ تجاویز آئی ایم ایف کے سامنے بھی رکھی گئی تھیں لیکن منظوری نہیں مل سکی تھی۔ آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف اس پر کوئی اعتراض کرتا ہے یا نہیں‘ اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ اس بنیاد پر رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کی امید رکھنا مناسب نہیں۔ دو ماہ قبل حکومت نے پراپرٹی ٹرانزیکشنز پر ٹیکس چھوٹ دینے کیلئے کمیٹیاں بنائی تھیں‘ افواہوں کا بازار گرم ہوا اور کھربوں روپے لوگوں کی جیبوں نکال لیے گئے۔ اسلام آباد کی حدود میں جائیداد کی خریداری پر سٹامپ پیپر ڈیوٹی چار فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کی گئی۔ باقی صوبوں میں بھی پراپرٹی ٹیکس ریلیف دیا جا رہا ہے۔بجٹ میں پہلی مرتبہ آن لائن کاروبار پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ آن لائن بزنس میں ٹیکس کا حساب لگانا پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ سرکار نے یہ ذمہ داری کوریئر کمپنیوں کو سونپی ہے کہ وہ 18 فیصد سیلز ٹیکس اکٹھا کر کے سرکارکو جمع کرائیں۔ یہ پالیسی کس حد تک کامیاب رہتی ہے‘ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔