سیلاب اور کرپٹو کرنسی کے معاشی اثرات

پاکستان اس وقت سیلاب کی زد میں ہے۔ عوام کا مالی‘ جانی اور ملک کا معاشی نقصان کتنا ہو چکا ہے اس بارے میں ابھی حتمی اعداد وشمار سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 15 ارب ڈالرز کا مجموعی نقصان ہو چکا ہے۔ آئندہ دو سے تین دنوں میں سیلاب ملتان سے گزرے گا اور 6 ستمبر کو سندھ میں داخل ہو گا‘ اس کے بعد اصل زمینی صورتحال واضح ہو سکتی ہے۔ اس سیلاب نے 2022ء کے سیلاب کی یاد تازہ کر دی ہے اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں 1988ء کے سیلاب کے نقصانات بھی یاد کیے گئے۔ 2022ء میں تقریباً 30 ارب ڈالرز کا نقصان رپورٹ کیا گیا تھا۔ موجودہ سیلاب کا نقصان بھی اس کے لگ بھگ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ نقصان کتنا ہوا‘ اس کا علم جلد ہو جائے گا لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا حکمران ہر سال سیلاب کا نقصان رپورٹ کرنے اور مالی امداد کے حصول میں دلچسپی رکھتے ہیں یا ملک کو سیلاب کے نقصان سے بچانے کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا بھی کوئی منصوبہ موجود ہے؟ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکمران عوامی ذہن سازی میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کر دیا گیا ہے کہ ہر سال سیلاب آنا ہے اور نقصان ہونا ہے۔ یہ قدرتی آفت ہے جس کے سامنے انسان بے بس ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ قدرتی آفات کا اگر بروقت اندازہ لگا لیا جائے اور حفاظتی انتظامات کر لیے جائیں تو نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان کی جانب سے منعقد کردہ تقریب میں وزیر خزانہ صاحب نے انکشاف کیا کہ 2022ء کے سیلاب کے بعد جنیوا کانفرنس میں پاکستان کے لیے تقریباً چھ ارب 50 کروڑ ڈالر امداد کے لیے منظور کیے گئے لیکن حکومت سیلاب سے بچاؤ کے ایسے مؤثر منصوبے شروع نہ کر سکی جو پوری امداد کے حصول کو یقینی بنا سکتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وزیر خزانہ کا انکشاف ''اعترافِ جرم‘‘ ہے تو شاید غلط نہ ہو۔ لیکن اب عوام حکمرانوں کے اعترافِ جرم سے بھی خوش دکھائی نہیں دے رہے کیونکہ اعترافِ جرم کے بعد بھی احتساب ہونے کی امید نہیں۔ ملک میں آنے والے سیلاب کی ایک بڑی وجہ پہاڑی علاقوں میں تیزی سے جنگلوں کا خاتمہ ہے۔ لکڑی کے حصول کے لالچ نے ملک کے ایکو سسٹم کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 2001ء سے 2024ء تک پاکستان تقریباً آٹھ فیصد جنگلوں سے محروم ہو چکا ہے‘ جس میں سے تقریباً 78 فیصد درختوں کی کٹائی‘ 12 فیصد جنگلات کی آگ اور تقریباً 10 فیصد دیگر عوامل کارفرما ہیں۔ ملک میں چند شرائط کے ساتھ درختوں کی کٹائی پر پابندی ہے۔ خیبر پختونخوا میں صرف پرانے درختوں کی کٹائی کی اجازت تھی‘ اس قانون کی آڑ میں سیاستدانوں اور جنگلات کے افسران کی ملی بھگت سے جنگلات کو کاٹ کر اربوں روپے کمائے گئے لیکن ان کا احتساب نہیں ہو سکا۔ بلین ٹری سونامی منصوبہ مکمل کیا گیا لیکن اس کے مثبت اثرات ابھی تک سامنے نہیں آ سکے۔ 125 ارب روپے کا بلین ٹری سونامی منصوبہ سیلابوں کی شدت کو کم نہیں کر سکا بلکہ ہر سال ان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس سے نہ صرف کے پی بلکہ پنجاب بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ پنجاب میں ہونے والی بارشوں‘ پہاڑوں سے بہنے والے پانی اور بھارت کی آبی جارحیت نے اس مرتبہ پنجاب میں بھی بڑی تباہی مچائی ہے۔ تقریباً 2300 دیہات ڈوب چکے ہیں اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں بہہ گئی ہیں۔ اس سے ملک میں مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ چاول کی فصل سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے جس سے چاول کی برآمدات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ گزشتہ سال بھی چاول کی برآمدات میں تقریباً 14 فیصد کمی دیکھی گئی تھی۔ پچھلے ماہ باسمتی چاول کی برآمد میں تقریباً 43 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ اس کی وجہ سستا انڈین چاول ہے۔ سیلاب کی وجہ سے گندم کے گودام بھی بہہ گئے ہیں جس کے باعث گندم کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ راستے بند ہونے کی وجہ سے سپلائی چین بھی بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر کوئی بڑا ریلیف پیکیج جاری نہ کیا تو عوامی مسائل شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ حکومت نے حسبِ روایت بین الاقوامی اداروں سے مدد کی اپیل کر دی ہے اور کچھ اداروں نے امداد کا اعلان بھی کیا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کے لیے 30 لاکھ ڈالر گرانٹ کا اعلان کیا ہے۔ مزید امداد بھی ملنے کی امید ہے لیکن عام آدمی کو اس کا فائدہ اسی صورت ہو سکتا ہے اگر امداد براہ راست متاثرین تک پہنچ سکے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں چند سیاستدان اور بیورو کریٹس سیلاب کو ایک موقع سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں مال بنانے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ حکومت پنجاب نے دریائے راوی کے گرد بند بنانے کے بڑے منصوبے کا اعلان کیا ہے تاکہ لاہور کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچایا جا سکے۔ یہ منصوبہ کب اور کیسے پورا ہو گا اس بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ رُوڈا (RUDA) کے تحت راوی دریا کے گرد جو انفراسٹرکچر بننا تھا‘ ابھی تک اس پر ہی کام شروع نہیں ہو سکا۔
دوسری جانب ملک میں ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے قانون سازی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ ورچوئل ایسٹس ریگولیٹری اتھارٹی کا پہلا اجلاس بھی ہو گیا ہے اور جولائی میں صدرِ پاکستان نے ورچوئل ایسٹس ایکٹ پر دستخط کیے تھے لیکن اس ایکٹ میں کیا لکھا ہے اس سے ابھی تک تمام سٹیک ہولڈرز ناآشنا ہیں۔ ایکٹ کی دستخط شدہ کاپی کسی بھی پلیٹ فارم پر موجود نہیں ہے۔ اس حوالے سے منسٹر آف سٹیٹ فار کرپٹو اینڈ بلاک چین سے رابطہ بھی کیا گیا‘ ٹیم کی ذمہ داری بھی لگ گئی‘ ٹیم نے اس سلسلے میں وعدے بھی کیے لیکن ایکٹ ابھی تک مہیا نہیں کیا جا سکا۔ وزیر خزانہ کے مشیر برائے معاشی اصلاحات خرم شہزاد سے بھی تفصیلی بات ہوئی‘ انہوں نے بھی بڑے دعوے کیے لیکن ایکٹ میں کیا لکھا ہے شاید وہ خود بھی نہیں جانتے تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید ورچوئل ایسٹس ایکٹ ابھی مکمل نہیں ہوا ہے یا بوجوہ اسے پبلک نہیں کیا جا رہا۔ سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد کرپٹو اور ڈیجیٹل کرنسی میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ کمپنی بنانے کے لیے کتنا پیڈ اَپ کیپٹل چاہیے اور اہلیت کا معیار کیا ہے۔ اس کے علاوہ کرپٹو کرنسی کی مائننگ میں بڑا مسئلہ بجلی کی کم ریٹ پر فراہمی کو یقینی بنانے کا ہے۔ حکومت نے دو ہزار میگاواٹ بجلی مہیا کرنے کا اعلان کر رکھا ہے لیکن ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ بجلی کا ریٹ کیا ہو گا۔ کرپٹو مائننگ کرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ ریٹ پانچ سینٹ رکھا جائے۔ آٹھ سینٹ سے زیادہ ریٹ تو وارے میں ہی نہیں‘ جبکہ اس وقت حکومت انڈسٹری کو بجلی 15 سینٹ پر دے رہی ہے۔ اگر ریٹ آٹھ سینٹس سے زیادہ دیا گیا تو ملک میں کرپٹو مائننگ تقریباً ناممکن ہے اور سرمایہ بیرونِ ملک منتقل ہو سکتا ہے۔ دوہزار میگاواٹ بجلی کو کرپٹو مائننگ میں استعمال کرنے کے لیے تقریباً سوا تین لاکھ کرپٹو مشینیں چاہئیں۔ ایک مشین کی مالیت تقریباً 2200 ڈالر ہے۔ اس طرح تقریباً ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملک میں آ سکتی ہے۔ اگر بجلی ٹیرف بلوں کے عوض حکومت ہر ماہ بِٹ کوائن وصول کرے اور انہیں خرچ نہ کرے تو تقریباً دس سالوں میں پانچ ارب ڈالرز ملکی ذخائر میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس وقت حکومت کے پاس تقریباً بائیس ہزار میگا واٹ بجلی وافر ہے۔ اگر پوری بجلی آٹھ سینٹس پر کرپٹو مائننگ کے لیے مہیا کر دی جائے تو اگلے دس سالوں میں تقریباً 55 ارب ڈالرز کے ذخائر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ کرپٹو کرنسی پالیسی کو جلد منظر عام پر لائے تاکہ ملکی معیشت کی سمت کا تعین کیا جا سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں